نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا وزیر اعظم عمران خان توجہ کریں گے؟|ظہور دھریجہ

اس موقع پر حکومت کی توجہ پانی کے مسئلے کی طرف مبذول کرائی گئی مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اس طرف توجہ کریں گے؟ یہ حقیقت ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں تمام بربادی وسیب کی ہوئی ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واٹر ریسورسز کے حوالے سے ملتان میں منعقد کئے گئے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پانی کے وسائل کم ہو رہے ہیں اور آنیوالے وقتوں میں پاکستان کو پانی کی شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔کسان نمائندے ملک اللہ نواز وینس اور رانا فراز نون نے کہا کہ کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ اصولی طور پر قابل کاشت رقبے کیلئے پانی ملنا چاہئے مگر زیر کاشت رقبے کو بھی پانی نہیں مل رہا۔
اس موقع پر حکومت کی توجہ پانی کے مسئلے کی طرف مبذول کرائی گئی مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اس طرف توجہ کریں گے؟ یہ حقیقت ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں تمام بربادی وسیب کی ہوئی ۔ خطے کی پوری تہذیب مر رہی ہے اور جب سیلاب آتا ہے تو سب سے زیادہ تباہی بھی وسیب کی ہوتی ہے اور وسیب کا اب یہی مقدر رہ گیا ہے کہ سیلاب آئے تو ڈوب مرے اور سیلاب نہ آئے تو پیاس سے مرے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے،ضروری ہے کہ بھارت سے مذاکرات کے ذریعے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کرائی جائے اور خطے کی مرتی ہوئی تہذیب کو پانی دیا جائے۔
رقبوں کے پانی کیلئے سندھ اور وسیب کا حصہ برابر مقرر کیا جائے اور جو فارمولا اپر پنجاب اور سندھ کیلئے فی ایکڑ کے حساب سے وضع کیا گیا ہے ، وہی فارمولا وسیب کیلئے بھی ہونا چاہئے ،پہلے تجربات سے خطرات لاحق ہو چکے ہیں ، اب تو وسیب کے لوگ مزید آبادکاری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔بھاشا ڈیم کے سلسلے میں بھی وسیب کو گارنٹی دی جائے کہ اس نتیجے میں ایک انچ زمین بھی باہر سے لائے گئے کسی آباد کار کو الاٹ نہیں ہو گی اور نہ ہی ڈیم متاثرین کے نام سے یہ دھرتی ہڑپ کی جائیگی اوروسیب کی زمینوں کیلئے ریونیو بورڈ لاہور نہیں اسی خطے میں ہو گا اور اس کے سربراہ و ممبران مقامی ہوں گے ۔ وسیب کو تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے بلا تاخیر وفاقی اکائی کا حق دیا جائے، ان اقدامات سے یہ قوم ہمسایہ قوموں کو کالا باغ کی افادیت سے آگاہ کر کے آمادہ کر سکتی ہے اور کالا باغ ڈیم بن سکتا ہے ۔
دوبارہ یہی عرض کروں گا کالا باغ ڈیم اس لئے نہیں بن رہا کہ یہ وسیب کا منصوبہ ہے اور پنجاب کے نام پر رُکا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا باغ ڈیم تمام قوموں اور تمام صوبوں کی مرضی سے بننا چاہئے لیکن وسیب اپنی ملکیت سے کسی بھی صورت دستبردار نہیں ہوگا ۔ کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر وسیب کی معروضات پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے ۔
