عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں موجود ہاتھی جانتا ہے کہ اُس کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہے۔۔۔ نظام اور اُس کا سب انتظام طاقتوروں کے پاس اور ریاستوں کی باگ مہاوت کے ہاتھ نہیں بلکہ خود ہاتھی کے ہاتھ ہے۔
’جمہوریت خطرے میں ہے۔‘ یہ جُملہ کم از کم ہم نے اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد کئی بار سُنا ہے۔
آمریتوں میں آنکھ کھولنے والے ہماری عمر کے سب لوگ بچپن، پھر جوانی اور بھرپور جوانی میں یہ جملے بارہا نہ صرف سُنتے رہے ہیں بلکہ عملاً جمہویت کا شب خوُن ہوتے بھی دیکھتے رہے ہیں۔
کیا ہم جمہوری دور میں ہیں؟ کیا یہ جمہوریت ہے؟ شاید ہے یا شاید نہیں ہے۔
کیا یہ آمریت ہے؟ شاید ہے یا نہیں ہے۔
ہم کس نظام میں ہیں؟ انتخابات منعقد ہوتے ہیں، سیاسی جماعتیں موجود ہیں، میڈیا کے بے شمار چینلز، اخبارات، جرائد اپنا کام کر رہے ہیں، بُہتات ہے مگر محدود اطلاعات کے ساتھ۔
سیاسی جماعتیں جلسے کرتی ہیں مگر جمہور کو کس حد تک متحرک کر سکتی ہیں یہ سوال اپنی جگہ۔
پارلیمان موجود مگر عوام کی نمائندگی کہاں؟ حکومت موجود مگر حق حکمرانی کہاں؟ عدالتیں موجود مگر انصاف کہاں، انسانی بنیادی حقوق کے نعرے اپنی جگہ محفوظ مگر حقوق مانگنے والے غیر محفوظ۔ جن کو سب معلوم ہونا چاہیے وہ نامعلوم اور ریاستوں کے محور عوام زندگی کے حق سے محروم۔
یہ المیہ صرف ہماری مرتی جمہوریت کا ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر کی خالص جمہوریتیں بھی اب ہائبرڈ ہو رہی ہیں۔ امریکہ، بھارت جیسی بڑی جمہوریتیں اس کا نشانہ بن چُکی ہیں، آزادی رائے ان ممالک کی نمایاں پہچان ہوا کرتی تھی جو اب محدود ہوتی جا رہی ہے۔
تین سال قبل ہارورڈ یونیورسٹی کے سیاسیات کے دو پروفیسروں نے ’جمہوریتیں کیوں مرتی ہیں‘ (Why Democracies Die) کو موضوع بنایا اور ایک بہترین تحقیقی کتاب پیش کی۔ کتاب کے مصنفین نے کئی ایک موضوعات کے ساتھ اس پہلو کو تفصیل سے تحریر کیا ہے کہ جمہوری معاشروں میں آمرانہ ذہنیت کے مقبول عوامی رہنما کس طرح جمہوریت کی موت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ تقسیم سے ہوتا ہے اور یہ تقسیم سامنے آتی ہے ان عوامی کرداروں سے جو مقبول اور روایت شکن تصور ہوتے ہیں۔ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ بظاہر آئینی دائرہ کار کا پرچار کرتے ہوئے سِول اتھارٹیز، خصوصا میڈیا، بزنس کمیونٹی کے حقوق ضبط کرنے اور اپنے فیصلے تھوپنے کے لئے اختیارات کا بہیمانہ استعمال کرتے ہیں۔
ایسی صورت میں حزب اختلاف کے سیاستدانوں کا ردعمل بے حد اہم ہوتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ کیا وہ بھی جواباَ آئینی حقوق کے ہتھیاروں سے مزین ہوتے ہیں یا نہیں۔۔۔ ایسا کرنے سے یقیناً نتائج مختلف ہوں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری مرتی ہوئی جمہوریت میں منقسم حزب اختلاف آئینی ردعمل دینے میں بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ آہستہ آہستہ ملک یک جماعتی نظام جبکہ اختیارات فرد واحد میں مرتکز ہو رہے ہیں۔ میڈیا پر بے جا پابندیاں جبکہ شخصی آزادیاں محدود ہو رہی ہیں۔ فیصلے کون کر رہا ہے اور اختیار کس کے پاس ہے یہ سب بظاہر عیاں ہے مگر نظر نہیں آتا۔
دن بدن محدود ہوتی جمہوریت میں حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے اہداف کے تعین میں ناکام نظر آتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں، آئین اور پارلیمانی نظام کی سربلندی کے خواہش مندوں کو سسکتی جمہوریت تو نظر آرہی ہے مگر منقسم حزب اختلاف جمہوریت کی بقا کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونے کو تیار نہیں۔
کیا جمہوریت خطرے میں ہے؟ اس سوال کا جواب کم از کم سیاسی جماعتوں کے پاس ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے یا پھر وہ کبوتر کی طرح آنکھیں موندے انجام کی منتظر ہیں۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہے تو پھر بیٹھیں اور تماشا دیکھیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر