وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماحولیاتی ابتری تحقیقی مقالوں سے فرار ہو کر اب ہماری چھتوں پر آن بیٹھی ہے۔ چند برس پہلے تک ہم یہ تو سنتے تھے کہ آج درجہِ حرارت چالیس یا پینتیس ہے۔مگر اب اتنا بتانا کافی نہیں۔محکمہ موسمیات نے ایک نئی درفنتنی ایجاد کر لی ہے۔یعنی درجہِ حرارت تو چالیس ہی ہے مگر آپ کو محسوس پینتالیس ہو گا ( فیل لائک فورٹی فائیو )۔گویا تپش بھی دوغلی ہو گئی ہے۔
پر ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔کس نے سوچا تھا کہ کینیڈا میں وینکوور کا درجہ حرارت اور جیکب آباد کا درجہ حرارت ایک ہی دن میں پینتالیس تک پہنچ جائے گا اور سرحد پار وینکوور کے بالمقابل امریکی شہر سیٹل میں بھی آگ برس رہی ہوگی یا ایسا سیلاب آئے گا کہ نیویارک کا سب وے سسٹم ڈوب جائے گا یا جرمنی کے شمالی شہروں میں غیر معمولی بارش کا ریلہ گاڑیاں بہا لے جائے گا۔ ریاض، طائف اور دبئی میں پانی کھڑا ہو جائے گا۔ پہلے یہ کام ہالی وڈ میں ہوتا تھا۔ اب کچھ بھی فلمی نہیں رہا۔
کینیڈا کی قطبِ شمالی سے قربت ہے۔پھر بھی وہاں طویل عرصے سے قیام پذیر کئی دوست کہتے ہیں کہ دو ڈھائی عشروں پہلے کینیڈا میں سرد موسم کا دورانیہ کم و بیش آٹھ ماہ پر پھیلا رہتا تھا۔ اب کینیڈا میں سرد موسم چار سے چھ ماہ کے دورانیے میں آ گیا ہے اور سال بہ سال سکڑتا ہی جا رہا ہے۔
آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ دو ہزار انیس اور بیس کے دو برس میں درجہِ حرارت کے بیاسی فیصد پچھلے تاریخی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔چند برس قبل درجہِ حرارت پچاس سے اوپر جاتا تو یہ خبر بن جاتی تھی۔اب باون چون تک جائے تو خبر بنتی ہے ۔دو ہزار پندرہ میں کراچی میں آنے والی گرمی کی لہر نے چالیس سالہ ریکارڈ توڑا اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار لوگوں کو بہا لے گئی۔اس کے بعد بھی اس طرح کی گرم لہر آئی مگر لوگ بھی جانی نقصان کے تعلق سے قدرے محتاط ہو گئے۔
البتہ انسانی جسم کی بھی کوئی نہ کوئی حدِ برداشت ہوتی ہی ہو گی۔سال دو ہزار تیس میں جب کرہِ ارض کا اوسط درجہِ حرارت ایک پوائنٹ اور بڑھ جائے گا تو انسانی جسم اسے بھی برداشت کر پائے گا ؟ انسانی جسم کا ساختیاتی نمونہ کچھ ایسا ہے کہ چالیس ڈگری سنٹی گریڈ خشک گرمی بھی اس کا فطری تھرموسسٹم جھیل جاتا ہے۔ لیکن اگر چالیس ڈگری پر خشک کے بجائے نم دار گرمی ہو تو پسینے کی غیر معمولی مقدار تھرمو سسٹم کے قابو سے بھی باہر ہو کر انسان کو بے تحاشا نڈھال کر دیتی ہے اور وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ حتی کہ مر بھی سکتا ہے۔
تاریخی طور پر جنوبی ایشیا کی روایتی معاشی پہچان زراعت و مویشی بانی ہے۔’’ہندوستان سونے کی چڑیا ہے‘‘۔اس تعارف کے پیچھے کسا نیت و زرعی حرفت کھڑی ہے۔جب سے موسم کا دماغ الٹنے لگا ہے زراعت کی کشتی بھی ڈولنے لگی ہے۔بے اعتدالیوں کی یہی رفتار رہی تو ہچکولے جوگا پانی بھی کم ہوتے ہوتے کیچڑ بن جائے گا۔
پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار اچھے حالات میں بھی عالمی اوسط سے کم ہے۔اس پر موسم کے وار۔دو ہزار اٹھارہ، انیس میں گندم کی فصل پیداواری ہدف سے پندرہ لاکھ ٹن کم رہی اور گزشتہ برس کپاس کی فصل پر برائی آگئی۔ امسال حالات قدرے غنیمت ہیں۔
بھارت کو بھی باؤلے مون سون کا چیلنج درپیش ہے۔ قبل از وقت برس جائے تو گندم برباد کردیتا ہے۔ دیر سے آئے تو گندم کے بعد والی فصل کو لٹال دیتا ہے۔ پاکستان میں چالیس فیصد اور بھارت میں پچاس فیصد روزگاربالواسطہ وبلا واسطہ زراعت سے جڑا ہوا ہے۔ سوچئے زراعت الٹ گئی تو کس کس کی کھٹیا کھڑی نہ ہو گی۔
پاکستان میں جب بھی خشک سالی کی بات ہوتی ہے تو بلوچستان اور تھر ہی ذہن میں آتا ہے۔مگر اب یہ تاثر بھی فرسودہ ہو گیا۔اس وقت ہر دوسرے یا تیسرے برس نصف سندھ ، نصف خیبر پختون خوا ، جنوبی پنجاب کی سلیمانی پٹی اور پورا بلوچستان خشک سالی کے تھپڑ کھاتا ہے اور یہی آنے والے برسوں کا نیا معمول بتایا جا رہا ہے۔پھر بھی جو تھوڑا بہت دریائی یا سیلابی پانی میسر ہے اس کی قلیل مقدار جمع کرنے کا انتظام قومی ترجیحات میں بہت نیچے ہے۔
مغربی اور وسطی بھارتی ریاستیں تو خیر ڈھائی عشرے سے خشک سالی میں ہیں۔پچھلے پچیس برس میں زمین جوت کے قرض اگانے والے تین لاکھ کسان خود کشی کرچکے ہیں۔مگر یہ خبر چینلوں کے نیوز روم تک پہنچے سے بہت پہلے ہی راستے کی کسی پگڈنڈی پر جان دے دیتی ہے۔
ویسے سارا الزام قدرت پے ڈال دینا بھی ٹھیک نہیں۔مثلاً اسموگ اوپر والے نے نہیں ہم نے ایجاد کیا ہے۔کئی برس سے ہر موسمِ سرما میں بھارتی پنجاب کے کھیت اور کسی حد تک پاکستانی پنجاب کا وسطی علاقہ ایک بڑی سی زرعی چتا میں بدل جاتا ہے اور پھر دھند اور دھواں اسموگ بن کر کروڑوں انسانوں کے گلے سے گذرتا ہوا پھیپڑوں میں جان لیوا ذرات چھوڑتا ہے۔ چنانچہ جسم مختلف بیماریوں کی شکل میں جس طرح بغاوت کرتا ہے، اس کے مضر اثرات سے ہم اب بھی پوری طرح واقف نہیں۔
ہمیں اس لیے زیادہ فکر ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان ماحولیاتی ابتری کی مار کھانے والے دس چوٹی کے ممالک میں آٹھویں پائیدان پر کھڑا ہے۔ جب کہ بھارت کا شمار بیس چوٹی کے ممالک کی فہرست میں ہے۔دنیا میں ہر انسان کو ایک ہزار مربع میٹر سالانہ پانی تو ملنا ہی چاہیے۔ پاکستان میں صرف تین برس بعد ہم آبی غربت کے اس کشیدہ خط سے بھی نیچے جانے والے ہیں۔جب کہ بھارت میں انیس سو اکیاون میں ایک شخص کے حصے میں اوسطاً جتنا پانی آتا تھا۔آج اس کا محض چوتھائی دستیاب ہے۔
بے شک ہم سے اوپر سے نیچے تک باتیں بگھروا لو۔ کرنا کرانا کچھ نہیں۔جو کرے گا اب ماحولیات کا زخمی شیر ہی کرے گا۔( قصہ تمام )۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر