ضلع راجن پور کی محرومیوں کا خاتمہ کب ہوگا…..؟
تحریر: ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پورشریف
تحریک انصاف کی حکومت نے پورے ضلع راجن پور سے قومی و صوبائی حلقوں پر کلین سوئیپ کیا اور مخصوص نشست پر شیریں مزاری کو وفاقی وزیر برائے
انسانی حقوق بنایا جنکا تعلق بھی انتہائی پسماندہ اوردورافتادہ ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان سے ہے
ویسے بھی صدر مملکت،وزیر اعظم،وفاقی و صوبائی وزراء،سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور نامعلوم کتنے بڑے بڑے عہدوں کے تاج یہاں کےالیکٹ ایبلز کے
سر سجے مگر انتہائی افسوس اور بدقسمتی کا مقام ہے کہ یہاں آج بھی پسماندگی،غربت و جہالت بے روزگاری کا دور دورہ ہے
اور اکثر کہنے والے راجن پور کو رہزن پور بھی کہہ جاتے ہیں جس کیوجہ یہاں کے کریمینل گینگز ہیں
جن کی پشت پناہی بھی یہاں کی مقتدر ہستیاں کرتی رہی ہیں اور اپنے من پسند نتائج و فوائد بھی حاصل کرتی رہیں
اور اب بھی مختلف پارٹیوں کے دوسرے شہروں کے معروف ایم این ایز،ایم پی ایز ، رکن سینٹ اور معروف شخصیات یہاں سے الیکشن کی دوڑ میں حصہ لینے کی خواہاں ہیں لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اور تاریخ گواہ ہے
یہاں کے لوگوں نے جن کو عزت دی اور کامیابی سے نوازا انہوں نے یہاں کے عوام کے دیئے گیئے
مینڈیٹ کی توہین کی جس کی واضح مثال حلقہ پی پی 247 سے سابق وزیر اعلی پنجاب اور موجودہ قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن میاں شہباز شریف یہاں منتخب ہوئے
مگر کامیابی کے باوجود یہ سیٹ انہوں نے چھوڑ دی اور گویا انہوں نے یہاں کے عوامی مینڈیٹ کی توہین کی حالانکہ حق تو یہ بنتا تھا کہ
وہ اسی حلقے سے وزیر اعلی پنجاب کا حلف لیتے اور اس پسماندہ ترین وسیب اور دھرتی کے بہتر تعمیروترقی اور اجتماعی فلاح وبہبود اور مفاد عامہ کے لئے کردارادا کرتے
مگر انہوں نے بھی وفا نہ کہ اورویسے بھی ہر دور میں یہاں کے الیکٹ ایبلز مزاری،لغاری،دریشک ،گورچانی اور درگاہوں کے سجادہ نشین فوجی دور آمریت ہوں یا مسلط کردہ جمہوری ادوار ہوں ان دونوں کی مجبوری رہے ہیں
اور یہی چند مٹھی بھر الیکٹ ایبلز مارشل لاء ہو یا مسلم لیگ،پیپلز پارٹی،ن لیگ،ق لیگ، یاتحریک انصاف کی حکومتیں ہو یہ چند خاندان آزاد حیثیت سے یا ان پارٹیوں کے ٹکٹ سے باپ دادا کےدور سے اور اب انکی اولادیں منتخب ہوتی چلی آرہی ہیں
اور اب بھی مختلف سیاسی پارٹیوں کا مرکز و محور آئندہ آمدہ قومی الیکشن جوکہ 2022 میں بھی متوقع ہے ورنہ 2023 توکنفرم ہی ہےکیونکہ بیشتر ماضی کے ادوار میں کوئی بھی حکومت اپنی آئینی جمہوری مدت پوری نہیں کر پائی اور
شاید اسی لیئے پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت یہاں کے الیکٹ ایبلز کے رابطے میں ہے اور دورے بھی جاری ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ جام پور ضلع کی بازگشت کئی
برسوں سے تھی جو کہ پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ یہاں کے الیکٹ ایبلز کو شاید خطرہ ہے کہ کہیں جام پور ضلع بن گیا تو یہاں کے ایم این اے،ایم پی اے،ضلع وتحصیل چیئرمین کے لیئے ان درج بالا چند خاندانوں کے علاوہ کوئی اور آگیا
جیسا کہ ڈی جی خان میں سابق صدر مملکت فاروق لغاری مرحوم کے مقابلے میں حافظ عبدالکریم اور انکے بعد اب مڈل کلاس سے زرتاج گل،
حنیف پتافی وغیرہ یہاں کے الیکٹ ایبلز کے مقابلے میں منتخب ہوگئے تو یہاں بھی کہیں ایسا نہ ہوجائے کیونکہ یہی درج بالا چند خاندان ہر دور میں ممبر سینٹ،رکن قومی و صوبائی اسمبلی،چیئرمین ضلع و تحصیل کونسلز منتخب ہوتے رہے ہیں
اور مڈل کلاس یا مقامی لوگ اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران منتخب نہیں ہو پائے اور شاید یہی وجہ ہے کہ 43 سال گزرنے کے باوجود بھی ضلع راجن پور کی محرومیاں ختم نہیں ہوسکیں. نشتر گھاٹ پل بھی برسوں گزرنے اور بار بار افتتاح کے
باوجود بھی مکمل نہ ہوا وہ تو خدا بھلا کرے دبئی کے شہزادوں کا جن کی شکار گاہ کے لئے نشتر گھاٹ سے بے نظیر بریج کا افتتاح ہوا
اور غریب عوام کو سہولت میسر آسکی. انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا افتتاح تو راجن پور میں ہوا مگر شفٹ اسلام آباد میں کر دی گئی.اب بھی کبھی کوہ سلیمان کبھی انڈس یونیورسٹی کے نام سے وزیر اعلی پنجاب نے اعلانات تو کیئے
مگر کریڈٹ اور آپت دی کھاپت کے چکر نے نام اور جگہ کے ایشو عملی قیام میں رکاوٹ ہیں اسی طرح 200 بستر پر مشتمل مدر اینڈ چائلڈ کیئر ہسپتال بھی التواء کاشکار ہے درجنوں پرائمری،ایلیمنٹری اورگرلز ہائی سکولز اپ
گریڈیشن کے منتظر ہیں مگر ممبران اسمبلی رکن سینیٹ اور بیوروکریسی اسطرف توجہ دینا شایدگناہ سمجھتی ہے کہ کہیں تعلیم ،
شعوروآگہی کے سبب ہمارے چہرے مزید عیاں نہ ہوجائیں کہ وہ یہاں تعلیم اور بالخصوص تعلیم نسواں کے فروغ کےلئے کس قدر کوشاں ہیں جس کی کئی مثالیں موجود ہیں جسمیں قابل ذکر واقعہ محمد پور شریف کا کہ وہ تو خدا بھلا کرے وہاں کے گشکوری خاندان کا جنہوں نےکالج برائے خواتین محمد پور شریف کے لئے رقبہ وقف کر دیا
اور برسوں سے التواء کاشکار کالج کا بالآخر افتتاح ہوا مگر اس پر بھی محکمہ تعلیم کے اندر کے لوگوں کیمطابق الیکٹ ایبلز سیخ پا ہیں. سب سے بڑھ کر ظلم صوبائی وزیر آبپاشی ضلع راجن پور سے ہونے کے باوجود ڈی جی کینال،
داجل کینال،قادرہ کینال ،لنک تھری تا حال سہ ماہی اور ششماہی ہیں اور بوقت ضرورت فصلوں کی سیرابی اور پینے کے پانی کی فراہمی کے لیئے روجھان سے لیکر ڈی جی خان کے غریب و مجبور،بے کس و لاچار اور بے بس کسانوں کو
چیف انجینئر انہار ، کمشنر آفس ڈی جی خان کے آفس کے باہر دھرنے اور انڈس ہائی وے بلاک اور محکمہ انہار کے علامتی جنازے نکالنے اور بار بار احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد پانی میسر آتا ہے
اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی اسمبلیوں یا سینٹ میں آواز بلند کیجاتی ہے کہ اسکا کوئی موثر اور مستقل حل یا تدارک ہوسکے.حالانکہ 2019 میں پسماندہ علاقوں کی ترقی کےلئے سینٹ کی ایک کمیٹی نے ملک کے دیگر
پسماندہ علاقوں کیطرح ضلع راجن پور کا وزٹ کیا جہاں تمام تر مسائل زیربحث لائے گئے رپورٹ سینٹ میں بھی جمع کرائی گئی
اور مختلف فورمز پر پبلش بھی کی گئی مگر بدقسمت ضلع کی محرومیاں آج بھی جوں کی توں اور کوئی پرسان حال نہیں……… کشمور،روجھان سے ڈی جی خان
رمک تک قاتل خونی سنگل انڈس ہائی وے آج بھی دو رویہ نہ ہوسکی جہاں پر ریسکیو 1122 کےا عدادوشمار کیمطابق ہر سال 1000، 1200 کے لگ بھگ قیمتی جانین لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور اس سے کہیں زیادہ تعداد مستقل طورپر اپاہج بن کر معذور ہوجاتے ہیں
جبکہ چند خاندانوں کی خوشنودی اور مال پانڑیں کے چکر میں بائی پاسز نکالنے پر تو زور رہا ہے مگر اصل معاملے کے حل کے لئے ماسوائے زبانی جمع خرچ اور کاغذی کاروائی کے کچھ بھی نہ ہوسکا
اسی طرح غربت و بے روزگاری کے خاتمے کے لیئے ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس،سنٹرز کاقیام بے حد ضروری ہے اسطرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی 70 فیصد سے زائد آبادی زراعت اور مال مویشی پالنے سے منسلک ہے
مگر اسکی بہتری اور فلاح وبہبود کے لئے کوئی بہتر اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے.کوہ ماڑی جوکہ اسلام آباد کے مری اور ڈی جی خان کے فورٹ منرو سے کسی صورت بھی کم نہیں مگر وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر اعلی تھے جنہوں نے یہاں کا دورہ کیا
مگر اعلانات کے باوجود آج بھی اجتماعی فلاح عامہ اورمفاد عامہ کے لئے کچھ بھی نہ ہوسکا ماڑی کیڈٹ کالج کاقیام آج بھی خواب ہے مڑنج ڈیم کی فزیبلیٹی رپورٹ بن چکی مگر پھر بھی کچھ نہ ہوسکا علاقہ پچادھ کوہ سلیمان کےدامن میں تیل،گیس اور معدنیات کے
ذخائر اپنی جگہ اگرسیمنٹ فیکٹری کا قیام اور ٹور ازم اور سیاحت کےفروغ کے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام کی معاشی ترقی اور خوشحالی بارے راست اقدام کیئھ جائیں تو یہ سب کچھ یقینی طور پر معاشی گیم چینجر ثابت ہوگا اور آج بھی کاہا
اور چھاچھڑ کے سیلابی قاتل ریلے تباہی مچانے کے درپے ہیں علاقہ پچادھ کے عوام آج بھی پتھر کے دور کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور کوہ سلیمان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا دائرہ کار ضلع راجن پور کے قبائلی علاقوں تک بڑھانے کا سلسلہ صرف کاغذی کاروائیوں
تک محدود ہے.پینے کا پاک صاف میٹھا پانی آج بھی مشکل اور ناممکن ہے حالانکہ پبلک ہیلتھ اینڈ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ،محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ،ضلع کونسل،تحصیل کونسلز،میونسپل کمیٹیاں،ٹائون کمیٹیاں،
یونین کونسلز اور انکے فنڈز ہر دور میں کروڑوں اربوں کے فنڈز اپنے توسط سے اور کبھی پنجاب صاف پانی کمپنی کے سروے کے نام پر کاغذی کاروائیوں اورفائلوں میں تو خرچ ہوچکے مگر
یہاں کی عوام آج بھی مضر صحت اور غیر معیاری پینے کے پانی کے سسب بے موت لقمہ اجل بن کر مقدر کا لکھا سمجھ کر خاموش ہیں حالانکہ یہاں کی ضلعی،تحصیل سطح کی بیوروکریسی اور حکومتیں اور بلدیاتی اداروں کے نمائندے اگر چاہیں
تو اپنی مدد آپ کے تحت اور اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے الحمد واٹر فلٹریشن پلانٹس ڈی جی خان کی طرزپر پورے ضلع راجن پور اسکی چاروں تحصیلوں،
تحصیل کونسلوں،میونسپل کمیٹیوں،ٹائون کمیٹیوں،ویلج اینڈ نیبر ہڈ کونسلز میں پینےکے پاک صاف میٹھے فلٹرڈ پانی کی فراہمی کو یقینی بنا سکتے ہیں مگر یہاں شاید الٹی گنگا بہتی ہے بلدیاتی اداروں کی معطلی کیا ہوئی
عمارتیں کھننڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں مصالحتی عدالتیں جوکہ غریب عوام کو گھر کی دہلیز پرسستا اور فوری انصاف فراہم کرنے موجود تھیں انکے فنڈز خرد برد اور سرکاری جگہیں ہونے کے باوجود کرائے کی عمارتوں میں ظاہرکرکے قومی خزانے کو
چونا لگایا جارہا ہےاور غریب عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹ کیساتھ ساتھ ذلیل وخوار کرنے اور من مانے ریٹ مقرر کرکے پیدائش و اموات کےسرٹیفیکیٹ ،
نکاح نامہ اور اسطرح کی ضروری دستاویزات فراہم کیجاتی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں اور بےبس عوام کہیں شکایت سے بھی رہے………
حالانکہ موجودہ حکومت وقت کوچاہیئے تھا کہ بلدیاتی ادارے بحال کرکے یا نئے بلدیاتی الیکشن کرا کے عوام کے بنیادی مسائل کےفوری اور انکی دہلیز پرحل کا تدارک کرتی مگر یہ سب کچھ نہ ہوسکا
اور ترقیاتی فنڈز ایم این ایز،ایم پی ایز کو نہ دینے کے وعدے اور دعوے بھی جھوٹ ثابت ہوئے اور صورتحال ماضی سے ابتر ہے.رابطہ سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے غریب کسانوں،کاشتکاروں اور مویشی پال حضرات کے لئے گھر کے نزدیک منڈیوں کا خواب سہل رستے صرف خواب ہی ہیں،
حالانکہ جسطرح 126 دن کے ڈی چوک اسلام آباد میں دیئے گئے دھرنے میں جو باتیں اور تقریریں کیجاتی تھی غریب عوام کاخیال تھا کہ ادارے مضبوط ہونگے
اور ہرادارے کے دفتر میں انکے حقوق و فرائض انکا دائرہ کار اور دائرہ اختیار آویزاں ہوگا کسی کی عزت نفس متاثر نہ ہوگی اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے متعلقہ ادارے آزاد وخودمختیار ہونگے
مگر تحریک انصاف کی حکومت کے چار سال مکمل ہونے کو ہیں مگرصورتحال شاید ماضی کے برے ادوار سے بھی بدتر ہے.
اور حکومت وقت صرف مختلف ایپس متعارف کرانے میں چست اور عملی اقدامات میں انتہائی سست ہے جوکہ غریب اور متوسط طبقہ کے لئے انتہائی مشکل حالات ہیں
اور ضلع راجن پور کی عوام بالخصوص برسوں سے لولی پاپ دینے والے الیکٹ ایبلز کے ہاتھوں ایک مرتبہ پھر تماشہ بنتے دکھائی دیتے ہیں
کیونکہ ان لوگوں نے نئے رنگ و روپ کیساتھ یہاں کی عوام ایک مرتبہ پھر بلند بانگ دعوئوں اور نعروں کیساتھ بے وقوف بنانے کی ٹھان لی ہے اور بظاہر عوامی مسیحا بننے کے لئے کمر کس لی ہے یہ
ایک الگ بات کہ اس مرتبہ نئی پارٹی یا نیا اتحاد کونسا ہوگا یہ فیصلہ آنیوالا وقت ہی کرے گا مگر یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ
اگر یہاں کے عوام کو اپنی ووٹ کی پرچی کی طاقت کا صحیح اورحقیقی معنوں میں اندازہ ہوگیا تو وہ دن دور نہیں کہ ضلع راجن پور کا شمار بھی ترقی یافتہ شہروں میں ہوگا ممکن ہے.
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون