محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن ہی سے جرنیلوں سے ڈر نہیں لگتا۔ اپنے اپنے لگتے ہیں۔ دل مضبوط لیکن ذہن ذرا کمزور۔ نیک نیت لیکن کرتوت ہم سویلینز والے۔ جنرل باجوہ سے بھی ڈر نہیں لگتا تھا لیکن چند ہفتے پہلے سنا ہے کہ اُنھوں نے ایک خط لکھنے پر ایک نوجوان کو جیل میں ڈال دیا ہے۔ اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ کسی ساتھی رپورٹر سے پوچھوں کہ خط میں ایسا کیا لکھ دیا تھا کہ اتنے خفا ہو گئے۔
اگر ڈر لگتا ہے تو ریٹائرڈ جنرلز سے جو میری طرح اپنے آپ کو لکھاری سمجھنے لگتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں، کتاب لکھنے کا خواب دیکھتے ہیں اور ادارتی صفحوں اور ٹی وی سکرینز پر ہمیں اپنے گیان سے مستفیض کرتے ہیں۔
کسی سیانے نے سمجھایا تھا کہ جو افسر اپنا سٹریٹجی پیپر کہیں سے کاپی پیسٹ کرنے کے بجائے خود لکھے، اس سے ڈرا کرو۔ بڑا ہو کر اسلم بیگ بنے گا۔ ریٹائرڈ فوجی لکھاریوں سے بچپن میں ہی خوف آنے لگا تھا۔
ایک بڑے اردو اخبار میں ایک ریٹائرڈ میجر صاحب کالم لکھا کرتے تھے۔ سنہ 71 کی جنگ کے بعد انڈیا میں جنگی قیدی بھی رہ چکے تھے۔
اُن کا دعویٰ تھا کہ بھٹو نے جنگی قیدیوں کو چھڑوا کر ایک سنہری موقع کھو دیا۔
کرنا تو یہ چاہیے تھا کہ پاک فضائیہ پروازیں کرتی، انڈیا میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں پر بندوقیں گراتی اور تمام جنگی قیدی نہ صرف اپنے آپ کو آزاد کروا لیتے بلکہ ساتھ ہی ساتھ انڈیا بھی فتح کر لیتے۔
اسی طرح جنرل ایوب خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل پرویز مشرف بھی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ضیا الحق کو زندگی نے موقع نہیں دیا ورنہ وہ تو چلتی پھرتی کتاب تھے، بلکہ پوری فلم تھے۔
اب چند دن پہلے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طارق خان نے اپنے ایک طویل مضمون میں پاکستان کے سارے مسائل کا تجزیہ کر کے ایک حل تجویز کیا ہے۔
جنرل طارق کو عام طور پردہشتگردی کے خلاف جنگ میں اُن کے کردار کی وجہ سے پروفیشنل سولجر کہا جاتا ہے۔
لیکن اس سے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا باقی جنرل ایسے ہی شوقیہ ڈھوکی بجاتے ہیں یا ہمارے بزرگ فنکاروں کی آواز میں کیا وہ ’اتائی‘ ہیں۔
ڈاکٹر اقبال احمد فرمایا کرتے تھے کہ پاکستانی فوج کے پاس معلومات جمع کرنے کی شاندار صلاحیت ہے لیکن تجزیہ کر کے کسی صحیح نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت صفر ہے۔
جنرل طارق کی معلومات شاندار ہیں۔ پاکستان کے مسائل کا بیان سن کر لگتا ہے کہ کوئی جنرل نہیں بلکہ بائیں بازو کا لمز کا پروفیسر بول رہا ہے۔
قراردادِ مقاصد سے لے کر مریدکے والے جہاد کا کیا کرنا ہے، اُنھوں نے پاکستان کے سارے مسائل کی نشاندہی کر لی ہے اور اس کے بعد نتیجہ وہی نکالا ہے جو ساٹھ سال پہلے ایوب نے نکالا، پھر ضیا نے، پھر مشرف نے، جس کے بارے میں باجوہ صاحب بھی لمبا دن گزار کے کبھی کبھی سوچتے ہوں گے کہ سب کو گھر بھیجو، ایک نیشنل سکیورٹی کونسل ملک پر راج کرے، صدارتی نظام ہو اور اوپر بقول اُن کے stout heart یعنی کہ مضبوط دل والا بندہ ہو۔
میں نے بڑے بڑے مضبوط دل والے جنرل اور حکمران اور حکمران جنرل دیکھے ہیں۔ عمران خان سے مضبوط دل کس کا ہو گا؟ جنرل باجوہ سے زیادہ مضبوط دل کس کا ہو گا جو ایک نوجوان کو خط لکھنے پر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔
اگر جنرل طارق کا اشارہ اپنی طرف ہے تو اُنھیں اتنا تو علم ہو گا ہی کہ فوج جتنے اداروں میں اُنھیں فٹ کر سکتی تھی، کر چکی۔ فوجی فرٹیلائزر اور فوجی میٹ تو آپ چلا چکے، کوئی یہ تو نہیں کہے گا کہ میرا دل تھک گیا ہے اب تم جیسا پروفیشنل جنرل ہی اس ملک کو سنبھال سکتا ہے۔
لگتا ہے کہ جنرل طارق نے تاریخ، عسکریات اور سیاسیات کے علاوہ معیشت بھی سنجیدگی سے پڑھ رکھی ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ ریاست کا کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، یہ کام صرف فری مارکیٹ کر سکتی ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ جمہوریت لوگوں سے چلتی ہے اور دیکھیں ہماری قسمت میں کیسے لوگ ہیں کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے لوگوں میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں ہے۔
اگر لمز کے کسی پروفیسر نے یہ بات کہی ہوتی تو اسے جوتے پڑتے۔ لیکن جنرل طارق نے اپنے طویل کیریئر میں شاید یہ محسوس کیا ہو کہ ایک چیز ہے جو پاکستان کو جوڑتی ہے، وہ ہے اُن کا ادارہ۔ اور جب کوئی صوبہ نہیں جڑنا چاہتا تو بھی جوڑ لیتی ہے۔
اور باقی پانچوں صوبوں کی زنجیر ہے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی، سب سے محروم صوبے بلوچستان میں بھی ڈی ایچ اے آئے گا تو اُن محرومیوں کا مداوا بھی ہو جائے گا۔
اور فتح مُبین تو اس دن ہو گی جب کابل اور مزار شریف میں ڈی ایچ اے کھلے گا۔ تب تک ہم اپنے پیارے صدر عارف علوی سے ہی کام چلا لیتے ہیں کیونکہ اُنھوں نے بھی آپ کی طرح اتحاد، تنظیم، یقین محکم والے خواب دیکھ رکھے ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر