ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نوجوان تھا، تب سے اب تک روزنامہ جنگ کے اتوار کے اخبار میں ضرورت رشتہ کے اشتہارات لازمی دیکھتا ہوں۔ مجھے نہ اشتہار کے ذریعے بیاہ کرنا تھا/ ہے نہ ہی کسی اور کا کروانا تھی/ ہے مگر سماج کے حالات کا ضرور پتہ لگتا ہے۔ اب آپ آج 29 اکتوبر 2017 کے اخبار میں شائع شدہ یہ اشتہار دیکھ لیجیے:
"عمر 35 سال، تعلیم انٹر، اردو سپیکنگ،آئل فیلڈ میں نچلے درجے کی ملازمت، شادی شدہ، بیوی 2 بچے ساتھ، آسٹریلیا، ترکی یا پاکستان میں اچھی ملازمت کے حصول کے لیے دوسری شادی کا خواہشمند ہوں، ترجیح معذور کسی بھی قسم کی، یا بیوہ وغیرہ، حقائق پر یقین رکھنے والے رابطہ کریں معرفت روزنامہ جنگ بکس نمبر ۔۔۔۔۔۔”
کیا معاشرتیات کی ایک پوری کتاب نہیں لکھی جا سکتی اس پر؟
اب آئیے پہلے تو اس اشتہار کا تجزیہ کرتے ہیں۔ شروع میں ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اشتہار جھوٹ بھی ہو سکتا ہے اور سچ بھی۔ اگر جھوٹ ہے تو کسی نیک طینت، سادہ لوح ، خوشحال معذور یا ” بیوہ وغیرہ” کو پھانسنے کے لیے ہوگا۔ ویسے ایسے لوگ ہوتے نہیں ہیں ۔ یا پھر الٹا یہ اشتہار دینے والا معذور یا بیوہ وغیرہ قسم کی خاتون سے تعلق جوڑ کر کسی مصیبت میں پھنس جائے گا۔
اور اگر سچا اشتہار ہے تو یہ امید کی بجائے نا امیدی اور مایوسی کا اشتہار ہے۔ ایک بیوی اور دو بچوں والے معمولی ملازم نے اشتہار چھپوانے کے لیے پیسے پیٹ کاٹ کر نکالے ہونگے۔ بیچارا معذور اور بیوہ وغیرہ قسم کی خاتون سے رشتہ جوڑ کر اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو خوش رکھنے کا سامان کرنا چاہتا ہے۔
اس کو یہ بھی نہیں پتہ کہ کونسا ملک زیادہ مناسب ہوگا۔ دو ملکوں کی کسی سے اچھائی سن لی، وہ لکھ دیے۔ پاکستان میں ہی سب اچھا ہو جائے تب بھی اچھا ہے بلکہ بہت اچھا ہے کیونکہ بیوی بچوں سے دور نہیں رہنا پڑے گا، اس نے سوچا ہوگا۔
آخری فقرہ اس کی دیانتداری کو ظاہر کرتا ہےکہ میں نے سچی بات کہہ دی اب بہتر ہے وہی رابطہ کرے جو حقائق کو سمجھتا ہو۔ اشتہار دینے کے بعد وہ اور اس کی بیوی اور شاید دونوں بچے بھی آس باندھے بیٹھے ہونگے۔ میری دعا ہے کہ ان کی امید بر آئے۔ کسی معذور اور بیوہ وغیرہ کی ضرورت پوری ہو اور ان میاں بیوی کی خواہش۔
ایسے اشتہار کم نہیں ہوتے۔ ضرورتیں زیادہ ہیں وسائل کم۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں شاید اپنی ضرورت کے تحت ہی لوگ ان کے ساتھ اپنی دولت بانٹ لیں۔
دوسری جانب دولت والوں کو بھی اپنی بیٹیوں کے لیے رشتے نہیں ملتے۔ لالچ دلانے پر مبنی بہت سے اشتہارات ہوتے ہیں ۔
درمیانے اور نچلے درجے کے والدین اور بھائی جن کے پاس بیٹی اور بہن کو دینے کو کم ہوتا ہے، وہ لڑکیوں کے حسن، بدنی تناسب، رنگ اور سلیقہ کا ایسے ذکر کرتے ہیں جیسے کوئی مال بیچے جانے کی خاطر اس کے اوصاف بتائے جاتے ہیں۔ اکثر لڑکیاں تعلیم پر توجہ دینے لگی ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مناسب ملازمت کی تلاش اور اس کے بعد سیٹ ہو جانے کا چکر، بیاہ کی عمر نکل جاتی ہے۔ اکثر نہ ملازمت مل پاتی ہے اور نہ بیاہ ہو پاتا ہے۔
جب تک نوجوان لڑکیوں کو خود بر چننے کی آزادی نہیں مل جاتی، امید و نا امیدی ساتھ ساتھ چلیں گے۔
گزشتہ چند برسوں میں شادی بیاہ کے اشتہارات میں 60 سال سے زیادہ عمر کے مردوں اور کچھ عورتوں کے بیاہ کی ضرورت کے اشتہارات بھی دیکھنے کو ملنے لگے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے کی بنے کے تانےبانے بدل رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر