نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ضمنی الیکشن حلقہ پی پی 206 خانیوال میں تازہ ترین صورت حال||عامر حسینی

اس سے وسائل کی عدم دستیابی کا تاثر تو ختم ہوتا نظر آتا ہے لیکن پی پی پی میں شامل بچا کھچا مڈل کلاس اور سفید پوش کارکن جس کے من میں کہیں الیکشن لڑنے کی امید ہوتی ہے وہ سخت مایوس ہوا ہے -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب سے فیورٹ جماعت :مسلم لیگ نواز، ابھی تک مطلع شفاف، سورج آب و تاب سے نکل رہا ہے اگر شرح ووٹ پچھلے عام الیکشن کی نصف بھی رہی تو نواز لیگ کو جیتنے سے سوائے نتائج بدلے کوئی روک نہیں سکے گا –
پاکستان مسلم لیگ نواز نے پی پی پی کی این اے 133 کی سیاسی حکمت عملی کا بغور جائزہ لیا اور حلقہ پی پی 206 میں اس نے اس کے مقابلے میں حکمت عملی تیار کی ہے – مسلم لیگ نواز کی صوبہ پنجاب سے ہر وہ قیادت حلقے میں آئی جس کا اثر حلقے میں ہو- مسلم لیگ نواز میں شامل تمام دھڑے یک جان ہوکر جان لڑارہے ہیں، نواز لیگ کا عام ووٹر بھی جوش میں اور محترک ہے –
(یہ تلخ حقیقت ہے لیکن تجزیہ معروضی بنیاد پہ ہوتا ہے خواہشوں کی بنیاد پہ نہیں)
دوسرے نمبر پہ پی ٹی آئی ( لوگ عمران کی پالیسیوں سے نالاں ہیں لیکن ان نالاں لوگوں کو پولنگ کے دن پولنگ پہ بڑی تعداد میں لانا ہی مشکل ترین کام نظر آرہا ہے لیکن پی ٹی آئی میں شامل مقامی سیاسی دھڑوں کے اپنے زاتی اثر، حکومتی پارٹی ہونے اور ترقیاتی کاموں کے فنڈز وغیرہ نے مل کر اس کا ووٹ بینک جمع کررکھا ہے)
تیسرے نمبر پہ تحریک لبیک ہے، اگرچہ اس کا ایک بڑا پوٹینشل ووٹر دو نمبر یونین کونسل میں شیخ فتح علی نے مسلم لیگ نواز میں روک کر رکھا ہے لیکن یہ پھر بھی تیسرے نمبر پہ ہے
پی پی پی چوتھے نمبر پہ ہے اور یہ فی الحال 8 سے 10 ہزار ووٹوں کے درمیان ہے جو بہرحال 2018ء سے تین سے چار ہزار زیادہ ہیں لیکن جن پاکٹس کو اپنی طرف کرنے کے دعوے پی پی پی کے صوبائی قائدین کررہے ہیں وہ اگر واقعی مل جاتے ہیں تو پی پی پی 15 ہزار کے قریب پہنچ سکتی ہے –
پی پی پی کی مرکزی قیادت نے باہر سے جتنی افرادی قوت، جتنے مالی وسائل مہیا کیے اُس کے مطابق یہ رزلٹ نہیں ہے جس کی سب سے بڑی وجہ تو پی پی پی کا یونین کونسل اور وارڈ سطح پہ تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونا ہے –
دوسرا پی پی پی کے امیدوار کے بارے میں عام ووٹر کا تاثر یہ ہے اُس کا عوام سے رابطہ نہیں ہے اور نہ ہی الیکشن کے بعد انھیں اس بات کا یقین ہے کہ امیدوار ان کے مسائل کے حل کے لیے مل بھی پائے گا یا نہیں، مقامی سیاست میں تھانہ، کپچری، ریونیو ، بلدیہ یہ بہت اہم فیکٹر ہیں اور پی پی پی کا امیدوار اس لحاظ سے کافی کمزور ہے –
موجودہ مہم کے دوران امیدوار اکثر علاقوں میں جا نہیں سکا- لوگ اس کے سیاسی برتاؤ سے ناواقف ہیں یہی وجہ ہے کہ یوسف رضا، علی حیدر گیلانی، مخدوم احمد محمود کے بیٹے ،ایم این اے نوابزادہ افتخار خان دیگر بااثر قیادت اپنے جاننے والے دھڑوں اور گروپوں کو اپنی سرپرستی کی یقین دہانی کراتے رہے –
الیکشن سیاست میں کسی امیدوار کو لیکر ” تحفظ” کے احساس کی طاقتور موجودگی کا نہ ہونا یا ایسا تاثر بن جانا اس پارٹی کے لیے انتہائی خطرناک ہوتا ہے –
ووٹر کے زہن میں یہ بات ہے کہ الیکشن کے بعد پی پی پی کے جو بااثر لوگ نظر آتے ہیں وہ الیکشن کے بعد اپنے حلقوں میں چلے جائیں گے تو ان کا کیا ہوگا؟
پی پی پی کے ووٹر سے ہٹ کر عام ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنا یہ ایسا چیلنج ہے جس میں کامیاب ہونے کے لیے پی پی پی کے مہمان قائدین اور مہمان افرادی قوت اور مخلص مقامی کارکنوں ( جیسے پی پی پی ورکرز اتحاد گروپ، کسان ونگ رہنما پیر سیف اللہ کا گروپ، خواتین میں شازیہ عابد ایم پی اے اور ان کی ساتھی خواتین کا ورک ) دن رات ایک کیے ہیں اور اسی محنت نے پی پی پی کو 8 سے 10 ہزار ووٹون تک پہنچادیا ہے –
کیا پی پی پی کی انتخابی سٹریٹیجی غریب سیاست کو غالب کرنے والی ہے؟
این اے 133 لاہور، پی پی 206 خانیوال میں پی پی پی کی انتخابی سٹریٹجی میں بنیادی اصول اپنی حریف سیاسی جماعتوں کی بھاری بھرکم خرچے والی جماعتوں کی طرز پہ الیکشن پہ خرچا کرنا ہے –
اس سے وسائل کی عدم دستیابی کا تاثر تو ختم ہوتا نظر آتا ہے لیکن پی پی پی میں شامل بچا کھچا مڈل کلاس اور سفید پوش کارکن جس کے من میں کہیں الیکشن لڑنے کی امید ہوتی ہے وہ سخت مایوس ہوا ہے –
مالیاتی فیزیبلٹی کے ساتھ الیکشن میدان میں اترنا لیکن تنظیمی سٹرکچر کا گراس روٹ لیول پہ موجود نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر فیزیبلٹی کے تحت وسائل "کاروائی باز” مافیا کے ہاتھوں خرچ ہونا اس صورت حال نے پی پی 206 خانیوال میں پی پی پی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا –
اس الیکشن کے لیے پی پی پی کی سیاسی سٹریٹجی میں کہاں کہاں خلا تھے وہ الیکشن رزلٹ کے بعد بیان کیے جائیں گے –
یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author