مجاہد حسین خٹک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا معاشرہ جاگیرداری نظام سے سرمایہ دارانہ نظام کی جانب ہجرت کر رہا ہے۔ یہ ہماری خواہش نہیں تھی لیکن تاریخی قوتوں کا جبر گھسیٹ کر ہمیں ایک یکسر نئے نظام کی طرف لے جا رہا ہے۔
ہجرت کے اس عمل میں سب سے زیادہ روایتی فیملی سسٹم متاثر ہوتا ہے۔ ہر مشرقی معاشرہ اس عمل سے گزر رہا ہے۔ تمام معاشرے مختلف مراحل میں ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اس چیلنج سے نبردآزما ہیں۔
اس عمل کو انٹرنیٹ اور موبائل فون نے تیز تر کر دیا ہے۔ آپ کسی بھی شہر کا عدالتی ڈیٹا اٹھا لیں آپ کو طلاق اور خلع کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہوتا دکھائی دے گا۔ رواں برس صرف لاہور شہر میں ایک لاکھ خواتین نے خلع کے لیے درخواستیں دائر کی ہیں۔
عورت اور مرد کا جو رشتہ ایک مضبوط زمین پر کھڑا تھا، اس میں دراڑیں پیدا ہو چکی ہیں جو ہر گزرتے روز وسیع تر ہوتی چلی جا رہی ہیں، کئی گھرانے ان دراڑوں میں گر کر بکھر چکے ہیں۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی تخریب سے آخرکار تعمیر جنم لے سکتی ہے اگر ہمارا سماج تخلیقی انداز میں سوچنے لگے۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ چیلنج کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ اس کے بعد اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنائی جائے۔
تاریخی قوتیں ہمیشہ سے معاشروں کو الٹ پلٹ کرتی رہی ہیں۔ ہمارے ساتھ کوئی انوکھا کام نہیں ہو رہا۔ یہ تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ مسائل کے حل کے لیے تخلیقی انداز میں نا سوچنا ہے۔
غیر روایتی چیلنجز کا مقابلہ روایتی انداز کی سوچ سے نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کیا گیا تو وقت کا یہ سیل رواں سب کچھ بہا کر لے جائے گا اور افراتفری کا جو سماں ہمیں ابتدائی مرحلے پر نظر آ رہا ہے یہ پھیل کر پورے معاشرے پر محیط ہو جائے گا۔
اسی طرح اگر مغربی پیمانے مستعار لے کر اس چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کی گئی تب بھی نتیجہ افراتفری کی صورت میں نکلے گا کیونکہ نقالی چاہے داخلی روایت کی ہو یا خارجی تہذیب کی، دونوں ہی نئے دور کے مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکتیں۔
خواتین کو برقعہ کے ریپر میں لپیٹ کر گھر میں بند کر دینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ عورت کو مکمل اختیار دینے سے بھی صرف خرابی پیدا ہو گی۔ کچھ درمیانی سوچ ڈھونڈنی ہو گی۔ لیکن اس سوچ کا محور مرد ہی ہونا چاہیئے کیونکہ عورت چاہے گھر میں بند ہو یا باہر ملازمت کرتی ہو، دونوں صورتوں میں مرد کا رویہ ہی رشتوں کو برقرار رکھ سکتا ہے۔
اپنی بیٹیوں کی تربیت ضرور کریں لیکن زیادہ توجہ بیٹوں پر دیں کیونکہ اس مسئلے کے حل کی کلید کل کو انہی کے ہاتھ میں ہو گی۔ اسی نکتے کو ذہن میں رکھ کر سوچنا شروع کریں گے تو مسائل کا حل نکلنے لگے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر