نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اونچی ایڑی ظلم، شوق یا مجبوری؟||حسنین جمال

تاریخی طور پہ دیکھیں تو ایسے جوتے پانچ چھ سو برس پہلے تک معلوم تاریخ میں نظر آتے ہیں لیکن اس وقت انہیں مرد بھی پہنتے تھے۔ وہ مرد جو ہائی کلاس سٹیٹس والے ہوتے تھے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی آپ پانچ انچ اونچی ایڑی والی جوتی پہن کر چلے ہیں؟ یہ سوال مردوں سے ہے۔
لگ پتہ جائے گا، کوشش کر کے دیکھ لیں۔ یہ باقاعدہ ایک آرٹ ہے۔ اگر ظلم ہے تو سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ڈیمانڈ ہے کس کی؟ اونچی ایڑی خواتین کو پسند ہے یا مردوں کو؟
تاریخی طور پہ دیکھیں تو ایسے جوتے پانچ چھ سو برس پہلے تک معلوم تاریخ میں نظر آتے ہیں لیکن اس وقت انہیں مرد بھی پہنتے تھے۔ وہ مرد جو ہائی کلاس سٹیٹس والے ہوتے تھے۔
ایڑی اب ہر وقت فیشن میں ہے۔ یہ ایک نارمل بات بن چکی ہے کہ فنکشن میں تیار ہوکے اگر کوئی عورت آئے گی تو اس نے ہیل پہنی ہو گی۔ فلم میں ’کامیاب بزنس ویمن‘ ایڑی پہن کر ٹک ٹکاتی ہوئی دفتر میں گھوم رہی ہو گی، جہاز میں ایئر ہوسٹس نے پہنی ہو گی اور ماڈل بے چاری تو ویسے ہی پہننے پہ مجبور ہے۔
عورتوں کے نصیب میں ایڑی مستقل اس وقت بندھی جب یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ایسے جوتوں میں خواتین کی چال زیادہ دلکش لگتی ہے۔ سائنسی طور پر جمع تفریق کی گئی اور کہا گیا کہ کمر کا گھماؤ اور کچھ باقی معاملات کا اتار چڑھاؤ مردوں کو پسند آتا ہے۔ ٹھیک ہو گیا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نوکری میں اونچی ایڑی پہننا کمرشل ضرورت ہے لیکن پرسنل چوائس سے پہنی جائے تو کیا عورت خود کو مرد کے لیے پسندیدہ ترین بنانا چاہ رہی ہے؟ اور نوکری والی ’کمرشل ضرورت‘ بھی مرد کے معاشرتی زور نے ہی پیدا کی ہے؟
دیکھیں اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مرد کے آئیڈیل تصور میں ڈھلنے کے لیے کئی سو برس سے عورت اپنے جسم اور ذہن سے جنگ کر رہی ہے(یا اُس سے یہ جنگ کروائی جا رہی ہے)۔ کبھی پرانے چین میں خوبصورت لگنے کے لیے اسے بچپن سے ایسے جوتے پہنائے گئے جو اس کے پاؤں چھوٹے سموسوں کی شکل جیسے بنا دیتے تھے، کبھی نئے یورپ میں اسے کہا گیا کہ موٹے ہونٹ خوبصورت لگتے ہیں اور بوٹاکس کے انجیکشن دھڑا دھڑ بیچے گئے، کبھی گورا رنگ بیچا گیا، کبھی دلکش آنکھوں کے لیے ہزاروں کا میک اپ فروخت ہوا اور مقابلے میں آج تک مرد خود میں کیا کاسمیٹک تبدیلی لائے؟ لباس ۔۔۔ صرف لباس! جس میں نہ جسم کی قدرتی شکل سے لڑائی ہے اور نہ ذہن کو سمجھ نہ آنے والی کوئی پیچیدگی۔
ایک معاملہ اور بھی ہے، خود عورت کیا چاہتی ہے؟ (چند مستثنیات کے ساتھ) قد چھوٹا ہے تو وہ ہائیٹ کے چکر میں ایڑی پہنے گی، عمر بڑھ رہی ہے تو پراعتماد نظر آنے کے لیے پہنے گی اور اگر ساڑھی یا لہنگے جیسا کوئی لباس پہن لیا تو ’فال‘ اچھی بن جانے کے لالچ میں اونچا جوتا پہنا جائے گا۔ اس کے پاس بطور آپشن یہ طریقہ موجود ہے لیکن یہ سہولت اُس وقت اور بعد میں بھی کتنی زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے، کیا یہ آئیڈیا اسے نہیں ہے؟
یہ ایک نارمل بات کیوں نہیں ہو سکتی کہ فنکشن میں تیار ہو کے اگر کوئی عورت آئے تو اس نے جوگرز پہنے ہوں یا کوئی انتہائی آرام دہ مکمل گرپ والا جوتا جو اسے تھکائے نہ، جو اس کی ٹانگوں کو اکڑائے نہ، جو کمر کا بیڑا غرق نہ کرے، جو ہپ بون کو تباہ نہ کرے، ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ ساڑھی کے نیچے جوگرز کیوں نہیں پہنچے جا سکتے؟ اگر وہ کسی دفتر میں ہے تو عام کپڑوں کے ساتھ بجائے سخت کولہاپوری یا بالکل فلیٹ جوتوں کے، ڈھنگ کا نرم سول والا جوتا موٹی جرابوں کے ساتھ کیوں نہیں پہنا جا سکتا؟ اگر وہ جہاز پر کیبن کریو میں ہے تو وہ مردوں جیسے بوٹ کیوں نہیں پہن سکتی؟
یہ سب سوچنے کی وجہیں تین تھیں۔ پہلی یہ کہ میرا بھائی فلائٹ سٹیورڈ (فضائی میزبان) کی نوکری کرتا تھا اور دوسری یہ کہ چھوٹے قد کا احساس کمتری مجھے شروع سے ہے اور تیسری یہ کہ یوکرائن کی ایک ایئرہوسٹس نے اپنی کپمنی کے سامنے ہیل والے جوتے نہ پہننے کا معاملہ اٹھایا۔
ایئر لائن والوں نے عملے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ساری فضائی میزبان خواتین اپنی اونچی ایڑی والی جوتوں اور غیر آرام دہ سکرٹس سے تنگ آ چکی ہیں۔
اب ان تین واقعات کو جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ میں جب نیا نیا بڑا ہوا تو اپنے قد سے بہت غیر مطمئن تھا۔ سب یار دوست مجھ سے لمبے تھے، ایک آدھا ہی برابر ہو گا۔ اپنے پانچ فٹ سات انچ قد کو مزید بڑھانے کے لیے میں لانگ بوٹس پہنا کرتا تھا۔
ڈیڑھ دو انچ کی ایڑی باہر ہوتی تھی اور ایک ڈیڑھ انچ کا نرم پتاوا اندر، کُل ملا کے ہائٹ میں کم از کم تین انچ کا فرق اس سے پڑ جایا کرتا تھا۔ وہ جوتے ملتان کینٹ میں شاہد بوٹ ہاؤس والے بہت معمولی سی رقم کے عوض بناتے تھے۔ وہ ٹخنوں سے کافی اوپر تک آتے تھے اور زپ سے دونوں سائیڈیں پاؤں کو مکمل پیک کر لیتیں۔ آرام دہ بھی تھے، چلتے بھی بہت تھے لیکن ڈیڑھ دو سال بعد کچھ مسئلے ہوئے۔ کمر سے لے کر مکمل ٹانگوں کا درد اور گھٹنوں سے نیچے جلد کی الرجی۔ نتیجہ یہی نکلا کہ جوتے گڑبڑ ہیں، چھوڑ دیے، دو تین سال بعد چیزیں ٹھیک ہو گئیں لیکن اونچے جوتے پہن کر چلنا الگ سے ایک مستقل تکلیف ہوتی تھی جو مجھے اب تک یاد ہے!
چھوٹے بھائی کا یہ تھا کہ جب بھی وہ کسی لمبی فلائٹ سے آتا، شدید تھکا ہوا ہوتا، پھر اس کی ایڑی میں مستقل درد رہنے لگ گیا۔ حالانکہ مرد سٹاف کے جوتے نارمل وِنگ ٹِپ بوٹ ہوتے ہیں لیکن اُس کے پیر ان میں بھی سوج جاتے تھے۔ جوان نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے انتہائی مہنگے نرم سول والے سیاہ جوتے خریدے تب جا کے تھوڑا آرام آیا لیکن وہ عورت کیا کرے جس کی نوکری بلکہ زندگی کا حصہ ہائی ہیل کو بنا دیا گیا ہے؟
وہ جس کمپنی کی میں نے بات بتائی، اس نے تو خواتین ملازموں کی مجبوری سمجھ لی۔ ٹراؤزر اور آرام دہ جوتے اب ان خواتین ایئرہوسٹسوں کی یونیفارم کا حصہ ہیں، لیکن ہم لوگ خود کب سمجھیں گے؟
شوق سے کوئی خاتون پہننا چاہتی ہیں سو بسم اللہ، اس پر تو نہ یہ پوری تحریر لکھی گئی نہ کسی کو اعتراض ہے۔
اعتراض ہے تو اس انڈسٹری پر جس نے عورت کو برابر کھڑا تو کر لیا مگر چھ انچ کی ہیل پہنا کے؟ مسام بند کر دینے والا میک اپ ایک اہم ضرورت بنا کے؟ سخت نقصان دہ نائیلون کے اندرونی ملبوسات ایک انتہائی نارمل چیز بنا کے؟ چھتیس چیزیں اور شامل کر سکتے ہیں لیکن صرف اتنا بتائیں کہ مرد نے پچھلے دو ہزار سالوں میں آج تک ایسی کون سی چیز قبول کی ہے؟
تھوڑا مزید پرسنل ہو جائیں تو میری شکل میں اور چالیس ہزار سال پرانے مرد کی شکل میں کیا فرق ہے؟
سوچیں، اپنی زندگیاں آسان بنائیں۔

یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author