نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گوادر واسیوں کا احتجاجی دھرنا (1)||حیدر جاوید سید

گوادر واسی اور بہت کچھ کہتے ہیں کالم کے دامن میں گنجائش نہیں باقی باتیں کل کے کالم پر اٹھارکھتے ہیں فی الوقت بس اتنا ہی کہ ملک بھر کے زندہ ضمیر لوگوں کو گوادر واسیوں کے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہلِ گوادر کو مبارک ہوبالآخر ان کے احتجاج کے 28ویں روز وزیراعظم نے ان کے ’’جائز‘‘ مطالبات کا نوٹس لے لیا ہے۔ فی الوقت کرہ ارض کے "مصروف ترین” شخص کا یہ اقدام بھی لائق ’’تحسین‘‘ ہے۔
اطلاع یہ بھی ہے کہ بلوچستان حکومت کو بھی ’’جھرجھری‘‘ محسوس ہوئی اس نے وزیراعظم کے نوٹس لئے جانے کی خبر سن کر مذاکراتی کمیٹی قائم کردی ہے
ان دونوں باتوں کے ضمن میں فقیر راحموں جوکہہ رہے ہیں وہ لکھنے سے قاصر ہوں۔ نئے بکھیڑے میں پڑنے کا کیا فائدہ۔ گوادر واسیوں کا احتجاج 15نومبر سے شروع ہوا تھا۔ احتجاج نے ابتدا ہی میں دھرنے کی صورت اختیار کرلی۔
کچھ دوست اس دھرنے کی قیادت کرنے والے مولانا عطاُ الرحمن کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔ وجہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہونا ہے۔
گوادر جہاں بائیں بازو اور قوم پرستوں کے لئے سیاسی سرگرمیوں کا احیا کئی برسوں سے زندگی سے کھیلنے جیسا بنا ہوا ہے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے مولانا کی قیادت میں دھرنا حیران کن ہے۔
پچھلے 28دنوں میں دھرنے میں کی گئی تقاریر کی بنیاد پر 10سے زائد مقدمات درج ہونے کی اطلاع ہے۔ اسی دوران ممتاز بلوچ سیاسی رہنما اور بائیں بازو کی جماعت عوامی ورکر پارٹی کے سربراہ یوسف خان مستی بغاوت کے ایک مقدمے میں گرفتار کر لئے گئے یہ مقدمہ دھرنے کے شرکا سے کیئے گئے خطاب کی بنیاد پر قائم ہوا ، گوادر واسیوں کا دھرنا گو جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے مولانا عطاء الرحمن کی قیادت میں جاری ہے لیکن اس میں شریک مردوزن اپنی جدا جدا سیاسی محبتوں کے باوجود اپنے مطالبات کے حق میں پرعزم ہیں۔
گوادر واسی چاہتے کیا ہیں آگے بڑھنے سے قبل دھرنے کے شرکا کے مطالبات پر ایک نظر ڈال لیجئے
’’گوادر واسیوں کے اس دھرنے کو ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کا نام دیا گیا ہے۔ سمندر میں ٹرالنگ کے ذریعے غیرقانونی طور پر مچھلیوں کے شکار پر پابندی جس سے عام ماہی گیروں کا صدیوں سے لگا بندھا رزق بری طرح متاثر ہوا ہے۔ گوادر میں موجود 70سے زائد سکیورٹی چیک پوسٹوں کا خاتمہ جہاں ہر وقت مقامی آبادی سے جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتاہے۔ مکران ڈویژن میں شہریوں کی تذلیل کے لئے اپنائے گئے ہتھکنڈوں کا خاتمہ، بارڈر ٹریڈ پر روک ٹوک اور کمیشن و ٹوکن کا خاتمہ، بنیادی سہولتوں سے محروم گوادر کو آفت زدہ علاقہ قرار دینا، گوادر میں بنیادی شہری و سیاسی حقوق کی بحالی، صحت مندانہ سرگرمیوں پر پابندیوں کا خاتمہ، ریاستی جبرواستبداد سے نجات، سی پیک کے اولین استفادے پر مقامی باسیوں کا حق تسلیم کیا جانا اور مقامی لوگوں کے مفادات کا تحفظ، ڈرگ مافیا پر پابندی، ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی، بلوچ مسنگ پرسن کے خلاف ماورائے عدالت اقدامات کا خاتمہ اور انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا، گوادر سمیت پورے مکران سے منشیات کے کاروبار کا مکمل خاتمہ اور سرپرستی کرنے والے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور منشیات کی سمگلنگ کے راستوں کو بند کرنا۔ گوادر میں یونیورسٹی کو فعال بنانا، جدید طبی آلات سے آراستہ ہسپتال کے قیام اور ماہر معالجین (ڈاکٹرز) کی فراہمی‘‘

گوادر واسیوں کے یہ 14 مطالبات ہیں دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ ان 14 مطالبات میں سے کون سا مطالبہ غیرقانونی ہے یا ایسا کہ دھرنے کے آغاز سے 28دن گزرجانے پر کسی کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگے؟
گوادر کے لوگوں کا شکوہ ہے کہ آزاد منش محنت کشوں کے شہر کو سکیورٹی اداروں نے چیک پوسٹوں کا جنگل بنادیا ہے ان چیک پوسٹوں پر ان کی تذلیل کی جاتی ہے یہاں تک کہ خواتین، بوڑھوں اور بچوں سے بھی غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ سیاسی کارکن کہتے ہیں جو لوگ ہماری سماجی روایات سے ہی ناواقف ہیں ان کے رویوں سے پیدا ہونے و الی بدمزگیوں کو سمجھنے کی بجائےہمارے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

سی پیک منصوبے اور بندرگاہ کی وجہ سے گوادر مرکزی اہمیت کا شہر ہے اور اس شہر کے باسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سرکاری اہلکار جنتی ’’محنت‘‘ لوگوں کو ذلیل کرنے پر کرتے ہیں اتنی سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کے لئے کرتے تو منشیات فروشی ختم ہوچکی ہوتی۔ گوادر کو غیراعلانیہ طور پر ایسا شہر بنادیا گیاہے جہاں اپنی مرضی سے سانس لینا اور اپنے شعور کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔
گوادر بنیادی طور پر ماہی گیری کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کا شہر ہے اکثریت ماہی گیر خاندانوں کی ہے ان کی روزی روٹی صدیوں سے ماہی گیری سے ہی وابستہ ہے۔
پچھلے چند برسوں سے سرکاری سرپرستی میں غیرقانونی ٹرالنگ کے ذریعے سمندر سے مچھلیاں پکڑنے کا کاروبار جاری ہےاس غیرقانونی کاروبار سے مخصوص افراد تو کچھ ہی عرصہ میں کروڑ پتی ہوگئے مگر ماہی گیروں پر زندگی تنگ ہوتی چلی جارہی ہے۔
شہرمیں پینے کے صاف پانی کا فقدان ہے۔ دھرنے والے کہتے ہیں ہم سے وعدہ کیا گیا کہ اس شہرکو جدید ترین شہر بنادیں گے وہ وعدہ کیا پوراکرناتھا الٹا ہماری زندگیوں میں زہرگھول دیا گیا ہے سب جانتے ہیں منشیات کا کاروبار کن کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ یہ سطور لکھتے وقت گوادر دھرنا 29ویں دن میں داخل ہوچکا ہے۔
ماہی گیروں کے پورے پورے خاندان اس دھرنے کا حصہ ہیں۔ درجنوں نہیں سینکڑوں غریب خاندان اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے کھانے میں دھرنے والوں کو شریک کررہےہیں۔ دھرنے کے شرکا کی تعدا میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ گوادر کےمضافات اور مکران بھر سے مردوزن دھرنے میں شرکت کے لئے آرہے ہیں۔
پچھلے ہفتے کے دوران ہونے والے دو احتجاجی مظاہروں میں شریک لوگوں کی تعداد حیران کن تھی جبرواستحصال کا شکار پسماندہ ماہی گیروں کا عزم و حوصلہ مثالی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہا گیا تھا سی پیک کا سب سے زیادہ فائدہ ہمیں ہوگا، ملازمتیں ملیں گی، جدید ادارے بنیں گے، روزگار آئے گا، سہولتوں کی نعمتوں سے مالامال ہوجائو گے، وہ وعدے کیا ہوئے؟
ہم وعدے یاد دلاتے ہیں تو جھوٹے مقدمات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست واجہ محمد افضل کہتے ہیں
’’شاہ جی جتنی سختیاں ہم پر مقامی ہونے کے باوجود کی جارہی ہیں اتنی تو پنجاب میں کرتارپور راہداری کے ذریعے بھارتی پنجاب سے آنے والے سکھوں پر بھی نہیں کی جاتیں‘‘
سچ پوچھیں تو میرے پاس جواب کے لئے الفاظ نہیں ہیں ، ملک کے سب سے بڑے صوبے کے میڈیا ہاوسز نے گوادر دھرنے کا بلیک آوٹ کیا۔ اتوار 12دسمبر کو جب وزیراعظم نے اس معاملے کا نوٹس لیا تو چند میڈیا ہائوسز کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے اس موضوع پر بات کی۔
سوشل میڈیا پر بات بات پر ہنگامے اٹھانے اور ٹرنٹ چلانے والے بھی گوادر کے مسئلہ پر خاموشی اوڑھے ہوئے ہیں۔ گوادر بھی ہم جیسے انسانوں کا شہر ہے نسل در نسل ماہی گیری سے وابستہ محنت کشوں کا شہر جو سمندر کا سینہ چیر کر رزق کماتے ہیں لیکن زندگی کی ہر اس سہولت سے محروم ہیں جو انسان کا بنیادی حق ہے۔
اہل گوادر سمجھ رہے ہیں کہ اپنی تحریک اور زندگی دونوں میں وہ تنہا ہیں۔
22کروڑ کی آبادی والے ملک میں اب تک ان کے حق میں 22آوازیں بھی نہیں اٹھ پائیں۔
انہیں یوسف مستی خان کی گرفتاری پر بھی افسوس ہے۔ جھوٹے مقدمات کے قیام اور بعض ایجنسیوں کے اہلکاروں کی طرف سے دھمکائے جانے پر بھی وہ دکھی ہیں ،
گوادر واسی اور بہت کچھ کہتے ہیں کالم کے دامن میں گنجائش نہیں باقی باتیں کل کے کالم پر اٹھارکھتے ہیں فی الوقت بس اتنا ہی کہ ملک بھر کے زندہ ضمیر لوگوں کو گوادر واسیوں کے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author