فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیف اللہ کا لقب پانے والے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کا جب وقت وصال آگیا تو انہوں نے اپنا مشہور زمانہ قول کہا تھا کہ دنیا کے بزدلوں کو بتا دو کہ اگر جنگ سے موت واقع ہوتی تو خالد بن ولید کو موت کبھی اپنے بستر پر نصیب نہ ہوتی۔
کہتے ہیں وقت بہت ظالم ہوتا ہے آج جو زمین پر طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور خدائی کے دعوے کرتے ہیں کل وہی وقت کی دھول میں مٹی ہوجاتے ہیں ۔ ابھی ابھی چشم فلک نے ایک سپر پاور کے غرور کو سنگلاخ چٹانوں میں ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا ہے ۔ بڑے بڑے فرعون موسی کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔ ہر دور میں ہوتے ہیں سر پھرے جو تخت و تاج ٹھکرا کر نروان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ، جو اناالحق کا نعرہ لگاکر منصور کی طرح پھانسی چڑھ جاتے ہیں جو سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پی لیتے ہیں۔ جو حسین کی طرح اپنے لیے صبر کا راستہ چن لیتے ہیں پھر اس راستے پر جو بھی مشکل آجائے ان کا حوصلہ نہیں توڑ سکتی چاہے اس راستے پر پھر پیروں میں آبلے پڑجائیں یا پھر اپنے ساتھ چھوڑدیں اور یہ سرکشی سر پھرا پن یہ جنون تو اس کی عطا ہے جس کے لیے وہ اپنے کچھ بندوں کو ہی منتخب کرلیتا ہے جن کی زندگی تو زندگی موت پر بھی زمانہ رشک کرتا ہے ۔ ایسا ہی ایک جنازہ رات کی تاریکی میں گھر والوں سے زبردستی چھین کر سری نگر کی حیدرپورہ جامع مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آخر کس کا تھا یہ جسد خاکی آخر ایسا کیا خوف تھا بھارتی فوج کو جو اس جنازے کو چھین کر لے گئی پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے تمام مواصلاتی رابطے پھر محدود کردیے ہیں
جس کے جنازے کا اتنا خوف تھا اس کے زندہ رہنے کا بھی اتنا ہی خوف تھا کیونکہ یہ کسی معمولی شخص کا جنازہ تو نہیں تھا یہ تو ایک بانوے سال کے حریت رہنما کا جنازہ تھا جس کو دنیا اس کے سرپھرے پن سے جانتی ہے وہ بانوے سال کا بوڑھا شیر کشمیریوں کی جدوجہد کا استعارہ تھا جس کا نام سید علی گیلانی تھا ا س نہتے بوڑھے کے بڑھاپے کا بھی ایسا لرزہ تھا کہ اس کو بارہ سال سے بھارتی فوج نظر بند رکھنے پر مجبور تھی ۔ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگانے والا یہ شعلہ بیان انقلابی لیڈر دنیا سے چلاگیا ہے لیکن اس کا نظریاتی ورثہ ایسا ہے کہ جو جدوجہد کشمیر کے مختلف دھڑوں کو متحد رکھتا ہے ۔
سید علی گیلانی کو پرویز مشرف نے پاگل بڈھے کا لقب دیا اسکے اپنوں نے اس کا ساتھ چھوڑدیا دوسری جانب بھارت نے اس کو نظر بند کردیا ۔ لیکن وقت نے ثابت کردیا اس نہتے بانوے سال کے مجاہد کی زندگی صرف اور صرف کشمیر کے لیے تھی اس کا موقف پہلے دن سے یہی تھا کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے اس نے ہار نہیں ماننی تھی نہ مانی ۔ تاریخ اس سر پھرے کو بھی ایسے سرفروش کے طور پر یاد رکھیگی جس کو کوئی بھی ظلم کوئی بھی لالچ ٹس سے مس نہ کرسکی ۔ اور جب بھی دنیا کے سرکشوں کی بات ہوگی تو ان میں ایک بانوے سال کے پاگل بڈھے کا بھی تذکرہ بھی ہوگا جس کو ٹیکنیکل ری ٹریٹ کے بارے میں تو نہیں پتہ تھا لیکن یہ ضرور پتہ تھا کہ کشمیر کا ہر فیصلہ کشمیریوں کی مرضی اور پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس مرد مجاہد کے جنازے پر لوگوں کو آنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر شاید بھارتی فوج یہ بھول گئی کہ وہ جدوجہد کشمیر کی آواز بن کر دلوں میں زندہ رہیگا
پاکستان کے پرچم میں لپٹا اس کا جسد خاکی اس کی محبت وفا اور جنون کا ثبوت ہیں ۔ ایک بار پھر میرے کانوں میں گونج رہی ہے ایک آواز کہ
کشمیر بنے گا پاکستان ۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر