نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنڈورا پیپرز کے درویش پاکستانی||حیدر جاوید سید

ایک بار تو انہوں نے موجودہ صدر عارف علوی اور جماعت اسلامی والے فرید پراچہ کو ایک ہی "جماعت" کا ترجمان قرار دیتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ایک جماعت کے دو ترجمان نہیں بلانے چاہئیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقیر راحموں کا کیا خیال ہے کہ پنڈورا پیپرز پر شور شرابہ بلاضرورت ہے کیونکہ جتنا مرضی شور کرلیں ہوگا کچھ نہیں۔ وجہ ان کے بقول یہ ہے کہ نوازشریف ’’پانامہ‘‘ کی زد میں آئے، اقامے میں سزا ہوئی۔ بالفرض مان بھی لیا جائے کہ انہیں کرپشن پر ہی سزا ہوئی تھی تو پانامہ پیپرز کے باقی 4سو سے کچھ اوپر والے دروپیش پاکستانی کہاں ہیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟
سوال تو اپنی جگہ درست ہے لیکن یہاں سوالوں کے جواب کوئی نہیں دیتا لشکر پسند ریاست کے اپنے ہی طورطریقہ ہوتے ہیں۔
ویسے بات تو سچ ہے کہ وہ چار سو سے کچھ اوپر پاکستانی کدھر ہیں جن کا نام پانامہ پیپرز میں تھا؟ مان لیجئے کہ مسلم لیگ (ن) نے ان کے خلاف اس لئے کارروائی نہیں کی کہ وہ اپنے لیڈر کو بچانے کے لئے الجھی رہی لیکن تین سال سے تو جناب عمران خان کا راج ہے اور یہ راج بظاہر کرپشن کے خاتمے کے لئے ’’لایا‘‘ گیا تھا۔ اب بظاہر اور لایا گیا کے قصے کی تفسیر کے لئے ہمیں نہیں فقیر راحموں کو زحمت دیجئے گا۔
پنڈورا پیپرز میں چند سابق پاکستانی جرنیلوں کے اسمائے گرامی بھی شامل ہیں ان میں ا یک جنرل و صدر پرویز مشرف کے دست راست تھے سید سفاعت اللہ شاہ اور دوسرے نیب کے چیئرمین اور پنجاب کے گورنر رہ چکے خالد مقبول ہیں۔ تین چار نام اور بھی ہیں۔
کرہء ارض کی کرپٹ ترین جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا صرف ایک بندہ شرجیل میمن شامل ہے۔ فواد چودھری نے انہیں زرداری کا چہرہ کہا ہے۔
فواد چودھری وزیر اطلاعات ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں وہ جب بھی اس طرح کا بیان دیتے ہیں ہمیں وہ دن یاد آجاتے ہیں جب وہ پیپلزپارٹی کا اسی جذبہ سے دفاع کیا کرتے تھے۔
ایک بار تو انہوں نے موجودہ صدر عارف علوی اور جماعت اسلامی والے فرید پراچہ کو ایک ہی "جماعت” کا ترجمان قرار دیتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ایک جماعت کے دو ترجمان نہیں بلانے چاہئیں۔
ان سطور کے لکھے جانے کے دوران فقیر راحموں نے سرگوشی کی شاہ جی، برائلر گوشت 350 روپے اور سبز مرچ 130سے 140روپے کلو ہے، بھنڈی 100روپے اور شملہ مرچ 195روپے کلو بتارہے ہیں۔
اب آپ ہی انصاف کیجئے ساری دنیا کے لکھنے پڑھنے والے صحافی اور دانشور تو پنڈورا پیپرز والے سکینڈل پر گھوڑے دوڑارہے ہیں اور یہاں فقیر راحموں سرگوشیوں میں سبزیوں اور برائلر گوشت کی قیمت بتارہا ہے۔
بھئی جتنا رزق اللہ سائیں نے لکھا وہ ملنا ہی ہے۔
اب دیکھیں نہ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں ایک روپیہ 65پیسے اضافہ کردیا گیا ہے مجھے تو یہ بھی عالمی سازش لگتی ہے جو نوازشریف اور زرداری کی کرپشن اور خصوصاً پنڈورا پیپرز سے توجہ ہٹانے کے لئے رچائی گئی ہے۔
یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ خبرملی کہ وزیراعظم نے پنڈورا پیپرز میں شامل مبلغ 7سو پاکستانیوں کے بارے میں تحقیقات کے لئے خصوصی سیل قائم کردیا ہے۔ ایک خبر یہ بھی آئی کہ نیب کے وائس چیئرمین حسین اصغر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔
یہ بھی بس خبریں ہی ہیں کہ ان کا آپس میں جنم جنم کا کوئی رشتہ نہیں آپ بھی پریشان نہ ہوں۔ بجلی کی قیمت میں انشاء اللہ اگلے ماہ نومبر میں مزید ڈیڑھ سے دو روپے فی یونٹ اضافہ ہوگا بس آپ نے ہمیشہ کی طرح ہمت سے کام لینا ہے اور گھبرانا بالکل نہیں۔ گھابریں وہ سات سو پاکستانی جن کا نام پنڈورا پیپرز میں ہے۔
سنا ہے اس بار کچھ میڈیا ہاوسز کے مالکان کی بھی واٹ لگ گئی ان کے نام بھی شامل ہیں چلو کوئی بات نہیں ان کا کس نے کیا بگاڑلینا ہے۔
پچھلے 24گھنٹوں (یہ سطور لکھتے وقت) سے سرکاری توپوں کا رخ اپوزیشن کی طرف ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل کو تو قرار ہی نہیں ان کا بس چلے تو اپنی پسند کے اپوزیشن رہنماوں کو مینار پاکستان پر پھانسی دینے کا اہتمام کردیں۔
علیم خان ، خسرو بختیار، شوکت ترین، فیصل واوڈا کے نام بھی ہیں پنڈورا پیپرز میں مگر زور علی ڈار پر ہے وہ نوازشریف کا داماد جو ہے۔
سرکاری ٹی وی ایک جھوٹی خبر کی تردید کرچکا لیکن حکومتی لشکر 24گھنٹوں سے ہاوس آف شریفین اور ہائوس آف زرداری کی کرپشن کے قصے مرچ مصالحہ لگاکر پیش کرنے میں مصروف ہے۔
ویسے بطور پاکستانی ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ ہمارے 7سو افراد کے نام اس مالیاتی سکینڈل میں شامل ہیں جس میں ٹونی بلیئر بھی ہیں، اردن کے شاہ عبداللہ الہاشمی، کینیا، یوکرائن اور ایکواڈور کے صدور بھی شامل ہیں۔ یہ بڑے اعزاز کی بات ہے ایسے رتبے اور مقام مقدر والوں کو ملتے ہیں اس لئے ’’پاس کر یا برداشت کر‘‘ والی بات ہی ہے۔
ہمارے وزیراعظم کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے اس لئے وہ کسی وزیر کی کمپنی نکلنے کے کسی بھی طور ذمہ دار قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ اسی لئے تو وزیراعظم نے تحقیقاتی سیل کا اعلان کردیا اب انشاء اللہ ادویات، گندم، آٹے، چینی کے سکینڈلز کے ذمہ داروں کی طرح پنڈورا پیپرز والوں کو بھی انجام کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
وزیراعظم رعایت ویات کے حق میں کبھی نہیں رہے انہوں نے ساری عمر کرپشن کے خلاف جدوجہد ہی کی ہے ،
پنڈورا پیپرز مالیاتی سکینڈل میں صرف سات سو پاکستانیوں کا نام شامل ہے یہ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ کم از کم ہزارہ بارہ سو تو ہوتے ہم نے ان سات سو کا کیا کرلینا ہے جو ہزارہ بارہ سو کا کرتے۔
پانامہ والے معاملے میں بھی صرف ریاست سے پھڈا مول لینے والوں کو رگیدا گیا باقی ہر طرف خاموشی رہی۔
سچن ٹنڈولکر (بھارتی کرکٹر) پر البتہ حیرانی ہوئی یہ اس نے کیا کیا اس کے دیس کے لوگ اسے دیوتائوں کی طرح پوجتے تھے۔ عارف نقوی وہی ابراج گروپ والے ان کی طرف تو کوئی میلی آنکھ سے د یکھے بھی نہ،
اسی طرح سابق ایئرچیف مارشل عباس خٹک کی شان میں گستاخی بھی نہ کی جائے وہ اپنے بچوں کی کمپنیوں کے ہرگز ہرگز ذمہ دار نہیں ہیں جیسے علی قلی خان اپنی ہمشیرہ، افضل مظفر بیٹوں، تنویر طاہر اپنی اہلیہ اور خالد مقبول اپنے داماد کے معاملات کے ذمہ دار نہیں۔
یہ چاروں صاحبان ملک و قوم کے محافظ محکمے کے سابقین ہیں ان کا آخری عہدہ خالص حب الوطنی کے جذبہ کے تحت نہیں لکھا۔ ہمارے سیاستدان اگر کرپشن نہ کرتے تو کسی اور کو بھی جرات نہ ہوتی۔
ارے رکئے وہ چودھری مونس الٰہی کا اسم گرامی تو رہ ہی گیا۔ یہ نوجوان ابھی کچھ عرصہ قبل وفاقی وزیر بنا ہے اس کا نام پنڈورا پیپرز میں دشمنوں کی کارستانی لگتی ہے۔
چودھری آف گجرات کبھی گھاٹے کا سودا اور چوری و کرپشن والے کام نہیں کرتے بس علی ڈار کی کمپنی کا ذمہ دار نوازشریف ہے اور شرجیل میمن کی کمپنی کا آصف زرداری۔ جس نے نہیں ماننا نہ مانے اب ہم اپنے وفاقی وزیر اطلاعات کو تو غلط نہیں کہہ سکتے۔
علیم خان کا زیادہ ذکر اس لئے نہیں کیا کہ وہ اب ایک بار پھر ایک عدد میڈیا ہاوس کےمالک بن گئے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے لاہور سے اخبار نکالنے کا اہتمام کیا تھا اس وقت کی جدید ترین طباعتی مشینری بھی خریدی تھی پھر شہ مات ہوگئی کیونکہ ایک بڑے گروپ نے کرائے کے ایجنٹ ان کے اخبار میں بھیج دیئے تھے پھر ایک دن اخبار اور مشینری اسی گروپ نے خرید لئے۔
خاصی دلچسپ کہانی ہے کسی دن تفصیل کے ساتھ آپ کو سناوں گا۔
فی الوقت یہ کہ بے فکر رہیں وزیراعظم نے نوٹس لے لیا ہے اب پنڈورا پیپرز والے پاکستانیوں کی خیر نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author