وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکا نے انیس سو پینسٹھ سے پچھتر کے دوران دس برس میں ویتنام میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا جنگی خرچہ کیا (آج کے اعتبار سے ساڑھے سات سو ارب ڈالر)۔ تریپن ہزار امریکی فوجی مرے۔ مگر ویتنامی کتنے مرے؟ ان کا حساب کون رکھتا ہے۔ آج بھی اگر کسی امریکی اسکولی طالبِ علم سے پوچھا جائے کہ ویتنام میں کتنے لوگ مرے تو وہ فوراً بتائے گا تریپن ہزار۔ ۔ ۔
جب امریکی اپریل انیس سو پچھتر میں پسپا ہوئے تو شمالی ویتنامی افواج اور ویت کانگ چھاپہ مار کمان کو امریکی اور کٹھ پتلی جنوبی ویتنامی افواج کے زیرِ استعمال لگ بھگ پانچ ارب ڈالر (آج کے حساب سے پچیس ارب ڈالر) کا اسلحہ ہاتھ لگا۔ اس میں سے لگ بھگ دو ارب ڈالر (آج کے حساب سے دس ارب ڈالر) مالیت کے ہتھیار قابلِ استعمال یا قابلِ مرمت تھے۔ باقی اسلحہ کم و بیش نیم تباہ شدہ کباڑ ہی تھا۔
آخری دو ہفتے میں جب شمالی ویتنامی افواج نے جنوبی ویتنامی فوج کا تعاقب شروع کیا تو عجلت میں جنوبی افواج دو وسطی صوبوں سے فرار ہوتے ہوئے بتیس سالم فائٹر و بمبار طیارے، ایم فورٹی ون اور فورٹی ایٹ ساختہ بیسیوں ٹینک، ایک سو پانچ اور ایک سو پچپن ملی میٹر کی درجنوں دورمار بھاری توپیں، سگنلنگ کے سیکڑوں آلات اور تقریبا سو ٹن بموں کا ذخیرہ چھوڑ کے نکل لیں۔
مجموعی طور پر امریکا نے ویتنام میں چار سو چھیاسٹھ جنگی ہیلی کاپٹر، دو سو ساٹھ فوجی اور ٹرانسپورٹ طیارے، لگ بھگ تین سو چھوٹی بڑی عسکری استعمال کی کشتیاں اور پندرہ ہزار ٹن ایمونیشن ترک کیا۔ نوے کی دہائی تک ہوچی منہہ سٹی (سائیگون) کی سڑکوں پر کوئی بھی سیاح امریکی وردیاں، بوٹ، دوربینیں، پانی کی بوتلیں، بیجز اور کندہ نام کے ساتھ گلے میں لٹکانے والی دھاتی ڈاگ ٹیگ بطور سووینیر خرید سکتا تھا۔
سائیگون کے یو ایس انفارمیشن سینٹر کو امریکی جنگی جرائم کے عجائب گھر میں بدل دیا گیا اور ہنوئی میں ایک اوپن وار میوزیم امریکی اسلحے کی مستقل نمائش کے لیے بنایا گیا۔
عراق میں امریکی فوج آٹھ برس ( دو ہزار تین تا گیارہ) قیام پذیر رہی۔ چونکہ وہاں سے فوجی انخلا مرحلہ وار اور منظم انداز میں ہوا۔ لہٰذا ضروری ہتھیار و آلات اطمینان سے امریکا منتقل ہوئے یا پھر نئی عراقی فوج کے حوالے کر دیے گئے۔
البتہ افغانستان میں ویتنام والی کہانی ہی دھرائی گئی۔ دو ہزار چودہ میں امریکی اور ناٹو افواج نے براہِ راست زمینی جنگ میں حصہ لینے کے بجائے نو ترتیب شدہ افغان فوج پر تکیہ کرنا شروع کیا اور خود کو صرف پیچیدہ جنگی کاموں، انٹیلی جینس، تربیت، تکنیکی مدد اور فضائی امداد کے آپریشنز تک محدود کر لیا۔
افغان تعمیرِ نو کے نگراں امریکی ادارے سگار کے اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار تین سے دو ہزار سولہ کے درمیان امریکا نے افغان فوج کو مختلف ساختہ تین لاکھ اٹھاون ہزار پانچ سوتیس رائفلیں، لگ بھگ چونسٹھ ہزار مشین گنیں، پچیس ہزار سے زائد گرنیڈ لانچرز اورہر زمینی سطح پر ڈرائیو کی جانے والی بائیس ہزار ایک سو چوہتر ہموی جیپیں فراہم کیں۔