 وسیب کا مطالبہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کے سلسلے میں اصل فریق سرائیکی ہے ، ڈیم سے متعلق تمام معاملات میں سرائیکی کو بحیثیت قوم اور بحیثیت اکائی شامل کیا جائے، ارسا میں وسیب کو نمائندگی دی جائے ۔ اس سلسلے میں دریاؤں کا محور وسیب کو یکسر نظر انداز کر کے سندھ کو ارسا میں دوہری نمائندگی دینا بے انصافی ہے،یہ آمر مشرف کا فیصلہ تھا ۔ اصل اور حقیقی بات یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب پر کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔ آبی ذخائر کی تعمیر کے سلسلے میں پنجاب پر کیوں اعتماد نہیں کیا جاتا؟ ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ساری کہانی سمجھ آ جاتی ہے ۔
تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ پر پانچ بیراج تعمیر ہوئے ، تین سندھ میں اور وسیب میں مگر ان بیراجوں سے نکلنے والی نہروں میں پانی آنے سے قبل سیراب ہونی والی زمینوں کے اکثر رقبے پنجاب کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کو الاٹ ہو چکے تھے ۔ اس سلسلے میں پنجاب کے دانشور جناب پروفیسر عزیز الدین احمد کی کتاب ’’ کیا ہم اکٹھے رہ سکتے ہیں ‘‘ میں پوری تفصیل درج کی گئی ہے ۔
کوٹری کے غلام محمد بیراج سے غیر مقامی لوگوں کو کتنی زمین الاٹ ہوئی۔ سکھر بیراج کی پٹ فیڈر پر کتنی زمینیں غیر حقداروں کو ملی ۔ اسی طرح میری کتاب ’’ سرائیکی وسیب ‘‘ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ تاریخ ارضیات کی بد ترین جعلسازی کر کے تھل کے پانچ اضلاع بھکر، خوشاب ، میانوالی ،لیہ اور مظفر گڑھ کے دو تہائی رقبے ڈویلپمنٹ چارجز کے طور پر ہتھیا کر کس طرح غیر مقامی لوگوں کو دیئے گئے۔ اسی طرح راجن پوری کی دھندی سٹیٹ میں جائیں یا پھر ریاست بہاولپور کے چولستان کو لے لیں ، جہاں آج بھی ناجائز الاٹمنٹوں اور زمینوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کا ایسا طوفان آیا ہوا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، ان حالات میں پنجاب پر کون اعتماد کرے گا ؟ ۔
 محروم خطے کے تمام لوگوں کا خیال ہے کہ تمام بیراج اور ڈیم رقبے ہتھیانے کیلئے بنائے جاتے ہیں،لوگوں کو بھی سابقہ تجربات کی روشنی میں یہی خدشات لاحق ہیں ۔ اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ سرائیکی صوبہ بنایا جائے بعد میں سرائیکی ڈیم پاکستان میں بسنے والی قوموں اور تمام صوبوں کی رضا مندی سے تعمیر ہو۔ وسیب جسے پانی کے مسئلے پر فریق تسلیم نہیں کیا جارہا ،ڈیموں کی تعمیر کیلئے اس کی قر بانیاں سب سے زیادہ ہیں ،سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو تین دریا فروخت کیے گئے ،یہ تینوں دریا سرائیکی خطے کے تھے ،دریائے راوی لاہور سے صرف گزرتا تھا باقی اس کا اصل ’’وطن ‘‘ یہی خطہ تھا ،دریائوں کی حاصل شدہ رقم سے منگلہ اور تربیلہ ڈیم بنائے گئے اس سے 80ہزار ایکڑ سے زائد کا رقبہ متاثر ہوا ،متاثر ہونے والے رقبے کے کلیم سرائیکی دھرتی چولستان میں دیئے گئے او ر اب بھی چولستان میں تربیلہ ڈیم کے متاثریں اور منگلہ ڈیم کے متاثرین کے چکوک موجود ہیں ۔ڈیمز کے نتیجے میں دوسری نہروں کے ساتھ بلوچستان کے لئے ایک بڑی نہر ’’پٹ فیڈر‘‘بنائی گئی اور رقبے باہر کے آبادکاروں کو الاٹ ہو گئے۔
1972میں جب عطا ء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ اور غوث بخش بزنجو گورنر بنے تو انہوں نے تمام آباد کاروں کو وہاں سے نکال دیا پھر ان آباد کاروں کو چولستان میں رقبے دیے گئے چولستان میں آج بھی پٹ فیڈر متاثرین کے چکوک موجود ہیں ،ڈیموں کی تعمیر کے بعد چولستان اور تھل کے لیے نہریں نکالی گئیں یہاں لوگ خوش تھے کہ زمینوں کو پانی ملے گا لیکن پانی تو کیا ملنا تھا نہروں کی آمد کے باعث وہ زمینیں ’’کھسوا‘‘ بیٹھے۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author