مجاہد حسین خٹک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ ہو، شطرنج کی بازی ہو، کرکٹ کا کھیل ہو یا انسان کی مکمل زندگی۔۔ ان تمام میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دو قسم کی اپروچ چلتی ہیں۔ ایک میں جزئیات پر فوکس ہوتا ہے جبکہ دوسری میں جزئیات کی گھمن گھیری سے اوپر اٹھ کر ایک بلند نکتہ نظر سے معاملات کو دیکھا جاتا ہے۔ اس بات کو تھوڑی دیر کے لیے یہیں پر روک دیتے ہیں۔
سرچ انجن آپٹمائزیشن (ایس ای او) سے ویب سائیٹس یا یوٹیوب چینل چلانے والے افراد آگاہ ہیں۔ جس ویب سائیٹ یا چینل کو سرچ میں اوپر جگہ مل گئی وہ بیٹھے بٹھائے کامیاب ہو گیا۔ یہ کامیابی کی اور اس کے نتیجے میں پیسہ کمانے کی کلید ہے۔
ہر ویب سائیٹ یا یوٹیوب چینل اس وقت سرچ انجن میں اپنی رینکنگ بڑھانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ ان کی تعداد دیکھی جائے تو اربوں میں چلی جاتی ہے۔ گوگل دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن اور یوٹیوب دوسرے نمبر پر بڑا سرچ انجن ہے۔ ٹریفک کا سب سے بڑا سورس بھی یہی دو سرچ انجن ہیں، اسی لیے فوکس بھی انہی پر رکھا جاتا ہے۔
اب واپس آتے ہیں اپنی پہلی بات پر۔ زندگی کے دیگر میدانوں کی طرح سرچ انجن میں بلند رینک حاصل کرنے کے لیے بھی دو نکتہ نظر موجود ہیں۔ ایک میں آپ ایس ای او کی ٹیکنیکس پڑھتے ہیں اور انہیں آزما کر سرچ میں اوپر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گوگل نے خود بتایا ہے کہ وہ کسی بھی ویب سائیٹ کو رینک کرنے کے لیے دو سو سے زائد پیرامیٹرز استعمال کرتا ہے۔ ان تمام کو استعمال کرنا ناممکن ہے لیکن بیس پچیس پیرامیٹرز ایسی ہیں جن پر عمل کرنے سے کامیاب ایس ای او کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ان بیس پچیس ٹیکنیکس کو بھی استعمال کرنا ایک بہت مشکل، طویل اور مشقت طلب کام ہے۔ یہ دراصل جزئیات پر فوکس کر کے کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی ہے جس میں آپ سرچ کنسول جیسے ٹولز کو سمجھتے ہیں، گوگل انالیٹکس کے سمندر میں غواصی کرتے ہیں، بیک لنکس بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، کی ورڈ کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں، ان میں شارٹ کی ورڈز اور لانگ کی ورڈز کی کھوج میں لگے رہتے ہیں، اپنے میدان میں کامیاب ویب سائیٹس یا چینلز کا مطالعہ کرتے ہیں، ڈومین اتھارٹی بڑھانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی طویل راستہ ہے جس پر چلتے چلتے زیادہ تر لوگ تھک جاتے ہیں۔
دوسری حکمت عملی وہ ہے جسے holistic اپروچ کہا جاتا ہے جس میں آپ جزئیات کو ایک طرف رکھ کر وسیع سطح پر پلان ترتیب دیتے ہیں اور اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔
میں نے زندگی میں جتنی بھی ویب سائیٹس بنائی ہیں، ان تمام کو چند ماہ میں گوگل سرچ میں اوپر لے آیا ہوں۔ درجنوں ویب سائیٹس کو کامیاب کیا ہے اور کبھی بھی جزئیات میں نہیں گیا۔ حتیٰ کہ سرچ کنسول بھی بہت کم دیکھا ہے، گوگل انالیٹکس کو ذاتی ویب سائیٹس کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا، کی ورڈز پر زیادہ غور نہیں کیا، اس کے باوجود ہر ویب سائیٹ کامیاب رہی ہے۔ اس کامیابی کی وجہ گوگل کا مزاج شناس ہونا ہے۔
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب آپ ویب سائیٹ پر کام کریں تو ذہن سے قاری کو نکال دیں اور گوگل کو فوکس میں رکھ کر فیصلے کریں۔ اگر یوٹیوب چینل ہے تو اس میں صرف تھمب نیل بناتے وقت ویور کو ذہن میں رکھیں، باقی تمام پہلوؤں پر کام کرتے ہوئے یوٹیوب کے مزاج پر فوکس رکھیں۔
یہاں سے میں صرف گوگل کی بات کروں گا لیکن یہ تمام اصول یوٹیوب پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ گوگل سرچ انجن بنیادی طور پر یہ تلاش کرتا ہے کہ کون سی ویب سائیٹ کسی بھی موضوع پر مہارت رکھتی ہے۔ یہ ایک بات تمام ایس ای او ٹیکنیکس پر بھاری ہے۔ اگر یہ بات آپ کو سمجھ آ گئی تو آپ کی ہر ویب سائیٹ کامیاب ہو جائے گی۔ آئیے اس بات کو سمجھتے ہیں۔
فرض کریں کوئی شخص شہد کا آن لائن کاروبار کرتا ہے اور اپنی ویب سائیٹ کی سرچ رینکنگ بہتر کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیئے کہ گوگل کے سامنے خود کو اس موضوع پر ماہر ثابت کرے۔ اس کا سادہ سا طریقہ ہے کہ شہد کے مختلف ذائقوں، اس کی تیاری، اس کے فوائد، اس پر ہونے والی ریسرچ، اس کی اقسام، غرضیکہ ہر پہلو پر اپنی ویب سائیٹ پر معیاری آرٹیکلز شامل کرتا جائے۔ تین چار ماہ میں ہی گوگل اس ویب سائیٹ کو شہد کے شعبے میں ماہر سمجھنے لگے گا اور اس کی رینکنگ ایک دم سے بلند کر دے گا۔
لیکن یہاں چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ آپ ایک الٹے درخت کی صورت میں پلان تیار کریں۔ سب سے اوپر وہ آرٹیکلز ہوں جو بنیادی امور کے متعلق ہوں۔ جیسے شہد کی اقسام کے متعلق ایک آرٹیکل ہو، دوسرا اس کے فوائد کے متعلق، تیسرا اس کی تیاری کے متعلق۔۔ یہ اپنے موضوع کا جامع احاطہ کریں۔
اس کے بعد ہر آرٹیکل کے ذیلی مضامین لکھے جائیں۔ شہد کی ہر قسم پر تفصیلی مضمون ہو، اس کے ایک ایک فائدے پر الگ سے آرٹیکلز لکھے جائیں، اس کی تیاری کے مختلف طریقوں پر مزید آرٹیکلز لکھے جائیں۔ جو مین آرٹیکل ہو، اس میں ان ذیلی آرٹیکلز کے لنکس دیے جائیں تاکہ جو بھی آپ کی ویب سائیٹ پر آئے وہ زیادہ سے زیادہ پیجز پر جائے۔
یہ ویب سائیٹ کی دو سطحیں ہو گئیں، تیسری سطح میں ذیلی آرٹیکلز میں سے ایسے پہلو منتخب کریں جن پر مزید ذیلی لکھا جا سکتا ہو۔ یہ ایک درخت کی طرح ہو جس کی جڑ سے تنا نکلے، اس پر شاخیں پھوٹیں، ان شاخوں پر پتے نمودار ہوں۔
لیکن پہلے گوگل پر تفصیلی ریسرچ کریں، کامیاب ویب سائیٹس کا مطالعہ کریں، ایک پلان ترتیب دیں، تینوں سطحوں پر جو بھی کام کرنا ہے اس کا پیپر ورک مکمل کریں، مختلف کی ورڈز استعمال کر کے گوگل کے نتائج دیکھیں اور ان کی ورڈز کو جمع کرتے جائیں جنہیں ہر آرٹیکل میں شامل کریں۔
یہ کامیابی کا سب سے شارٹ کٹ نسخہ ہے، بے ترتیب ویب سائیٹس سے گوگل بہت خار کھاتا ہے، ایسی ویب سائیٹس جس میں ہر قسم کا مواد جمع کر دیا گیا ہو، ان کا رینکنگ میں آنا بہت مشکل کام ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ جو بھی مواد آپ ویب سائیٹ پر ڈالیں وہ آپ کا اوریجنل ہو، کسی اور جگہ سے چرایا نا گیا ہو، الفاظ آپ کے اپنے ہوں، خوبصورت انداز میں ترتیب دیا گیا ہو، اس میں انٹرنل لنکس ڈالے جائیں، جس بھی پہلو پر بات کریں اسے تشنہ نا رہنے دیں بلکہ ہر پہلو سے اسے کور کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس موضوع پر بھی ویب سائیٹ بنائیں، اس کی گوگل میں سرچ لازمی ہو۔ اگر آپ کسی ایسے موضوع پر ویب سائیٹ بناتے ہیں جس کی ماہانہ سرچ ہی چند ہزار ہو تو پھر کامیابی نہیں مل سکے گی۔
ایک اور اہم پہلو یہاں بتانا ضروری ہے تاکہ آپ گوگل کے مزاج شناس ہو سکیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ سرچ انجن کا طریق کار تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے جب ہم ویب سائیٹ بناتے تھے تو اس کے آخر میں کی ورڈز ڈال دیا کرتے تھے جس سے تیزی سے رینکنگ بہتر ہوتی جاتی تھی۔ اب یہ طریق کار الٹا نقصان دیتا ہے۔
اب گوگل کسی بھی موضوع پر سرچ کرنے والے افراد کے رویوں کو دیکھ کر رینکنگ کا فیصلہ کرتا ہے۔ فرض کریں کسی نے سرچ میں آپ کی ویب سائیٹ کا لنک دیکھ کر اس پر کلک کیا اور چند سیکنڈ بعد وہ واپس آیا اور دوسرے کسی لنک پر کلک کیا تو گوگل سمجھ جائے گا کہ آپ کی ویب سائیٹ میں اسے مطلوبہ معلومات نہیں ملیں۔ اگر ڈھیروں لوگ یہی کام کریں گے تو آپ کی ویب سائیٹ کو گوگل بہت پیچھے دھکیل دے گا جہاں سے واپس آنا بہت دشوار کام بن جائے گا۔
اس لیے اپنا مواد دلچسپ رکھیں، اس میں تصاویر شامل کریں، ممکن ہو تو ویڈیوز بھی ڈالیں کیونکہ اس وقت ٹیکسٹ سے زیادہ ویڈیوز کو لوگ پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی ہی ویب سائیٹ کے دیگر لنکس بھی اس میں شامل کریں تاکہ وزٹر آپ کی ہی ویب سائیٹ میں گھومتا پھرتا رہے، اسے واپس گوگل میں جا کر کسی اور لنک پر کلک کرنے کی ضرورت پیش نا آئے۔
اگر اس طریق کار پر عمل کریں تو ویب سائیٹ تین ماہ سے چھ ماہ کے درمیان سو فیصد کامیاب ہو جائے گی۔ یہ ذاتی تجربہ ہے جو ہر بار کامیاب ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر