حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہی لاہور ہائیکورٹ کے دو جج صاحبان جسٹس قیوم ملک اور جسٹس راشد عزیز کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
ان دونوں جج صاحبان کی آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی تھی جس میں انہیں شریفین (میاں نوازشریف اور شہباز شریف) کی جانب سے یہ ہدایت پہنچائی گئیں کہ وہ زیرسماعت مقدمہ میں محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سزائیں سنائیں۔
سپریم کورٹ نے یہ سزائیں منسوخ کرکے کیس کی ازسرنو سماعت کا حکم بھی دیا تھا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جناب نوازشریف نے اپنے قیام جدہ کے دوران سہیل وڑائچ کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا
’’ہم پر دبائو تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کے دوسرے رہنمائوں کے خلاف مقدمات بنائے جائیں‘‘۔
یہ انٹرویو سہیل وڑائچ کی کتاب میں موجود ہے۔
تیسری اہم بات آصف زرداری کے خلاف بے نامی اکاونٹس کی تحقیقات ہے یہ اب ایک نیب ریفرنس کی صورت میں موجود ہے۔ ان تحقیقات کا حکم نوازشریف کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے دیا۔ نوازشریف نے بعد میں کہا ’’میں نے چودھری نثار سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا اس کے لئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے حکم دیا تھا "
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ راحیل شریف کی خوشنودی کے لئے ہی میاں نوازشریف نے آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات منسوخ کی حالانکہ میڈیا میں تو ملاقات میں طعام کی بھی اطلاعات تھیں اور ان کھابوں کی فہرستیں بھی جو دونوں نے کھانے تھے۔ پانچویں اہم بات یہ ہے کہ نوازشریف نے زرداری کو اپنے پرنسپل سیکرٹری سے فون کرواکر ملاقات کی منسوخ کی اطلاع دی لیکن خود بنفسِ نفیس آرمی چیف راحیل شریف کو ماسکو فون کرکے کہا ” سر ملاقات منسوخ کردی گئی ہے”۔
آپ حیران ہورہے ہوں گے ان پانچ باتوں یا دیگر کا ذکر کیوں؟ حیران نہ ہوں اس ملک میں کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پانچ میں سے دو باتیں میثاق جمہوریت سے پہلے کی ہیں اور تین میثاق جمہوریت کے بعد کی۔
میثاق جمہوریت کے ساتھ کیا ہوا اس کی تفسیر دونوں فریق اپنی اپنی ضرورت کے مطابق بیان کرتے ہیں یہ ضرورتیں ایسی ہی ہیں جیسی پیپلزپارٹی کے ایک مرحوم رہنما اور سابق جج سید زاہد حسین بخاری کی سیاستدان صاحبزادی کی جو ان دنوں پیپلزپارٹی کو اس کی ’’اوقات‘‘ بتاتی پھر رہی ہیں کہ "اندرون سندھ کے چند اضلاع کی کرپٹ پارٹی کا (ن) لیگ سے دور دور کا بھی کوئی مقابلہ نہیں”۔
فواد چودھری سے اس سیاستدان صاحبزادی تک جب جب کوئی اپنے ’’سابقین‘‘ بارے پھلجڑیاں چھوڑتا ہے، فقیر راحموں کہتے ہیں نئی وفاداری کو ا یمان کا حصہ بناکر پیش کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے، لوگوں کو چاہیے کہ ایسے ’’فنکاروں‘‘ کی قدر کریں۔
خیر اس جملہ معترضہ کو اٹھارکھئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ایک چیف جسٹس ہوا کرتے تھے سید نسیم حسن شاہ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ انہوں نے 1993ء میں نوازشریف کی حکومت کی بحالی کے اپنے فیصلے پر بعد کے ماہ و سال میں کہا تھا ’’سجاد علی شاہ نے سندھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کو جائز قرار دیا لیکن میں نے اپنے کشمیری بھائی نوازشریف کی حکومت بحال کردی‘‘۔
قصے اور بھی بہت ہیں مگر فی الوقت گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کا وہ بیان حلفی ہے جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے ایک ’’کہانی‘‘ بیان کی ہے۔ اس کے کہانی نے پچھلے دو دنوں سے پانی پت کی جنگ کا سا ماحول بنارکھا ہے۔
یہاں ایک دلچسپ حسن اتفاق ہے وہ یہ کہ رانا شمیم مسلم لیگی رہنما اور اس وقت کے وفاقی وزیر برجیس طاہر کے ’’ساجھے دار‘‘ تھے۔ برجیس طاہر نے ہی انہیں گلگت بلتستان کا چیف جج بنوایا تھا، کیوں بنوایا یہ بات ’’ساجھے داری‘‘ سے سمجھ لیجئے۔
رانا شمیم کے بیان حلفی والے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نوٹس لے چکے۔ اس حسن اتفاق کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ بیان حلفی لندن میں شریف خاندان کی طرف سے ایک خاص میڈیا گروپ تک پہنچایا گیا۔
اس خاص میڈیا گروپ کی شریف خاندان کے لئے دو بڑی خدمات ہیں اولاً جناب نوازشریف کو انقلابی لیڈر بناکر پیش کرنا نیز محترمہ مریم نواز کو جھانسی کی رانی کے مرتبہ پر فائز کرنا اور ثانیاً پیپلزپارٹی کی ہر حال میں منجی ٹھوکتے رہنا۔
فقیر راحموں اسی لئے محبت سے اسے ’’جاتی امرا نیوز‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
یہ بیان حلفی ایک خاص میڈیا ہاوس کو فراہم کرنے کا مقصد دونوں کے مشترکہ دشمن پر سواری کرنا تھا۔ اب مشترکہ دشمن کا نہ پوچھ لیجئے گا۔ ویسے یہ وہی ہے جس کی محبت میں نوازشریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے تھے
پچھلے 50 برسوں سے جاتی امرا نیوز کے مالک و ملازمین پیپلزپارٹی کے خلاف ’’اَت‘‘ اٹھائے ہوئے ہیں۔
معاف کیجئے گا پیپلزپارٹی کا بار بار ذکر آرہا ہے۔ یہ تاریخ کی مجبوری ہے تحریر نویس کی نہیں۔
میری دانست میں اس بیان حلفی سے زیادہ اہم وہ بندہ یا بندے ہیں جنہوں نے میاں نوازشریف کو پانامہ ایشو پر عدالت جانے کا مشورہ دیا تھا۔
مزید آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لیجئے کہ میاں ثاقب نثار بھی جج بننے سے قبل اتفاق گروپ آف کمپنی کے اسی طرح کے ملازم تھے جیسے ملازم جسٹس رفیق تارڑ اور جسٹس خواجہ شریف رہے۔ یعنی قانونی مشیر تھے۔
آپ کی سہولت کے لئے عرض کردوں کہ رفیق تارڑ، خواجہ شریف اور ثاقب نثار تینوں ابا جی اینڈ کمپنی کی فخریہ پیشکش تھے۔ ثاقب نثار کو سیکرٹری قانون اور پھر جج بنوانے میں مرحوم میاں محمد شریف کا بنیادی کردار تھا۔
سعادت مند بیٹے نے والد کا حکم ملتے ہی ثاقب نثار کا نام اس سمری میں اپنے قلم سے تحریر کیا جو صدر کو لاہور ہائیکورٹ میں ججز تعینات کرنے کےلئے بھجوائی جانی تھی۔
کاش پیپلزپارٹی نے بھی یہ ہنر کسی سے سیکھ لیا ہوتا کہ اداروں میں ہم خیال افراد کو کیسے معزز بنایا جاتا ہے۔
عرض یہ کررہا تھا کہ ثاقب نثار ابا جی کی معرفت نوازشریف تک پہنچے اور رانا شمیم، چودھری برجیس طاہر کی ساجھے داری کے طفیل۔
ثاقب نثار بے وفا نکلے لیکن رانا شمیم نے لندن میں بھی ’’وفا‘‘ نبھائی، بیان حلفی لکھ کر دیا۔ اب ہوگا کیا؟
پچھلے دو دن سے اس سوال پر گرماگرم بحثیں جاری ہیں۔
کامریڈ مولانا احسن اقبال اور کامریڈ شاہد خاقان عباسی تو ’’فُل تپے‘‘ ہوئے ہیں۔ سرائیکی میں کہتے ہیں ’’جھلیج‘‘ ہی نہیں رہے۔ جاتی امرا نیوز کے ماہر تجزیہ کار، کالم نگار اور تحقیقاتی صحافی سب بھاگتے دوڑتے پھررہے ہیں ایسا لگتا ہے اندھے کے پاوں کے نیچے بٹیرا آگیا ہے۔
سوشل میڈیا کے دانشور تو کہتے ہیں کہیں کوئی سمجھوتہ ہونے کو ہے۔ کچھ دوست پرانی پوسٹیں نکال کر ان پر ٹاکی شاکی مار کے پیش کررہے ہیں۔ دیکھا میں نے کہا تھا ایک دن یہ سارے نوازشریف سے معافی مانگیں گے۔
کیا واقعی کوئی صلح ہونے جارہی ہے، صلح اور کس کس میں؟ لیکن یہ معافی تلافی کے تجزیے ہم تین برسوں سے سن پڑھ رہے ہیں۔ ’’لالہ جی‘‘ کے دو نمائندوں کی لندن میں چار ملاقاتیں بھی (ن) لیگ کے ریکارڈ پر ہیں۔
چلیں فائدے اور نقصان کا انتظار کرتے ہیں۔ آستانہ عالیہ آبپارہ شریف سے کیا ظہور ہوتا ہے، انتظار کیجئے، البتہ ایک بات ہے وہ یہ کہ بیان حلفی کی کہانی میں دو جھول ہیں۔ ممکن ہے یہ دو جھول گلے پڑجائیں کامریڈوں کے۔ اولاً ثاقب نثار کے نجی دورہ گلگت کی تاریخ اور نااہلی کے خلاف اپیل کے فیصلے کی تاریخ کا رولا پڑے گا ثانیاً اس جج کے نام کا جو بیان حلفی میں رانا شمیم نے لکھا ہے۔
یہ دو باتیں بہت اہم ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تجزیہ نگاروں کا لشکر جرار ان ’’جھولوں‘‘ کا کیا کرتا ہے اور ہمارے کامریڈ میاں محمد نوازشریف کا فاتح لشکر لندن سے کب لاہور پہنچتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر