نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ماں اور بچہ||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

وہ بد نصیب جان ہی نہیں پاتے کہ زندگی میں کیا کیا کہاں پوشیدہ تھا جس کو پانے کی آرزوئے بے تاب ان کی رگوں میں شعلہ بن کر دوڑ سکتی تھی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جان عزیز!

آج بہت دنوں بعد تم سے روبرو بات ہوئی۔ تمہارا خوبرو چہرہ دیکھنے کو ملا اور کانوں میں تمہارے رس گھولتے الفاظ… دیکھا اکیسویں صدی کا معجزہ کہ ہمارے بیچ وقت کی دیوار بھی تھی اور کئی اجنبی سرزمینیں بھی لیکن پھر بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ الفاظ تھے، چہرہ تھا، محبت تھی، کیا ہوا جو ہم ایک دوسرے کو چھو نہیں سکتے تھے۔ کیا فرق پڑا کہ تمہارے ہاں رات اپنی سیاہی پھیلا چکی تھی اور میں چمکتے سورج تلے بیٹھی تمہاری بلائیں لے رہی تھی۔ آخر کو ہم مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں۔

میرے اماں ابا مجھ جیسے خوش قسمت نہیں تھے کہ اپنی اولاد کو جب چاہتے فاصلوں کے باوجود تکتے اور سنتے۔ ڈیڑھ دو مہینے کے بعد میں گھر جاتی اور وہ بھی ویک اینڈ کے دو دن۔ سوچو تو چھ برس میں کتنے دن ساتھ گزرے ہوں گے ہمارے۔

سو ان چھ برسوں میں وہ ایسے بہت سے دن دیکھنے سے محروم رہے جو انہیں سرشاری میں مبتلا کرتے۔ اور میرے ہاتھ سے بھی وہ سب سال ریت کی طرح چپکے سے پھسل گئے۔ اب میرے یادداشت کے خانے میں ان برسوں کی تصویر بہت دھندلی ہے، پھیکے اور مٹے مٹے رنگوں والی بہت سی تصویریں۔

اور دیکھو اب جو البم بن رہی ہے، میری اور تمہاری! اس کے ہر صفحے پر کیسے خوش رنگ لمحات ہیں، وقت اور زمانے کی قید کو انٹرنیٹ نے ہرا دیا ہے۔

کل تم سے بات کرتے ہوئے عجیب سا احساس ہوا۔ تم اداس نظر آئے، نہ صرف اداس بلکہ اندرونی کرب کا شکار بھی۔ سوچو کیسے جانا میں نے کہ تم پر کیا بیت رہی ہے؟

جب تم نے کہا نا کہ ماں آخر ہمیں ایک جگہ سے کوچ کر کے دوسری جگہ کیوں جانا ہوتا ہے؟ وہ سب مقام جو ہمارے اندر سانس لیتے ہیں، وہ سب لوگ جو ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، وہ سب محبتیں جو زندہ رہنا سکھاتی ہیں، انہیں خُداحافِظ کیوں کہنا پڑتا ہے؟ اس میں درد ہے ماں، بہت درد!

کچھ حیران ہوتے ہوئے میں نے تمہیں دیکھا، احساس اور درد کا یہ سرمایہ کب تمہارے دامن میں آ ٹھہرا؟ تمہاری آنکھ میں اس قدر جذب کیسے آن اترا؟

تمہارے درد کو میں نے اپنے دل پہ اترتے محسوس کیا۔ دل کی زمین نم ہوئی اور یہ نمی آنکھ میں اتر گئی۔

آنول نال سے کٹنے کا دکھ ایسا ہی ہوتا ہے میری جان!

اب تم جھنجھلا کر کہو گے، ماں، آپ کیا عجیب و غریب لفظ بولتی رہتی ہیں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ دیکھو اب یہ تو ہماری بدقسمتی ٹھہری نا کہ ہم تمہیں اپنی زبان بھی نہیں دے سکے۔ وہ زبان جس سے تمہارے نانا کو محبت ہوئی اور ان کی اس محبت کو ہم نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔

جلاوطنی کے بہت سے دکھوں میں ایک دکھ اپنی زبان کو کھو دینا بھی ہوتا ہے۔ بین الاقوامی سکولوں میں پڑھتے ہوئے، مختلف ممالک کے بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے تم آخر اردو کیسے سیکھتے۔ خیر اتنا تو ہوا کہ گھر میں تم تینوں سے میں نے انگریزی میں بات نہیں کی، سو عام فہم اردو تو تم لوگ سیکھ ہی گئے۔ مسلۂ جب ہوتا ہے جب میں بقول تمہارے گاڑھی اردو بگھارنا شروع کر دوں۔

ویسے اب تو ایک اور بات پہ بھی افسوس ہوتا ہے کہ تم لوگوں کو مادری زبان کیوں نہیں سکھائی؟ پنجابی بولنے میں مجھے بہت مزا آتا ہے شاید اس لئے کہ ایک ہی جست میں میں اس آنگن میں پہنچ جاتی ہوں جہاں اماں ابا اور بہن بھائی تھے۔ جدائیوں کی فصل کاٹی نہیں گئی تھی ۔ یہ خبر نہیں تھی کہ ایک ہی چھت تلے رہنے والے ایک دن کیسے اجنبی بن جائیں گے۔ خیر اس کی سمجھ تو آج بھی نہیں آئی۔

اچھا تو میں بات کر رہی تھی، پنجابی سیکھنے اور سکھانے کی تو کیوں نہ اب سے شروع کریں۔ ماں بولی تو ماں ہی ہوتی ہے، جب بھی پکارو، مایوس نہیں کرتی۔

مجھے علم ہے کہ تم سوچ رہے ہو گے کہ ماں باتیں کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں ۔ تم جانو ہم ماؤں کی ذہنی رو ایسی ہی ہوتی ہے، بہا کر کہیں سے کہیں لے جاتی ہے۔

اچھا سنو آنول نال ( umbilical cord) نام ہے اس ڈوری کا جو ماں اور بچے کو آپس میں جوڑتی ہے۔ اس کے ذریعے بچہ حمل کے دوران رحم مادر میں خوراک حاصل کرتا ہے، زندگی ملنے کی تمنا کرتا ہے اور باہر کی دنیا کو محسوس کرتا ہے۔ اس کا جینا مرنا، سونا جاگنا، ہنسنا کھیلنا، کھانا پینا، حوائج ضروری کے مراحل اور سوچ کے نئے دریچے اسی ڈوری کے ذریعے ماں سے جڑتے ہیں۔ دوسری طرف ماں کی ہر سوچ، خیال، تکلیف، خوشی، غم، درد اور احساس بچے کو اپنے حلقے میں لے لیتا ہے۔ کوکھ ایسی پناہ گاہ بن جاتی ہے جو بچے کو بہت سی ان کہی اور انہونی سے روشناس کرواتی ہے۔ کچھ آوازیں، کچھ احساسات، کچھ جذبات بچے کا زاد راہ بن جاتے ہیں اور وہ انہی کو منزل سمجھ لیتا ہے۔

لیکن جدائی کا موسم نو ماہ بعد آ ہی جاتا ہے۔ بچہ بچھڑنے پہ روتا، چیخیں مارتا اور احتجاج کرتا ہے ۔ وہ مورکھ نہیں جاننا چاہتا کہ حیات نو کا آغاز تو اب ہوا ہے۔ دنیا اس اندھیرے غار کا نام نہیں جہاں ایک ہستی اپنے خون جگر سے رگ پٹھے کی آبیاری کرتی تھی۔

اب دنیا ایک کائنات میں بدل چکی ہے اور اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ بازو پھیلائے استقبال کے لئے تیار ہے۔ زندگی دینے والی ہستی ابھی بھی ساتھ ہے اور رہے گی مگر آنول نال تو کٹ جائے گی۔ کٹنے کا درد بھی ہو گا مگر یہ ناگزیر درد کئی اور در وا کرے گا، جینے، سیکھنے، پرواز کرنے اور نئی دنیاؤں کو فتح کرنے کے اسباب۔

آنول نال کٹ جانے کے بعد بچہ اور ماں ایک سے دو میں ڈھل جاتے ہیں لیکن محبت کی جس ان دیکھی ڈوری میں دونوں بندھے ہیں وہ ان کو جدا ہونے نہیں دیتی۔

حمل کے دوران ماں بچے کی حرکت سے اندازہ لگاتی تھی کہ وہ خوش ہے یا اداس، نیند میں ہے یا کھیل کے موڈ میں لیکن اب ماں ایسا چکور ہے جو چاند کو دیکھ دیکھ کر جیتا ہے۔جس کے سانس کی ہر تار بچے سے بندھی ہے۔

وقت کے مہ و سال اپنے رنگ بکھیرتے دوڑتے جاتے ہیں۔ برسوں پہلے لگایا گیا ننھا پودا تناور درخت بننے کے مراحل طے کر رہا ہے۔ لیکن برگد کے سائے تلے پنپنے والے ننھے پودوں کو ایک دن بغیر کسی سہارے کے خود کھڑے ہونا ہے۔نئی سرزمینوں سے آشنا ہونا ہے اور گرم و سرد کا عذاب خود سہنا ہے۔ وہ سب کچھ جو اب تک پاس ہے، اسے اپنی یادوں کی البم میں سجا کر خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں ہونا ہے۔

اور یہی وہ وقت ہے جب نظر نہ آنے والی آنول نال کٹتی ہے، دوسری دفعہ۔سب بندھنوں سے آزاد ہو کر اپنی دنیا خلق کرنے کی آرزو کہہ لو یا شاید ضرورت!

لیکن ایک بات جان لو! جس طرح جنم وقت آنول نال کٹ کر زندگی بخشتی ہے، اسی طرح اس آنول نال کا کٹنا بھی زندگی کے ایک نئے پہلو کو اپنے ڈھب سے جینے میں مدد دیتا ہے۔

جدائی تکلیف دہ ہوتی ہے، یادیں رہ رہ کر تڑپاتی ہیں، پیچھے رہ جانے والے مقام اور چہرے دل پر گھاؤ تو لگاتے ہیں لیکن میرے بچے، یہ درد ہی تو جینے کا ہنر ہے۔ زندگی کے دشوار گزار راستوں سے نبرد آزما ہونا آنول نال کے کٹنے کے بغیر ممکن نہیں۔

میں اداس ہوں کہ تم درد میں ہو۔ تم اپنے گھر اور اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہو۔ تمہیں وہ سب یاد آتا ہے جو پچھلے اٹھارہ برس سے تمہارا ہم سفر تھا۔ تم اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہتے ہو کہ بچھڑنا مقدر کیوں ہوتا ہے؟

لیکن میں خوش ہوں کہ تمہاری تیسری آنکھ بیدار ہو رہی ہے۔ اپنے آپ کو تلاش کرنے کی جستجو ہی میں تو زندگی کا اصل چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کو زندگی یہ موقع دیتی ہے۔ جان لو کہ یہ ہما ہر کسی کے سر پہ نہیں بیٹھتا۔

اور یہ بھی سمجھ لو کہ جن کی دوسری آنول نال نہیں کٹ پاتی، وہ لوگ کنویں کے مینڈک بن کر عمر بسر کرتے ہیں۔ نہ کچھ پانے کی جستجو، نہ کچھ کھونے کا اضطراب، نہ گزرے ہوئے وقت کی انمول یادیں، نہ اجنبی سرزمینوں کو کھوجنے کی تمنا کچھ بھی تو ان کے حصے میں نہیں آتا۔ وہ ایک ایسے جوہڑ کے باسی بن جاتے ہیں جس کا گدلا اور بدبودار پانی نہ صرف تعفن پھیلاتا ہے بلکہ سب رشتوں کو زہر آلود بھی کر دیتا ہے۔

وہ بد نصیب جان ہی نہیں پاتے کہ زندگی میں کیا کیا کہاں پوشیدہ تھا جس کو پانے کی آرزوئے بے تاب ان کی رگوں میں شعلہ بن کر دوڑ سکتی تھی۔

میرے بچے ! جان لو کہ تمہارا درد میرا درد ہے۔ تمہاری اداسی اور تنہائی مجھے گھائل کرتی ہے۔ میں دن کے ہر سمے اور رات کے ہر پل تمہاری پرچھائیں کا تعاقب کرتی ہوں۔ میں تمہیں سوچتی ہوں ہر پل کہ اب تم سائیکل چلا رہے ہو گے، اب جم میں مصروف ہو گے اور اب پڑھائی میں سر کھپا رہے ہو گے اور اب اپنا گٹار بجانے کی پریکٹس کر رہے ہو گے۔

ایک بات اور بھی ہے! آنول نال ماں کے جسم کا ایک حصہ ہوتی ہے جسے جنم وقت میں نئی زندگی کو خوش آمدید کہتے ہوئے وہ قربان کرتی ہے۔ یہ دوسری والی آنول نال بھی ماں کے جذبات، احساسات اور آرزوؤں سے جڑی ہوتی ہے اور جسے ماں پھر سے کاٹ دیتی ہے کہ اس کے بطن سے جنم لینے والا اس زندگی کو برتنا سیکھ جائے۔

درد ماں کا مقدر ہے یا شاید درد ہی ماں ہے۔ وہ درد بھوگنے کے لئے اتاری جاتی ہے لیکن اس درد کو سہنا آسان ہو جاتا ہے جب وہ جان لے کہ درد کی اس بھٹی سے نکلنے والا آسمان بننے کے لئے تیار ہے، کہیں کسی اور جگہ، کسی اور کے لئے۔

سنو اب اور اداس نہیں ہونا۔ ہم ایک دوسرے سے ملنے کی آس کو ہمیشہ جلائے رکھیں گے۔ یہ ہمیں جینے کا حوصلہ دے گی۔

بہت سا پیار!

تمہاری ماں!

About The Author