اگر بار بردار فوجی ٹرکوں، بارودی سرنگیں صاف کرنے والے اور سگنلنگ وہیکلز، بلڈوزروں اور ڈمپرز کو بھی گن لیا جائے تو ان تیرہ برسوں میں مجموعی طور پر پچھتر سے اسی ہزار وہیکلز امریکی، ناٹو، افغان افواج اور پولیس کے زیرِ استعمال تھے۔ دسمبر دو ہزار سترہ سے جون دو ہزار اکیس تک مزید تئیس ہزار ایم سکسٹین اور ایم فور کاربائن رائفلیں، تین ہزار ہموی جیپیں اور اکتیس موبائل اسٹرائیک فورس وہیکلز افغان فوج کو فراہم کیے گئے۔
دو ماہ پہلے (جون دو ہزار اکیس) جاری ہونے والے سگار کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سو سڑسٹھ طیارے، اٹیک ہیلی کاپٹر اور دیگر استعمال کے جہاز افغان فضائیہ کی تحویل میں تھے۔ ان میں تینتیس بلیک ہاک اٹیک ہیلی کاپٹر، بتیس روسی ساختہ ایم آئی سیونٹین اٹیک ہیلی کاپٹر اور تین سی ون تھرٹی بار بردار طیارے بھی شامل ہیں۔
اگرچہ چھ تا پندرہ اگست کے دوران صرف نو دن میں طالبان دستوں نے قندھار، ہرات، خوست، قندوز اور مزارِ شریف سمیت فضائیہ کے زیرِ استعمال دس اڈوں پر قبضہ کر لیا تھا مگر یہ تخمینہ لگانے میں ابھی وقت لگے گا کہ طالبان نے ان اڈوں سے کتنے جہاز اور ہیلی کاپٹر صحیع و سالم اپنی تحویل میں لیے۔
کہا جاتا ہے کہ افغان فضائیہ کے دو درجن سے زائد طیارے اور ہیلی کاپٹر فضائی اڈوں پر طالبان کے قبضے سے چند دن یا گھنٹوں پہلے ازبکستان کے ترمیز ایئربیس پہنچا دیے گئے۔ تین بلیک ہاک ہیلی کاپٹر وادی پنجشیر میں طالبان مخالف اتحاد کے قبضے میں بتائے جا رہے ہیں۔ کچھ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو افغان فضائیہ کے عملے نے فضائی مستقر چھوڑنے سے پہلے مکمل یا جزوی ناکارہ کرنے کی کوشش کی۔
مگر یہ بات کم و بیش یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت کم ازکم تین درجن سے زائد طیارے اور ہیلی کاپٹر بہترین حالت میں طالبان کی تحویل میں ہیں۔ لیکن ان کے پاس فی الحال ان طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو اڑانے یا ان کی تکنیکی دیکھ بھال کی افرادی قوت کا کال ہے۔ یہ الگ بات کہ انھیں افغان ایئرفورس کے کچھ پائلٹ اور ٹیکنیشن مستقبل قریب میں خدمات فراہم کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
طالبان کے لیے زمینی اسلحہ، بکتر بند اور ہموی گاڑیاں مہارت سے استعمال کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔ پچھلے کئی برس سے وہ افغان فوج سے اسلحہ سمیت بھاگنے والے فوجیوں کی پذیرائی کرتے آئے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہر سال تیس فیصد افغان فوجی اسلحے سمیت غائب ہو جاتے تھے۔
اس کے علاوہ یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ میں بھی بیچا جاتا تھا۔ البتہ اڑن مشینوں کی دیکھ بھال اور تربیت ایک علیحدہ کام ہے۔ اس کے لیے طالبان کو دوست ممالک کی تکنیکی امداد کی ضرورت پڑے گی۔
کچھ دوست ممالک شاید طیاروں،اسلحے اور گاڑیوں کے تکنیکی معائنے، ڈیزائننگ اور ریورس انجینیرنگ یا فاضل پرزوں میں بھی دلچسپی رکھتے ہوں۔ اس وقت افغانستان میں اتنی تعداد میں جدید امریکی اسلحہ موجود ہے کہ آس پاس کے دیگر ممالک کی شدت پسند تنظیمیں بھی اس کی گاہک بننے میں دلچسپی لیں گے اور یوں ایک نئی بلیک مارکیٹ وجود میں آنے کا غالب امکان ہے۔
یہ سب دیکھنے کے لیے ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اگلے چند ماہ میں ہی معلوم ہونا شروع ہوجائے گا کہ اسلحے کا خزانہ کہاں کہاں کس کس کے ہاتھوں میں ظاہر ہو رہا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر