مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انسانی حقوق کا عالمی دن||ظہور دھریجہ

انسانی حقوق کیا ہیں ؟انسانی حقوق یا بنیادی حقوق وہ ہوتے ہیں کہ ان کے بغیر نہ کوئی فرد آزادنہ زندگی گزار سکتا ہے اور نہ کوئی مملکت جمہوری کہلانے کے مستحق ہے۔ پاکستان کے 1962ء کے آئین میں یہ حقوق شامل نہ تھے ۔ بعد ازاں عوامی اور سیاسی دباؤ کے تحت انہیں آئین میں شامل کر دیا گیا ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

10 دسمبر کو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا ،انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر حکومت کی طرف سے تقریبات کا اہتمام نہیں ہوا، البتہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے بہت بڑی تقریب منعقد کی گئی جس میں مقررین کے علاوہ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہا کہ یہ دن 1948ء میں اقوام متحدہ میں منظورکردہ انسانی حقوق کے ایسے شاندار عالمی منشور کی یاد دلاتا ہے جسے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کا نام دیا گیا،
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ہمارے آئین میں جن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے وہ ہر شہری اور خاص طور پر کمزوروں کے لیے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ہدایت پر سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کو بچانے کی کوشش کرنے پر پنجاب حکومت نے ملک عدنان کو انسانی حقوق کا ایوارڈ دینے کا اعلان کیاجبکہ وزیر اعظم عمران خان نے 23مارچ 2022ء کو ملک عدنان کو تمغہ شجاعت دینے کا اعلان کیا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ لوگوں میں اپنے بنیادی انسانی حقوق کا شعور بڑھ رہا ہے ۔لوگ تعلیم کی طرف راغب ہیں اور اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے جڑت مضبوط ہو رہی ہے ۔ لوگ ا پنی شاعری ، موسیقی اور ثقافت سے والہانہ محبت کرتے ہیں جوکہ انتہا پسندی پر کاری ضرب ہے ۔ یوں تو پوری دنیا میں میل شاونزم نے معاشرے کو اول اور دوم درجے میں بانٹ رکھا ہے ، لیکن ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان، افغانستان میں صنف نازک کی صورتحال بد تر ہے ۔خواتین پر تشدد، غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل ، ونی اور کالا کالی جیسی رسومات نے عورت دوسرے اور تیسرے درجے سے بھی آگے پھینک دیا ہے ۔
صنفی اور امتیازی سلوک عورتوں کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھی روا رکھا جاتا ہے۔ بوڑھوں کی بھی قدر افزائی نہیں ہوتی ۔ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے صنف کی بنیاد پر ہر طرح کا امتیازی رسومات کے خاتمے کیلئے قوانین کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے جہاں ترقی پذیر ممالک کی صورت حال درست نہیں وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی انسانی حقوق کی صورتحال ان سے بھی زیادہ خراب ہے ۔ ان ملکوں میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر انسانیت سوز مظالم دیکھنے کو ملتے ہیں۔
انسانی حقوق کیا ہیں ؟انسانی حقوق یا بنیادی حقوق وہ ہوتے ہیں کہ ان کے بغیر نہ کوئی فرد آزادنہ زندگی گزار سکتا ہے اور نہ کوئی مملکت جمہوری کہلانے کے مستحق ہے۔ پاکستان کے 1962ء کے آئین میں یہ حقوق شامل نہ تھے ۔ بعد ازاں عوامی اور سیاسی دباؤ کے تحت انہیں آئین میں شامل کر دیا گیا ۔
1973ء کے مروجہ آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی فہرست دے دی گئی ہے اور ساتھ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ کوئی ایسا قانون جو ان بنیادی حقوق سے متصادم ہو گا، کالعدم تصور ہو گا۔ آئین میں مذکورہ بنیادی حقوق یہ ہیں ، زندگی اور آزادی کا حق، گرفتاری اور حبس بے جا سے تحفظ کا حق ( چند شرائط کے ساتھ ) ، غلامی اور بیگاری کی ممانعت ، دوہری سزا کے خلاف تحفظ ( یعنی کسی شخص کو ایک ہی جرم پر دوبارہ سزا نہیں دی جائے گی) ، ذاتی وقار کا تحفظ ، نقل و حرکت اور سکونت کی آزادی ، اجتماع کا حق، انجمن سازی کا حق، سیاسی جماعت بنانے یا اس میں شامل ہونے کا حق ( بشرطیکہ وہ سرکاری ملازم نہ ہو ) ، معاش ، کاروبار اور تجارت کا حق ، تحریر و تقریر کی آزادی، اپنے مذہب پر کار بند رہنے کا حق،تعلیمی اداروں میں مذہبی تحفظ،مذہبی ٹیکس سے تحفظ ، حق جائیداد ، حقوق جائیداد کا تحفظ، شہریوں میں مساوات ، عوامی مقامات تک رسائی کا حق، ملازمت کا حق، زبان و ثقافت کا حق ، ان تمام بنیادی حقوق کو قانون کی زبان میں شہری آزادیاں بھی کہا جاتا ہے ۔
یہ وہ حقوق ہیں جو آئین پاکستان کا حصہ ہیں ، اس میں زبان ثقافت کا حق بنیادی اہمیت کا حامل ہے، یہاں جابروں نے یہ وطیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ ان کی زبان اور ثقافت تو مقدس ٹھہری اگر کوئی سرائیکی یا دوسرا مظلوم اپنی ثقافت اور زبان کے حق کی بات کرے تو اسے لسانی تعصب کا نام دیا جاتا ہے ۔ مگر کیا آج بھی لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا سکتا ہے؟ اور بے وقوف بنایا جا سکتا ہے ؟ یہ حماقت خیز سوچ کے سوا کچھ نہیں، وسیب میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہیں ۔
سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سردار ،جاگیردار اور تمندار کرتے ہیں۔ جاگیرداروں کے ہاں غریب آدمی کی قدر حیوان کے برابر بھی نہیں ۔ آج بھی بہت سے علاقوں میں جاگیردار ، سردار یا گدی نشین خود پلنگ پر بیٹھتے ہیں اور غریب کو نیچے بٹھایا جاتا ہے۔ سرائیکستان صوبہ محاذ کے رہنمائوں نے انسانی حقوق کے دن پر کہا کہ حکمران انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر پیغامات جاری کرنے کی بجائے وسیب کے کروڑوں لوگوں کو ان کے انسانی حقوق دیں اور صوبے کا قیام عمل میں لائیں۔
انسانی حقوق کے حوالے سے یہ بات بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ بر صغیر جنوبی ایشیاء میں معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرنے والا بھی انگریز سامراج ہی تھا جس نے اپنے ایجنٹوں اور اپنے تنخواہ دار ملازمین کو مراعات اور عہدے دیئے وہ معزز کہلائے اور غرباء کو ان کی باج گزار کمی کمین بنا دیا گیا۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال اس وقت تک درست نہ ہو سکے گی جب تک ترقی یافتہ ممالک اپنی روش تبدیل کر کے ترقی پذیر ممالک اور وہاں بسنے والے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم نہ کریں گے ۔ یورپ نے ترقی پذیر ممالک کو لوٹنے ، ان کو قرضوں میں جکڑنے ،کرپٹ حکمرانوں کو ککس بیک کی شکل میں تحریص اور لالچ دیکر سود در سود قرضوں کی شکل میں غریب عوام کا کچومر نکالنے اور بدنام زمانہ معاشی ہتھکنڈوں کا جو جال بچھایا ہوا ہے۔
یہ بھی در اصل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آج ہر طرف آگ لگی نظر آتی ہے ، دہشت گردی کے باعث خون آشام فضا سوگوار نظر آتی ہے۔، ہر طرف انسانی خون کے لوتھڑے فریاد کناں نظر آتے ہیں۔، یورپ اور ترقی پذیر ممالک پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانیت کو مساویانہ انسانی حقوق اور انصاف فراہم کر کے انسانیت کو تباہ ہونے سے بچا لیں ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: