نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎فیصل آباد: دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

سوشل میڈیا کی طاقت بہت سی نا انصافیوں کا پردہ چاک کرتی ہے لیکن اگر اس واحد سہارے کا وجود شکوک و شبہات کے پردوں میں الجھ گیا تو وہ جو سوشل میڈیا پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں تو سوچیے کہ ان کا کیا بنے گا؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”ڈاکٹر طاہرہ، مجھے اس وڈیو میں کچھ گڑبڑ لگتی ہے، بات وہ نہیں ہے جو وڈیو ظاہر کرتی ہے“
”کیا مطلب؟“ ہم نے پوچھا،

” غور سے دیکھیے صرف ایک سیکنڈ کا منظر ہے کہ ایک عورت شور مچا رہی ہے اور دوسری چادر لئے گھوم رہی ہے۔ یک لخت بڑی چھوٹی کی طرف گھومتی ہے اور اس کی چادر اتار کر پھینک دیتی ہے۔ کیا آپ نے سوچا کہ اس نے چھوٹی کی چادر کیوں اتاری؟“

”میرا خیال ہے کہ چادر کھینچ کر شاید خود کو بھی ڈھانپنے کی کوشش کر رہی ہو گی“ ہمارا جواب۔
”لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ چادر دور پھینک دی“
”ہو سکتا ہے کہ وہ زد و کوب ہو کر جذباتی ہیجان کا شکار ہو چکی ہو“
”لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں ڈرامہ زیادہ ہے“

”آپ کا مطلب ہے کہ انہوں نے کپڑے خود اتارے، اپنی وڈیوز خود بنائیں اور وائرل بھی خود ہی کیں“ ہم نے تلخ ہو کر کہا۔

”دیکھیے وڈیو بنانے اور وائرل کرنے میں تو تماشائیوں کا ہاتھ ہے جو کہ قطعی طور پہ غلط ہے لیکن خواتین کے برہنہ ہونے میں دال میں کچھ کالا ضرور ہے“

”اچھا بھئی تم ٹھیک، ہم غلط“ غصہ کھاتے ہوئے ہم نے فون بند کرتے ہوئے ایک طرف رکھ دیا۔

اضطراب کے عالم میں یہی سوچتے رہے کہ سب کچھ کہتی اس ویڈیو پر شک کیوں؟ کیا ہم پے در پے واقعات کی وجہ سے ہم بے حسی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟

اور اگلے ہی دن علم ہوا کہ ڈاکٹر فریحہ ٹھیک کہہ رہی تھیں۔ دونوں وڈیوز ہمارے چھوٹے بھائی نے ہمیں فارورڈ کی تھیں اور دلگیر لہجے میں کہا، باجی یہ دیکھ لیں ذرا۔ دس برس چھوٹے بھائی کے لہجے میں درد کی سی کیفیت تھی۔

وڈیوز دیکھیں اور ہم سکتے میں چلے گئے۔ دو عورتوں پہ تشدد، ان کے برہنہ جسم، آہ و بکا، تماشائیوں کا ہجوم!

یا اللہ، اس قدر تذلیل!

دکھ اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ان وڈیوز کو ساتھی ڈاکٹرز کے گروپ میں بھیجا۔ ایک ساتھی ڈاکٹر فریحہ سے گرما گرم مکالمہ ہوا جس پہ ہم مزید دل گرفتہ ہوئے۔

سوچا کہ اس دکھ اور بے کلی کو الفاظ کی شکل دے دی جائے۔ لکھنے بیٹھے تو ماضی کے پردوں سے بہت کچھ باہر جھانکنے لگا۔ مختاراں مائی کو برہنہ جسم کے ساتھ گاؤں کی گلیاں میں گھمانا بہت پرانی بات نہیں، اداکارہ شبنم کا ریپ، نور مقدم کا قتل پھر سے زخم ہرے کر گیا۔ موٹروے پہ عورت کو بچوں کے سامنے ریپ کرنا سامنے آ کھڑا ہوا، پنڈی میں نو عمر بچی کو گینگ ریپ کرنے کی وڈیو وائرل کرنے کا واقعہ ابھی تو گزرا تھا۔

