محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی فتح کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا، لکھا جا چکا، مزید اضافہ کیا کرسکتے ہیں؟اپنی خوشی ہی شیئر کریں گے ، البتہ اس تحریر کو دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک سبب بھی تصور کریں۔ وہ بہت کچھ جو میچ سے پہلے کہنا چاہتے تھے، مگر نہیں کہہ پائے، اس عظیم الشان جیت نے وہ کہنے کا موقعہ فراہم کر دیا۔ ایک ممتاز فرانسیسی سیاستدان اور سابق وزیراعظم جارج کلیمنسو(Georges Clemenceau)سے منسوب فقرہ بہت مشہور ہوا، انہوں نے ایک بار کہا، جنگ اتنی اہم ہے کہ اسے صرف جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
اس جملے کو بعد میں چرچل نے بھی دہرایا اور پچھلے ستر اسی برسوںمیں بارہا یہ خوبصورت معنی خیز جملہ مختلف حوالوں سے نقل کیا گیا۔ کرکٹ کے ایک شائق کے طور پر بارہا یہ خیال آیا کہ اسی بات کو پاکستانی کرکٹ اور ہمارے سابق کرکٹرز پر بھی فٹ کیا جا سکتا ہے۔ کرکٹ سے ہم پاکستانی بہت محبت کرتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ ہمارے خون میں دوڑ رہی ہے۔
قومی کھیل ابھی تک ہاکی ہے، اگرچہ اسے بدلا جا سکتا ہے تو بدل دینا چاہیے۔ کرکٹ ہی پاکستان کا قومی کھیل ہے، ہر بچہ بھاگنے دوڑنے کی عمر سے بلا ہاتھ میں پکڑتا اور کرکٹ کے ذریعے اپنی انرجی کا اظہار کرتا ہے۔کرکٹ کا یہ جنون پانچ سال سے پچھتر سال کے بزرگوں تک یکساں ہے۔کرکٹ میچز ہمارے ہاں بہت شوق سے دیکھے جاتے ہیں ، ان میچز پر ہونے والے تبصرے اور جائزے بھی سپر ہٹ ریٹنگ لیتے ہیں۔ بڑے میچز سے پہلے ٹی وی چینلز بہت سے پروگرام کرتے ہیں، ممتاز سابق کرکٹرز کو بلا کر ان کی آرا لی جاتی ہے۔
ان سابق کرکٹرز کی قومی کرکٹ کے لئے بڑی خدمات ہیں۔ اپنے وقت میں انہوں نے بہت میچ جتوائے۔ کئی ایسے سابق کرکٹرز دس بارہ پندرہ برس تک قومی ٹیم کے لئے کھیلے۔ ان کے تجربے، مہارت، معلومات کو ظاہر ہے کون چیلنج کر سکتا ہے؟ یہ بات البتہ کہنا چاہوں گا کہ اکثر اوقات ہمارے جیسے عام شائقین کو ان سابق سپرسٹارز کی گفتگو، آرا اور تجزیوں سے سخت مایوسی ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے ذاتی پسند ، ناپسند ان کے آڑے آ جاتی ہے یا پھر تن آسانی کے باعث یہ کرکٹ میچز کو فالو نہیں کر پاتے۔ممکن ہے دماغی محنت سے گریزاں ہونے یا پھر اپنے وی لاگز میں نئی ، منفرد بات کہنے کے چکر میں کئی بڑے کرکٹرز ایسی ایسی بونگیاں مارتے ہیں کہ آدمی ہکا بکا رہ جاتا ہے۔
ماضی میں ایسے بہت سے واقعات ہوچکے ہیں۔ محمد آصف ہماری ماڈرن کرکٹ کا غیر معمولی فاسٹ بائولر تھا، جس کی حیران کن نپی تلی گیندوں اور دونوں طرف سوئنگ موومنٹ نے دنیا بھر کے بلے بازوں کو پریشان کر دیا تھا۔ اگر وہ پہلے منشیات کے چکروں میں اورپھر میچ فکسنگ میں نہ پڑتا تو آج بہت سے ریکارڈ قائم کر کے دنیا کا بہترین فاسٹ بائولر ہوتا، اینڈرسن، سٹین کی کیٹیگری کا بائولر۔ اسی آصف کو آسٹریلیا کے پہلے دورے پر بھیجا گیا تو اس کی بائولنگ دیکھ کر ہمارے لیجنڈری فاسٹ بائولر وقار یونس نے فرمایا کہ یہ تو کلب کی سطح کا بھی بائولر نہیں ہے، نجانے اسے کس نے ٹیم میں شامل کر دیا۔ معروف سپورٹس جرنلسٹ سلیم خالق اس کے راوی ہیں، ان کے سامنے وقار یونس نے یہ کہا۔ بعد میں اسی آصف نے اپنے آپ کو منوایا تو وقار یونس نے اپنے تبصرے کو کبھی دہرانے کی غلطی نہیں کی۔ مزے کی بات ہے کہ یہی وقار یونس 2015ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے کوچ تھے، ان پر دبائو تھا کہ سرفراز احمد کو اوپنر کھلایا جائے۔
