نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمارے بچّے جئیں||رضاعلی عابدی

برطانیہ میں ان ہی دنوں دنیا بھر کے ملکوں کے سربراہ یا حکمراں اور ہزاروں مندوب جمع تھے۔ خدا جانے کون کہاں کہاں سے چل کر اسکاٹ لینڈ پہنچا تھا جہاں ماتم بپا تھا کہ دنیا کا موسم گرم ہوتا جارہا ہے۔پہلی بات جو ہر اچھے برے علاقے پر صادق آتی ہے،یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی معلوم تاریخ میں کورونا نام کی جان لیوا وبا نے کبھی اور کہیں سر نہیں اٹھایا۔ وبائیں بہت پھیلیں ، بارہا پھیلیں اور مزید پھیلیں گی لیکن انسان کے ہزاروں سال کے تجربے میں کورونا جیسی وبا کا کہیں حوالہ نہیں ملتا جس سے انسان نے کچھ سیکھا ہو اور جس کا اُسے تجربہ رہا ہو۔وبا تو بس کہیں سے نکلی اور اس نے ساری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے انسان کو مارا ، سمجھ میں آتا ہے مگر اس نے جینے کے ڈھنگ کی صورت بگاڑ کر رکھ دی۔ وہ جو روز مرہ کا نظام چلا کرتا تھا اس کی چال بے ڈھب ہوگئی، اس کے قدم لڑکھڑانے لگے اور بارہا یوں لگا کہ نظام زندگی کی دیوار اب گری اور اب گری۔یہ سب سمجھ سے باہر ہے۔ برطانیہ کا معاملہ پاکستان سے جد انہیں۔ بجلی کے نرخ بڑھنے کو ہیں، گیس کی قلّت سر پر کھڑی ہے، ہر شے مہنگی ہور ہی ہے۔ اشیا بنانے والوں نے پرانی قیمت برقرار رکھنے کیلئے مال کے پیکٹ، ڈبّے اور بوتلیں چھوٹی کردی ہیں۔پٹرول میں تو عملاً آگ لگی ہے، فی بیرل کا حساب رکھنے والے حیران ہیں کہ تیل کی قیمتیں کہاں رکیں گی۔ گیس کے بارے میں تو لوگوں کو خبر دار کردیا گیا ہے کہ آنے والے جاڑوں کی خیر منائیں۔ان تمام علتوں کے بعد قدرت بھی اپنی چال بدلنے کو ہے،دنیا کا موسم اپنے تیور بدل رہا ہے۔ اس سال درختوں پر کچھ پھل آئے ہی نہیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں موسم گرما کی فصلیں اُگ رہی ہیں، قطبین میں لاکھوں برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے۔شہزادہ چارلس پچھلے دنوں یہ کہتے سنے گئے کہ لوگوں کو اپنی زمین سے زیادہ خلا کی فکر ہے کہ لوگ بھاری خرچ اٹھا کر تفریح کی غرض سے خلا کے سفر پر جانے لگے ہیں ۔تصور کیجئے کہ برطانیہ میں چھ سال سے زیادہ پرانی کاریں وسطی لندن میں داخل نہیں ہو سکیں گی یا بھاری رقم ادا کرنی پڑے گی۔بدلتے حالات اپنے ساتھ ایسے ایسے کتنے ہی عذاب لے کر آرہے ہیں۔ دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایک اور غضب یہ ہوا ہے کہ اس پڑھے لکھے معاشرے میں جہاں ہر ذی شعور نے سارے ٹیکے لگوالئے ہیں اس کے باوجود کورونا پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔کہاں تو ہر روز مرنے والوں کی تعداد چھ سات رہ گئی تھی ، کہاں کورونا کا لقمہ بننے والوں کی تعداد دو سو یومیہ ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جاڑے اس بارخدا جانے کب کا حساب چکائیں گے اور خاص طور پر کتنے معمر مریض لقمہ اجل بنیں گے۔کیا ان تمام آفتوں کا الزام حکومت کے سر پر دھریں؟ کیا لیبر پارٹی کو چاہئے کہ آپے سے باہر ہوجائے اور ٹوری پارٹی کی حکومت کی بنیادوں میں بارود لگائے۔کیا حکومت کو تبدیل کرنا ہی ہر مسئلے کا حل ہے، کیا ہر وہ حکومت نالائق، نا اہل، جاہل اورخدا جانے کیا کیا ہے جو آپ کی نہیں؟یہ رویہ سمجھ میں آتا ہے مگر اس میں حد سے بڑھی ہوئی شدّت سمجھ میں نہیں آتی۔چلئے مانا کہ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے غلط ہے تو کوئی بتائے کہ پھر صحیح کیا ہے۔ متبادل کیا ہے، علاج کیا ہے، دوا کیا ہے؟ اس پر یاد آیا کہ دوا کے معاملے میں منافع خوروں نے سارے نئے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مریضوں، معذوروں اور لاچاروں کی بےبسی سے منافع نچوڑنا یقیناً بھاری جرم ہے اور اس کی معافی نہیں مگر اس کا یہ علاج بھی نہیں کہ حکومت کو کان پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیا جائے اور کسی دوسرے کو بٹھا دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرے گا، وہ تاریخ بارہا دکھا چکی ہے۔اس کی سند تاریخ سے ملتی ہے۔سب کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ اچھا تھا۔ اگر اچھا ہوتا تو ،خلقت آپ کو سر پر بٹھاتی، چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔ایسا دوسرو ں کے ہاں ہوتا ہوگا، ہمارے ہاں تو ایسی نہ کوئی ریت ہے نہ روایت۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آئین میں پابندی نہ ہوتی تو کلنٹن عمر بھر صدر رہتے۔ ہنسی آتی ہے ایسی باتیں سن کر، اور رونا بھی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سہ پہر میں چہل قدمی کے لئے نکلا تو راہ میں دیکھا،ایک خاتون جڑواں بچوں کی دوہری گاڑی چلاتی ہوئی آرہی ہیں، وہی جسے اب عرف عام میں پُش چیئر کہا جاتا ہے، گاڑی میں دو بالکل ایک جیسے بچے بیٹھے تھے۔ اور یہی نہیں، دونوں اونچے سروں میں لہک لہک کر گارہے تھے۔

دنیا زمانے سے بے نیاز، تمام فکروں سے آزاد، اپنی دھن میں مگن اور میرے ذہن میں شور مچاتے ہوئے خیالات سے لا پروا……. ابھی چند روز ہی ہوئے کہ ملکہ برطانیہ نے کہا تھا کہ ہم سب مر جائیں گے مگر ہمارے بچے اور ان بچوں کے بچے تو جئیں گے،تو کیا ہم انہیں صاف ستھری،پاک و پاکیزہ اور کثافت اور آلودگی سے پاک دنیا سونپ کر نہیں جائیں گے۔

اگر جائیں گے تو اٹھیں، باتیں بند کریں اور اپنی اس نیلی نیلی ،گول اور سڈول دنیا کی نازک سی باریک اوڑھنی میں اپنی ہی سیاہ کاریوں کی بدولت پڑنے والے چھیدوں میں پاکیزہ ہوا کے پیوند لگانے کے جتن کریں۔ہمیں اس کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔

برطانیہ میں ان ہی دنوں دنیا بھر کے ملکوں کے سربراہ یا حکمراں اور ہزاروں مندوب جمع تھے۔ خدا جانے کون کہاں کہاں سے چل کر اسکاٹ لینڈ پہنچا تھا جہاں ماتم بپا تھا کہ دنیا کا موسم گرم ہوتا جارہا ہے۔

ٹمپریچر اوپر جارہا ہے اور قدرت نے جو نظام آراستہ کر کے ہمیں سونپا ہے اس پر کرب کا عالم ہے اور اس کا کراہنا صاف سنا جارہا ہے اس لئے اے لوگو، اپنے کرہء ارض کو سنبھالو ورنہ اب کے جو طوفان نوح آئے گا اس میں نہ کوئی تنہا بچے گا نہ کسی کی جوڑیاں محفوظ رہیں گی۔

اسکاٹ لینڈ میں ان دور دراز جزیروں کے باشندے بھی آئے تھے جن کی خشک زمین پر بلند ہوتے ہوئے سمندر کی لہریں چڑھی آرہی ہیں اور ان کی بستیوں کو دیکھتے دیکھتے ہڑپ کر رہی ہیں۔ان خوف زدہ لوگوں کی تقریرو ں نے سننے والوں کے دل دہلا دئیے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم یہاں مغرب میں آباد لوگ برسوں سے سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ قطب شمالی اور جنوبی میں لاکھوں برسو ں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے اور دنیا کے چھوٹے بڑے سمندروں کی سطح اونچی ہوتی نظر آرہی ہے۔

اتنے بڑے عالمی اجتماع کے لئے اسکاٹ لینڈ کا علاقہ ہی کیوں چنا گیا تھا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہی وہ سرزمین تھی جہا ں سے مشہور و معروف صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا تھا۔ تو کیا اس عالم گیر اجلاس کے بعد اسی سرزمین سے دنیا کے موسم کو کثافت اور آلودگی سے بچانے کی تحریک بھی بیدار ہوگی۔

کیا یہیں سے وہ ٹھوس قدم اٹھیں گے جن کے نتیجے میں میری نسل رہے نہ رہے، آنے والی نسلیں روز صبح آفتاب کی شفاف کرنوں میں نہایا کریں گی اور کیا یہیں پرسکون راتوں کو چاندنی اپنا دامن پھیلا کر میرے بچوں اور ان کے بچوںکو سکھ کی چادر اڑھایا کرے گی۔

میں خبروں میں اس عظیم اجلاس کی کارروائیاں سنتا رہا اور اپنے سر میں شور مچانے والے اس خیال کو برا بھلا کہتا رہا جو مسلسل کہے جارہا تھا کہ زیادہ امیدیں نہ باندھو، بڑی بڑی توقعات نہ باندھو۔

دنیا کے موسم بگڑنے کا اسباب کچھ آج کے تو نہیں، یہ آفت برسہا برس سے جاری ہے اور ڈرو اس دن سے جب اس اجلا س میں بلند ہونے والی صدائیں مدھم پڑتے پڑتے ہو ا میں تحلیل ہوجائیں گی،اُسی ہوا میں جس کا چہرہ ہم اپنے ہی ہاتھوں مسخ کر چکے ہیں۔ہم پٹرول پھونک رہے ہیں، ڈیزل جلا رہے ہیں، کوئلہ اپنی بھٹیوں میں جھونک رہے ہیں۔

وہ سارا ایندھن جسے قدرت نے زمیں دوز کردیا تھا، ہم نے اسے دن کے اجالے میں نکالا اور اس سے توانائی بنانے لگے۔ مگر ہمارے درخت اور ان کی لکڑی تو سطح زمین پر تھی، اسے بے دریغ کاٹا یہ جانتے ہوئے کہ یہی درخت زمین کے پھیپھڑ ے ہیں، یہ سانس لیتے ہیں تو ہماری سانس چلتی ہے۔ ان کا دم گھٹا تو ہمار ا جینا محال ہوجائے گا۔

اتنے دکھڑے رونے کے باوجود لگتا ہے دنیا پر اس کا اثر نہیں ہوا۔ تین بڑے ملکوں روس، چین اور بھارت نے تو معذرت کرلی کہ وہ اجلاس میں طے پانے والے لائحہ عمل کا پابند نہیں ہو سکتے۔

وہ بہت بڑے ہیں اور انہیں زیادہ مہلت درکار ہے۔دنیا کے صرف آٹھ ملک ہیں جو باقی دنیا سے زیادہ زہریلی گیس بناتے ہیں؛بظاہر یہ ہندسہ چھوٹا سا ہے مگر ہے بڑا خطر ناک ہے۔دنیا کو اب پٹرول اور ڈیزل کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔زمین کے نیچے سے نکلنے والے ایندھن کے استعمال سے توبہ کرنی ہوگی۔

یہ طے کرنا ہوگا کہ اب کسی درخت پر کلہاڑی نہیں چلے گی۔ اب دنیا پر سبزے کا راج ہوگا،ہریالی ہوگی، چمن ہوں گے ، گل ہوں گے، گلزار ہوں گے اور ہم سرکش سمندروں کے منہ زور تھپیڑوں سے محفوظ ،اپنے گھر کو اپنی جنت کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔

لوگ دوسروں کو کہا کرتے ہیں، ہم آج خود سے کہنے پر مجبور ہیں: ہمارے بچّے جئیں۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author