ہم نے برہنہ کرنے کے اس عمل کو وحشت کا کھیل کہا، اور ان مردوں کو نامرد اگر کہا تو اس کے پیچھے ایسے بے شمار واقعات کا ڈیٹا موجود تھا۔

فرض کیجیے کہ اگر سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں وہی ہوتا جو وڈیوز میں تھا تو کیا ہمارا احتجاج غلط ہوتا؟

ہم مانتے ہیں کہ یہاں پہ ان پیشہ ور چور خواتین نے بھاگنے کے لئے وہ پتا استعمال کیا جو نیا نہیں ہے۔ مظلومیت یا وکٹم کارڈ کا کھیل کسی کو بھی نہ صرف غلط فہمی میں مبتلا کر سکتا ہے بلکہ بازی پلٹ کر انصاف کا حصول بھی دشوار کر سکتا ہے۔

وکٹم کارڈ کھیلنا ایک نفسیاتی عارضہ ہے جو لوگ مختلف احوال میں فائدہ حاصل کرنے کے کیے کرتے ہیں۔ رونا پیٹنا، اپنی مظلومیت کے قصے بڑھ چڑھ کر بیان کرنا، جھوٹ بولنا اور دوسروں کو ظالم ثابت کرنا اس کی بنیادی شناخت ہے۔ ہمارے معاشرے میں سڑک پہ عورت کا برہنہ ہونا یا کر دیا جانا ایک ایسا فعل ہے جو ناقابل برداشت تو گنا جاتا ہے لیکن کسی بھی بازی کو پلٹنے کا بہترین ہتھیار بھی۔ بدقسمتی سے ماضی میں اسے عورت کی تذلیل کے لئے ہی استعمال کیا گیا ہے لیکن اس واقعے میں ان عورتوں نے صورت حال سے بچ نکلنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھایا۔

اس ڈرامے میں ایک اور شخص نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے جس نے وڈیو کو ایڈٹ کر کے وائرل کیا اور وہ حصے منظر عام پر نہ آ سکے جو سی سی ٹی وی پہ دیکھے گئے۔ وائرل شدہ کلپ نے کہیں سنسنی پھیلائی تو کہیں غصے کی آگ بھڑک اٹھی۔

صاحبان دانش ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم کمزور کے حق میں اپنا قلم استعمال کریں اور ہماری نظر میں کمزور کی صنف، مذہب اور رتبہ اہم نہیں ہوتا۔ ہماری آواز ظلم کے خلاف ہمیشہ بلند آہنگ رہی ہے۔ لیکن ہمیں ماننے میں کوئی عار نہیں کہ ہم نے ان خواتین کے وکٹم کارڈ سے دھوکا کھایا ہے۔

جی درست سنا آپ نے، ہم غلطی پر تھے۔ ہم نے ان کلپس کو دیکھ کر وہی سمجھا جو ان کلپس کو ایڈٹ کرنے والا سمجھانا چاہتا تھا۔ سبق تو ہم نے بھی سیکھا کہ مزید تحقیقات کا انتظار ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دکھا سکتا تھا۔

لیکن ہمیں قلق ہے کہ ان خواتین کی اس حرکت سے ان بے شمار کمزور لوگوں کی آواز دب کے رہ جائے گی جن پہ ہونے والا ظلم کسی اور طرح سے عوام تک نہیں پہنچ پاتا۔

سوشل میڈیا کی طاقت بہت سی نا انصافیوں کا پردہ چاک کرتی ہے لیکن اگر اس واحد سہارے کا وجود شکوک و شبہات کے پردوں میں الجھ گیا تو وہ جو سوشل میڈیا پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں تو سوچیے کہ ان کا کیا بنے گا؟

ہمیں اس واقعے کا شدید دکھ ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں جائیں گے کہ وہ عورتیں چور کیسے بنیں یا کیا مجبوری انہیں اس دھندے میں الجھا گئی یا ان کی اخلاقیات پاتال میں کیوں جا پڑی؟

ان تمام صاحبان کا شکریہ جو یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ہم اپنی غلطی کا وزن سہار سکتے ہیں کہ نہیں! ایک بات جان لیجیے سچائی کی طاقت ہر مشکل پہ بھاری ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author