وقار یونس کا کہنا تھا کہ سرفراز کا سٹائل اوپنر والا نہیں،مگر تب سرفراز کا طوطی بول رہا تھا۔ وقار کو مجبوراً سرفراز کو اوپنر کھلانا پڑا، اس نے ایک دو میچز میں بھرپور اننگ بھی کھیل ڈالی۔ اس کے بعد مگر سرفراز نے کبھی اوپننگ کی کوشش نہیں کی۔
وہ کئی سال تک ٹیم کا کپتان رہا، چاہتا تو اوپنر جا سکتا تھا، مگر ہمیشہ نمبر پانچ، چھ ، سات پر کھیلتا رہا۔ وجہ یہی تھی کہ سرفراز کا بیٹنگ سٹائل اوپنر والا ہے ہی نہیں،وقار یونس کی رائے اس حوالے سے درست تھی اور سرفراز کے حامی سابق کرکٹرز غلط تھے۔ پچھلے ڈیڑھ دو برسوں میں ٹیم کے اندر جو متعدد تبدیلیاں آئیں، کئی بڑے کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ پلان سے نجانے کیوں باہر کر دیا گیا؟
عماد وسیم اور شعیب ملک جیسوں کو کھلایا ہی نہیں جاتا رہا کہ یہ ہمارے پلان میں نہیں۔ بھئی کیوں؟ جو کھلاڑی دنیا بھر کی لیگز کھیل کر غیر معمولی پرفارم کر رہا ہے، اسے کیوں ورلڈ کپ گیم پلان کا حصہ نہیں بنا رہے جبکہ یہ ٹورنامنٹ جنوبی ایشیا ہی میں ہونا ہے ۔آخر کارشدید عوامی دبائو پر مجبور ہو کر انہیں شامل کرنا پڑا۔ مصباح، وقار یونس، محمد وسیم وغیرہ کی رائے اس حوالے سے غلط اور فضول تھی۔ واضح طور پر ذاتی پسند ناپسند آڑے تھی۔ محمد حفیظ کا معاملہ زیادہ دلچسپ رہا کہ موجودہ چیئرمین بورڈ اپنے وی لاگ میں انہیں ریٹائر ہونے کا مشورہ دے چکے۔ حفیظ نے تب بھنا کر کہا تھا کہ میرا بارہ سالہ بیٹا بھی رمیز راجہ سے زیادہ کرکٹ جانتا ہے۔ حفیظ پر تنقید اور یہ مشورہ بلاجواز تھا۔
جو کھلاڑی جب تک اچھا کھیل رہا ہے، اپنی فٹ نیس برقرار رکھے ہوئے ہے، اس کی عمر کی بات کرنا بیکار ہے۔ ہمیں پرفارمنس چاہیے ، وہ ٹین ایجر دے یا پینتیس سالہ کرکٹر، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک اور دلچسپ معاملہ بابر اعظم اور محمد رضوان کی ٹی ٹوئنٹی میں اوپننگ کا ہے۔ یہ دونوں بنیادی طور پر اوپنر نہیں، مگر ٹی ٹوئنٹی کے لئے اپنے بیٹنگ سٹائل میں تبدیلی لائے اور پچھلے ڈیڑھ برسوں میں پاکستان کو بہترین اوپننگ پارٹنرشپ دیں، بہت سے میچ جتوائے اور کئی میچز تو اس جوڑی نے خالص اپنے زور پر جیت لئے۔
دنیا کی کسی بھی ٹیم میں، کسی بھی معقول تجزیہ کار کے لئے اس اوپننگ جوڑی کے خلاف کوئی بات کرنے کی تک ہی نہیں ۔اس کے باوجود ہمارے ہاں ابھی تک شور مچا رہا کہ یہ اوپنر نہیں، انہیں اوپنر کیوں بنایا گیا ہے؟ کبھی حیدر علی کی ناکامی کا بوجھ اس پر ڈالنے کے بجائے کہا جاتا کہ اسے اوپننگ نہیں کرنے دی جا رہی ،اس لئے ایسا ہے، کبھی کسی اور بہانے سے بابر اور رضوان پر تنقید ۔جو ٹیم کے سب سے بڑے پرفارمر ہیں، ان پر تنقید کا کیا جواز؟
خدا کے لئے اب تو انہیں اوپنر تسلیم کر لیں۔ شعیب اختر جو سب سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں، وہ ہمیشہ اس جوڑی پر تنقید کرتے رہے۔ شرجیل خان کو اوپنر کے لئے تجویز کرنے کا مقصد ہی اس جوڑی کو توڑنا ہے۔ اسی طرح کبھی یہ مشورہ کہ فخر کو اوپننگ کرائی جائے ، کبھی فخر اور شرجیل کی اوپننگ کا مشورہ ۔
یہ سب کرنے والے ممتاز سابق کرکٹرز تھے۔ حیرت ہوتی کہ اتنے سادہ لوح، ناپختہ اور بے وقوف یہ کیسے ہوسکتے ہیں؟سادہ سی بات ہے کہ جو کھلاڑی بطور اوپنر غیر معمولی اوسط کارکردگی دکھا رہے ہیں، مختلف گرائونڈز، مختلف پچز پر میچ جتوا رہے ہیں، انہیں ڈسٹرب کرنے کے بجائے اگر مڈل آرڈر کا مسئلہ ہے تو وہاں ٹھیک کیا جائے۔ حارث روئوف اور شاداب خان اس حوالے سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنے۔ حارث رئوف نے کئی اہم میچ پاکستان کو جتوائے ہیں، اپنے جذباتی انداز سے اس نے بعض میچوں میں مہنگی بائولنگ بھی کرائی ۔
یہ سب کرکٹ کا حصہ ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ مجموعی تاثر کیا ہے اور اس کا متبادل اس سے بہتر ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر انہیں ہی اعتماد دیا جائے اور جہاں تکنیکی کمزوری ہے، اس پر کام کیا جائے۔ہمارے کئی سابق کرکٹرز اپنی طرف سے حارث رئوف کو کرکٹ پچ پر ہی دفن کر چکے تھے، یہ تواس نوجوان کی سخت جانی ہے کہ پھر سے زندہ ہوجاتا ہے اور اپنے کھیل سے ان سابق کرکٹرز ، نام نہاد سپورٹس رپورٹرز کا منہ بند کر دیتا ہے۔یہی معاملہ شاداب خان کا ہے۔ یونس خان جیسے کھلاڑی نے کہا کہ اسے نہیں کھلانا چاہیے۔
انڈیا کے ساتھ میچ میں شاداب خان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اگر وہ اہم موقعہ پر رشب پنٹ کی وکٹ نہ لیتا تو شائد میچ کا نقشہ مختلف ہوتا۔ پاکستان نے انڈیا کو شاندار طریقے سے میچ ہرا دیا۔ عام شائق سے لے کر سابق کرکٹرز تک ہر کوئی خوش ہے۔یہ پہلا میچ تھا، ابھی اور بہت سے امتحان ہیں۔ آج نیوزی لینڈ سے میچ ہے، اس کے بعد افغانستان سے معرکہ آرائی ہوگی، پھر نسبتاً آسان میچ سکاٹ لینڈ اور نمبیا سے ہیں، مگر ورلڈ کپ میں کوئی میچ بھی آسان نہیں لیا جاتا۔ ورلڈ کپ میں ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔
ہمارے سابق کرکٹرز، سپورٹس رپورٹرز اور سوشل میڈیا تجزیہ نگاروں کو اپنے غلط اندازوں، خام تجزیوں کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ پسند، ناپسند کو تجزیوں سے باہر رہنا چاہیے۔ کراچی، لاہور کی سپورٹس لابی کی چپقلش کو بھی حاوی نہیں ہونا چاہیے۔ قوم کی درست رہنمائی کریں، نوجوانوں کی تربیت کریں اور منفرد بات کہنے کے شوق میں تکنیکی طور پر غلط، بے بنیاد باتیں نہ کہیں۔ ہم سب کرکٹ سے محبت کرتے ہیں، براہ کرم ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں۔ پس نوشت:وائرل بخار میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پچھلا ہفتہ کالم لکھنے کا ناغہ رہا۔ الحمدللہ صحت بحال ہوچکی۔ بہت سے احباب نے میسجز، میلز کے ذریعے دریافت کیا، ان سب کا شکریہ۔ اللہ آپ سب سے راضی ہو، آمین۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر