عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے وہ تاریخ میں نیا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ امریکہ بہادر کی جانب سے ہمارے بارے میں اس قدر سرد مہری کا رویہ اختیار کیا جائے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ امریکی ٹی وی پر ہمارے وزیر اعظم کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا جائے کہ اس کی حیثیت تو اسلام آباد کے میئر جتنی نہیں۔ ایسا دہائیوں کے بعد ہوا کہ افغانستان میں ہماری ضرورت ہی باقی نہ رہی ہو۔ ایسا پہلی بار ہوا امریکی صدر نے پاکستان کے وزیر اعظم کو کال ہی نہ کی ہو۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے طالبان کے لیڈر اس حکومت کو کٹھ پتلی کہہ رہے ہوں۔ ایسا پہلی بار ہوا دنیا ہم سے سفارتی روابط منقطع کرنے کو تلی بیٹھی ہو۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں اتنے عرصے سے براجمان ہوں اور بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ ہر لمحہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہو۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ امریکی ایوانوں میں ہم سے افغان جہاد کی رسیدیں طلب کی جا رہی ہوں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اقوام متحدہ میں افغانستان اور کشمیر کی صورت حال کے متعلق اجلاس ہوا ہو اور اس میں ہمیں شرکت کی دعوت ہی نہ دی گئی ہو۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ کے سوا ایران، ترکی، اور چین بھی ہم سے خفا ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ہونے والی معجزانہ اندرونی تبدیلیوں کا بہت تعلق ہمارے بیرونی دوستوں اور دشمنوں کے رویے سے ہوتا ہے۔ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے اور کیوں سوچ رہی یہ ہمیشہ اس سے زیادہ اہم ہوتا ہے کہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کیا سوچ رہے ہیں، کیا چاہ رہے ہیں۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو اس ملک میں کبھی مارشل لاء نہ لگتا۔ کبھی آئین کی پامالی نہ ہوتی۔ اس دفعہ معاملہ کچھ الٹ سا گیا ہے۔ مارشل لاء لگانے کے شائق افراد اب زیر لب وہ مصرع دوہراتے نظر آتے ہیں کہ ”جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے“ ۔
”اچھا خفیہ منصوبہ“ اس وقت تک اچھا ہوتا ہے جب تک خفیہ رہے۔ جب بات طشت از بام ہو جائے تو مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ جب بچہ بچہ اس خفیہ منصوبے کی نہ صرف حقیقت جان چکا ہو بلکہ اس پر اظہار خیال کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خفیہ منصوبے کی بساط لپیٹ لینے میں عافیت ہوتی ہے۔ جس بات کو آپ چھپا رہے ہوں وہ بات سوشل میڈیا میں ہر شخص کی زبان پر ہو تو ایسی بات کو ترک کر دینا ہی سمجھداری ہوتا ہے۔
ملک میں حکومت اپوزیشن کو یہ الزام دیتی ہے کہ ملک کے پہلے ہینڈ سم وزیر اعظم کو کٹھ پتلی کہہ کر اپوزیشن اپنے نادیدہ خوابوں کا انتقام لے رہی ہے۔ لیکن جب یہ بات انٹرنیشنل فورم پر ہونے لگے۔ بین الاقوامی لیڈر اس پر بات کرنے لگیں۔ انٹرنیشل میڈیا اس پر اظہار خیال کرنے لگ جائے تو بات ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ خفیہ منصوبہ بے نقاب ہو چکا ہوتا ہے۔ ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہوتی ہے۔
ملک کے اندرونی حالات سے اس بات کی گواہی ملتی ہے کہ اب بین الاقوامی دنیا کا شور ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ اب تبدیلی سرکار سے جان چھڑا لینا ہے عافیت ہے۔ اب معاملہ کسی اندرونی سیاسی تبدیلی کا نہیں رہا اب بات پاکستان کی بقا ہو رہی ہے۔ اب مزید تجربات ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ منصوبہ کم از کم دس سال کے لیے بنایا گیا تھا۔ عمران خان کو سامنے رکھ کر خود حکومت کرنے کا پلان بہت سوچ کر بنایا گیا تھا۔ منصوبے کی ابتداء میں ہی کامیابی حاصل ہوئی۔ ایک منتخب وزیراعظم کو ایسے کیس میں نکال باہر کر دیا گیا کہ جس کیس میں یہ توہین آمیز فیصلہ دینے والے آج منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ایک منتخب حکومت کا دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں تختہ الٹ دیا گیا اور اس کو شفاف الیکشن کا نام دیا گیا۔
سوال کرنے، اسمبلیوں میں تقاریر کرنے والے، انصاف پر مبنی فیصلے سنانے والے سب پس زنداں ڈال دیے گئے۔ کوئی مخالف نہیں بچا۔ کوئی سوال کرنے والا عتاب سے محروم نہیں رہا۔ المیہ یہ ہے کہ جب کوئی مخالف نہ بچے تو پھر اندر سے مخالفت کا آغاز ہوتا ہے۔ ایسی تعمیر میں ہی تخریب مضمر ہوتی ہے۔ سب کچھ کنٹرول کرنے کے باوجود حالات کنٹرول سے باہر ہونے لگے۔ خفیہ منصوبے کے نام پر ٹھٹے لگنے لگے۔ جگ ہنسائی ہونی لگی۔ ملک کا تماشا بننے لگا۔ اب جو ہمیں روشنی کی رمق نظر آ رہی ہے وہ اس منصوبے کی ناکامی کی ودیعت کردہ ہے۔ اب جو حالات بدل رہے ہیں اس کا تعلق کسی اندورنی خلفشار سے نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی ناراضی کے اثرات ہیں۔
نواز شریف کے بیانیے نے بہر حال انٹرنیشنل کمیونٹی کو متاثر کیا ہے۔ دنیا کے حالات بھی بدل رہے ہیں۔ اب خود ساختہ امیر المومنین جنرل ضیاء الحق کا دور نہیں رہا، اب جنرل مشرف کا سات نکاتی ایجنڈا بھی ڈھیر ہو چکا ہے۔ اب جنرل فیض حمید بھی پشاور جا چکے ہیں۔ اب انفارمیشن کا دور ہے۔ لمحہ بھر میں خبر دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا منہ زور گھوڑا بن چکا ہے۔ دنیا کے وہ سارے ممالک جہاں جمہوریت نظام ہے وہاں کے لوگ پاکستان پر تاسف کی نگاہ ڈال رہے ہیں۔
اس موقعے پر سیاسی جماعتوں کو احتیاط کرنا ہو گی۔ اس لمحے کی لغزش انہیں پھر آمریت کے پاتال کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ بیانیے میں ذرا سی کمزوری ایک ایسے کنویں میں دھکیل سکتی ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ کسی کے پاس نہ ہو۔ اس موقعے پر سیاسی جماعتوں کو عوام کی طاقت پر بھروسا کرنا ہو گا۔ یہ درست ہے اس وقت بین الاقوامی حالات بھی جمہوریت کے لیے موافق ہیں، موجودہ حکومت کی گورنس بھی صفر ہے۔ عوام میں بھی غم و غصہ ہے لیکن پھر بھی جمہوریت کو تاراج کرنے والے والوں سے جمہوریت کی امید نہیں لگا لینی چاہیے۔
اس ملک کے بائیس کروڑ لوگوں اور سیاسی جماعتوں کا مطالبہ بہت سادہ ہے کہ انہیں شفاف اور منصفانہ الیکشن درکار ہیں۔ ابھی تک اسی جانب پیش قدمی ہو رہی ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ آئندہ ہونے والے الیکشن میں کوئی آر ٹی ایس نہیں بٹھائے گا، کوئی وفاداریاں تبدیل نہیں کروائے گا، کوئی عدالتوں سے من پسند فیصلے نہیں لے گا۔ میدان کھلا ہو گا۔ سب کو موقع ملے گا۔ ووٹ کی حرمت ہو گی۔ اگر ایسا ہو گیا تو یقین مانیے نون لیگ کو اتنی نشستیں ملیں گی کہ جس کا تصور انہوں نے خود نہیں کیا ہو گا اور تحریک انصاف اپنی انتقامی سیاست سمیت زمیں بوس ہو جائے گی۔ عمران خان چونکہ ایک کرکٹر ہیں تو کرکٹ کی زبان میں بات کرتے ہیں کہ خفیہ سروے بتاتے ہیں کہ اگر ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات ہوئے تو تحریک انصاف کی نشستوں کا سکور ڈبل فگر میں بھی داخل نہیں ہو سکے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر