رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید دور میں سیاست سے بھلا کون دامن بچا سکتا ہے، دنیا بھر میں اور خصوصاً وطن عزیز میں؟ سبھی سیاست کے شوقین اور گرویدہ ہیں‘ اور یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں کہ سیاست سے ہمارا کیا واسطہ، ہم تو محض صحافی ہیں، بس خبر کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں‘ کسی کھوجی کی طرح، جب مل جاتی ہے تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں‘ خاص طور پر اس وقت جب وہ شہ سرخی بننے کی تمام تر صلاحیتوں سے مالا مال ہو۔ ترجیحات سب اداروں میں طے ہوتی ہیں۔ ایسے ہی صحافت میں طے ہوتا ہے کہ کون سی خبر لگے گی اور کون سی نہیں لگ سکتی‘ یا پھر کون سی خبر ہے جو بچ بچا کر کہیں کسی صفحے پہ ادھوری یا پوری لگ جائے تو بھی ایک دن کی زندگی کے بعد غائب ہو جاتی ہے یا معاملہ کسی واقعہ کی مزید چھان بین کے لیے مزید جانکاری کی طرف جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا یہ ایک سیاسی معاملہ ہے، کسی کے مفادات کے تحفظ کے لیے یا کسی کو زک پہنچانے کی غرض سے‘ یا کچھ اور؟ گزشتہ دنوں کسی کے بارے میں خواتین کو چھیڑنے اور کسی سرکاری کالج میں گھس کر وہاں ملازمین کو زد و کوب کرنے کی خبر ایک دم آئی اور پھر ایسی گئی کہ ہمارے آزاد میڈیا نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی۔ ہم جیسے فقیروں کو بھلا اس بات سے کیا کہ وہ نوجوان کون تھے، کہاں ان کی نسلی نسبتیں ہیں اور کیونکر وہ سرمائے اور سماجی طاقت کے سہارے قانون کا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں۔ یقین جانیں نہ مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے اور نہ ہی میں نے اس واقعہ کے بارے میں کوئی معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ دلچسپی ضرور بڑھی کہ اگر طاقت ور طبقات کے لوگ جرائم میں ملوث ہوں تو کیسے ان کے بارے میں خبریں دبائی جاتی ہیں۔ اس غلط فہمی نے بھی کچھ دیر ذہن میں چھلانگیں لگائیں کہ میڈیا آزاد ہے، کھوجی صحافی بڑھ چڑھ کر میدان میں اتر کر ہمیں بتائیں گے کہ جن پہ الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا، ان کا پھر کیا بنا اور پھر ان کی طاقت کی پشت پر کون سے جنات ہیں کہ نام تک ظاہر کرنے سے میڈیا گریزاں ہے۔ گروہ بندی، قبائلیت، مفاد پرستی ہر شعبے کو سیاسی رنگ میں رنگیں کر چکے ہیں۔ کس کس کی بات کریں؟ کس کس کا نام لیں؟ کس کس کا حوالہ دیں؟
اور ہم غیر سیاسی ہو بھی کیسے سکتے ہیں کہ ماحول ایسا بن گیا ہے کہ کھلی یا چھپی وابستگیاں نہ ہوں اور میرٹ پر عمل ہوتا کہیں دکھائی نہ دے، تو ذاتی ترقی کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کسی معاشرے میں غلامی، ذہنی غلامی پھیلانا مقصود ہو تو کاسہ لیسوں کو‘ خوشامدیوں اور ہرکاروں کو نوازیں۔ یہ ہر جگہ مل جائیں گے بلکہ ہر شعبے میں قطاروں میں کھڑے نظر آئیں گے۔ جس طرف نظر دوڑاتا ہوں، بس یہی حال ہے۔ معمولی سے کام کے لیے بھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ کسی طاقت ور کو پکڑو، سفارش کراؤ، کام ہو جائے گا۔ یہ بھی تو غلامی کی ہی علامت ہے۔ کسی مہذب معاشرے میں کوئی اپنی عزتِ نفس کا اس طرح جنازہ روزانہ اٹھائے گا؟ عام آدمی بھی بغیر سیاسی چھاؤں کے جمہوری پاکستان میں ٹھنڈا سانس نہیں لے سکتا۔ تازہ واقعہ تو کچھ اور ہے‘ اور بہت ہی سنگین۔ گلگت بلتستان کے ایک سابق جج صاحب نے لندن کے کسی صاف ستھرے، پُر رونق، آج کل ذرا ٹھنڈے ماحول میں کوئی حلفیہ بیان تحریر فرمایا ہے، اور پھر ایک نامور صحافی نے ایک اخبار میں ہی شہ سرخی کی زینت بنایا۔ سب نے پڑھ لیا ہو گا مگر نکتے کی بات یہ ہے کہ تین سال بعد اور وہ بھی یخ بستہ اور کُہر آلود لندن کے موسم میں حلف نامہ بنا اور خبر نکالی گئی۔ اس حلفیہ بیان کی تصدیق ابھی ہونی ہے اور اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے اس کی تصدیق کے لیے حلفیہ بیان دینے والے کو طلب کر رکھا ہے کہ خود پیش ہو کر وضاحت کریں۔ کچھ کردار جانتے ہیں کہ خبر بنانے اور نکالنے کا کون سا موسم ہوتا ہے اور جہاں چھپے کرداروں کی جانب سے کسی معزز ایوانِ عدل کو اخلاقی لحاظ سے کمزور کرنا مقصود ہو، تاکہ ان کا سیاسی بیانیہ پروان چڑھے، تو کیا کرنا چاہیے۔ جب دن پھرتے ہیں، تو ایسے معاملات کتابوں میں سوکھے پھول ہی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اب تو مجھے اس کا اس قدر یقین ہو چلا ہے کہ کوئی انگڑائی بھی لے تو لگتا ہے کہ یہ بھی کوئی سیاست کی چال ڈھال ہے۔
کچھ عرض کروں تو براہ کرم ذرا برداشت سے کام لیجئے گا۔ مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، صرف منافقت اور دوغلے پن کے پردے چاک کرنا مقصود ہے۔ چالیس سالوں میں زیادہ تر کاروبار ہوتا رہا، سیاسی جماعتیں دُکان اور سیاست تجارت بنی رہی ہے۔ سیاست اگر کاروبار بن جائے تو پھر ہر ایک کی ہی قیمت لگتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنی خدمات اور حیثیت کی قدر مانگتے ہیں اور دینے والے کو بھی کچھ اپنی جیب سے دھیلا نہیں دینا پڑا، سب کچھ اقتدار اور ریاستی وسائل کے زور پہ تھا۔ میں محض کسی ایک مخصوص شعبے کی بات نہیں کر رہا، ہر جگہ لین دین ہونے لگے۔ یاد آتا ہے کہ تازہ، تازہ تعلیم علمِ سیاسیات میں مکمل کر کے امریکہ سے لوٹا ہی تھا، تو واحد ٹی وی چینل پہ تواتر سے سیاسی مکالمے برپا ہوتے تھے کہ ”اسلام میں سیاسی جماعتوں کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔ سب وہ لوگ اللہ کو پیارے ہو چکے، سب کی مغفرت ہو۔ ایسی باتیں بھی سنی ہیں۔ یہ انیس سو اکیاسی کی بات ہے۔ اسلام کے بارے میں لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، مگر سیاست کے بارے میں رائے دے سکتا ہوں کہ جہاں آزادی ہو گی وہاں سیاسی جماعتیں بھی ہوں گی۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ کہیں بھی کسی بھی جگہ‘ جمہوری سیاست، سیاسی جماعتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی پیداوار اور سہارا ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ میرے خیال میں وہ مسئلہ ہے سیاسی دکان داری‘ اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب سیاسی دھندہ اتنا گہرا اور وسیع کر دیا جائے کہ نئے آنے والے مقابل دھڑے پیدا ہی نہ ہو سکیں۔ سیاسی دکان داریاں صرف اور صرف سرکاری سرپرستی پہ چلتی، پھلتی اور پھولتی رہی ہیں۔ نوازو اور ایسے نوازتے رہو کہ سخی کے در سے کوئی خالی نہ جائے۔ حرص و ہوا کے بندے ہوں، تو قطاریں دہلیزوں پہ کیوں نہ لگیں؟ کیسے کیسے اونچے مقام کہ بیک جنبش ابرو اداروں کے سربراہی‘ اسمبلیوں میں نشستیں، ٹھیکے، پلاٹس اور انعام و اکرام کی ایسی وارداتیں‘ ایسے کھلے دل سے کہ اگر سلطنت مغلیہ کے بادشاہ دیکھ پاتے تو اپنی کنجوسیوں پہ شرما جاتے۔ ذرا سوچیں‘ اگر سیاست ایسا ہی کاروبار ہے تو کیوں نہیں چمکے گا، کہ ہر للچائی نظر اقتدار کے گھوڑے کی گرد کی طرف دھیان رکھے گی کہ ظل سبحانی کی طرف کون سا راستہ آسان اور مختصر ہے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی ہم سب سیاسی ہو چکے ہیں کہ جن کے پاس طاقت، اقتدار اور دولت ہے، ان سے مرعوب اور حق چھیننے والوں سے اپنا حق مانگتے ہیں۔ سب کچھ ہماری اشرافیہ کے پاس ہے، عام آدمی دھول چاٹنے کے لیے اور بے چارہ دانش ور اچھے دنوں کے آنے کی امیدیں جگائے رکھنے کے لیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر