نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علی علیہ السلام ، شیعان آل محمد اور مابعد شہادت عثمان تاریخ اسلام||عامر حسینی

علی ابن ابی طالب کی خلافت کی حمایت کرنے والے گروہوں اس کے بعد سب سے زیادہ سخت ردعمل کا جو سامنا ہوا وہ ردعمل بنوامیہ کی طرف سے آیا جن کی قیادت شام کے گورنر معاویہ ابن ابی سفیان کررہے تھے

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • تیسرا حصّہ

    عام آدمی جب اسلام کی پہلی صدی ہجری کے نصف اول کے بعد دوسرے نصف میں ہونے والے واقعات بارے موجود اردو میں شایع ہونے والے مواد اور عام طور پر مقبول عام نظریات و خیالات کی طرف رجوع کرتا ہے ہے تو اسے سرکاری اور مین سٹریم و سوشل میڈیا پر زیادہ تر کلیشے پڑھنے کو ملتے ہیں اور اس میں سخت قسم کے فرقہ وارانہ پروپیگنڈے کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اگر ہم جنگ جمل، جنگ صفین، بنوامیہ کی ملوکیت اور اسی دوران ہونے والے واقعہ کربلا بارے مقبول عام تصورات کو دیکھیں تو اہل سنت کے نام پر ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ ایک تو مسلمانوں کے اکابرین کے درمیان ہونے والی دو بڑی جنگیں نام نہاد فرقہ سبائیہ کی سازش تھیں۔ واقعہ کربلا کے ذمہ دار یا تو سارے اہلیان کوفہ کو بتایا جاتا ہے یا اسے اسے شیعان آل محمد کی دھوکہ دہی اور غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ماضی اور حال کی مسلم سماجوں اور سلطنتوں کے درمیان جو علاقائی سیاسی و عسکری کش مکش تھی اسے سامنے رکھتے ہوئے اسے شیعہ امامیہ کی کارستانی قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور اس میں مذہبی فرقہ واریت کا شکار لوگ ہی شامل نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سیکولر،لبرل اور ملحد بتانے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ اور ہم نے دیکھا ہے کہ اردو میں جب کسی نے قتل عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد رونما ہونے والے تاریخی واقعات کو من وعن اردو میں پیش کرنے کی کوشش کی جو غالب کلیشوں سے مختلف تصویر پیش کرتے تھے تو اسے سخت ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

    سب سے بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ہندوستان میں جو اکثریتی مسلم ذہنیت ہے وہ اس بات کو قبول کرنے سے انکاری ہوتی ہے کہ حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف سب ہی بلاد اسلامیہ کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے تحریک چلائی تھی جس کا آخر میں سب سے بڑا مطالبہ تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ  کی منصب خلافت سے معزولی تھا اور یہ کوئی عجمی یا یہودی /نصرانی/مجوسی سازش نہیں تھی بلکہ بدقسمتی سے مسلمانوں کے اپنے درمیان پیدا ہونے والی سماجی- سیاسی تقسیم اور تناؤ کا نتیجہ تھی۔

    اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے حضرت ‏عثمان ابن عفان جیسے جلیل القدر صحابی کا قتل ایسے فتنے (آزمائش) کا دروازہ کھول گیا جس نے اس کے بعد مسلم برادری کو کبھی دوبارہ متحد ہونے نہیں دیا۔ اس عدم اتفاق کی مصبیبتوں میں سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ اس کے بعد تین جنگوں میں  ایسے عالم فاضل مہاجر اور انصار صحابہ کرام کی ایک ایسی کھیپ شہید ہوئی جو مزید زندہ رہتی تو مسلم برادری کی علمی وعملی ترقی کو چار چاند لگ جاتے۔ سب سے بڑا سانحہ امام علی ابن ابی طالب علیھم السلام کی شہادت تھی اور پھر یکے بعد دیگرے امام حسن و امام حسین علیھم السلام کی شہادتیں ۔ ان تین شہادتوں نے ایک مستند انٹلیکچوئل روایت کو ہم سے چھین لیا۔ اگر یہ تینوں آئمہ اپنی طبعی عمر گزارتے تو ہمارے پاس ایک ایسا خزانہ علمی ہوتا جو کبھی خالی نہیں ہوتا۔

    برصغیر پاک و ہند میں قتل عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ سے لیکر ملوکیت بنو امیہ کے قیام تک کی معروضی صورت حال کا جس غیر شیعہ امامی مسلم دانشور نے جائزہ لیا اس کا نام سید ابوالاعلی مودودی تھا۔ سید ابوالاعلی مودودی کا موقف یہ تھا کہ اسلامی حکومت اور سوشل آڈر کا جو نمونہ پہلے دو خلفاء راشدین نے قائم کیا تھا اس سے انحراف پر دور عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ میں سماجی بے چینی شروع ہوئی اور اس کا نتیجہ ایک بڑی تحریک کی صورت میں نکلا اور اسی تحریک میں شامل کچھ لوگوں نے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کردیا۔ اور انہوں نے امیر معاویہ ابن ابی سفیان سے شروع ہونے والی حکومت کو ملوکیت کا آغاز قرار دیا اور اسے مکمل طور پر ایک غیر اسلامی حکومت قرار دیا۔ انھوں نے اس حوالے سے تمام سازشی مفروضوں کو رد کردیا تھا اور اس پر ان کے خلاف سب سے زیادہ ردعمل ہندوستان اور پاکستان سے دیوبند مدرسہ تحریک سے وابستہ نامور علمائے اسلام نے دیا۔ تحریری طور پر ہندوستان سے مولانا ابوالحسن ندوی، مولانا منظور نعمانی اور پاکستان میں مفتی تقی عثمانی نے دیا۔

    اگر ہم ملوکیت بنوامیہ کے پہلے حکمران امیر معاویہ بن ابو سفیان کے بارے میں نوآبادیاتی دوراور مابعد نوآبادیاتی دور میں مسلم اسکالرز کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو اس حوالےسے دیوبند مدرسہ تحریک اور بریلی مدرسہ تحریک ابتدائی دانشوروں کے ڈسکورس کا جائزہ لیں تو وہ ہمیں ملوکیت بنوامیہ کی طرف ایجابی نظر آتا ہے اور مولانا مودودی جیسے اسکالرز کے سلبی ڈسکورس کا ردعمل نظرآتا ہے۔ دیوبند کا یہ ڈسکورس ہمیں شدید طور پر اینٹی کوفہ اور انتہا پسندانہ طور پر اینٹی کوفی شیعی بھی نظر آتا ہے۔

    دیوبند مدرسہ تحریک کے بنوامیہ کے پہلے ملوک کے حوالے سے جو ایجابی ڈسکورس ہے اس کا ایک ذیلی ڈسکورس ہمیں پوری بنوامیہ ملوکیت کی طرف ایجابی رجحان کے ساتھ نظر آتا ہے اور اس کی جڑیں ہمیں خود دیوبند مدرسہ تحریک کے مین سٹریم ایجابی ڈسکورس میں موجود یزید کی طرف معذرت خواہانہ ڈسکورس میں ملتی ہیں جو آگے چل کر یزید کو واقعہ کربلا کی ذمہ داری سے سبکدوش ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے دفاع کی طرف غالب رجحان کے طور پر مابعد نوآبادیاتی دور میں ترقی کرتا نظر آتا ہے۔

    ملوکیت بنوامیہ کی طرف ایجابی ڈسکورس رکھنے والا دیوبند مدرسہ تحریک کا ایک سیکشن ہمیں امیر معاویہ ابن ابی سفیان اور حضرت علی ابن ابی طالب اور امام حسن و امام حسین و یزید بن معاویہ کے مابین تاریخی حقائق کے برعکس مفاہمانہ فضا کا علمبردار اور ایک سیکشن مکمل طور پر مائل بہ ناصیبت نظر آتا ہے۔ پاکستان میں سپاہ صحابہ پاکستان جیسی تنظیموں کے نظریہ ساز اسی بنیاد پہ “علی-معاویہ بھائی بھائی” کا نعرہ ایجاد کرتے نظر آئے تو محمود عباسی و تمنا عمادی جیسے ناصبیت کی طرف مائل نظر آئے۔ یہ آخر الذکر ڈسکورس ہمیں پہلی تین ھجری صدیوں کی مسلم ہسٹریوگرافی کو ہی شیعی امامی ہسٹریوگرافی قرار دے کر رد کرتا نظر آتا ہے۔

    ابتدائی صدی ھجری کے آخر نصف کی مجموعی تاریخ نویسی کو نوآبادیاتی دور میں عجمی سازش قرار دینے کا ڈسکورس بھی موجود ہے جس نے نہ صرف تاریخ کو بلکہ مجموعہ ہائے حدیث کو بھی غیر معتبر ٹھہرانے کی روش اپنائی اور اس طرح سے اس نے اپنے تئیں مسلم شعور کے لے ایک عقلیت پسندانہ اور روشن خیال ڈسکورس دریافت کرلیا۔ ان میں ہمیں سرفہرست سرسید اور اس کے بعد غلام احمد پرویز نظر آتے ہیں۔

    تاریخ اور حدیث سے ہٹ کر اگر ہم تھیالوجیکل سطح پر مدرسہ دیوبند، سرسید و پرویز کے عفلیت پسند اور محمود عباسی و تمنا عمادی کے ڈسکورس کو دیکھیں تو انہوں نے امام علی ابن ابی طالب اور دیگر آئمہ اہل بیت کے بارے میں صوفی سنّی اور شیعہ امامی  دانش کے کاسمولوجیکل، روحانیت پسندانہ ڈسکورس کے سلبی رجحان کو دیکھیں تو ہمیں صاف پتا چلتا ہے کہ وہ ان شخصیات سے جڑی باطنی عقیدت پسندی کے رد میں سب سے زیادہ متحرک اور بڑے مقدمے کے طور پر آپس میں متفق بھی نظر آتے ہیں۔ اور امامی شیعہ اور صوفی سنّی مکاتب فکر کی اہل بیت سے جڑی کاسمولوجی عقیدت کے زیر سایہ جو محرم کی مشترکہ ثقافت برصغیر پاک وہند میں ابھری اسے بدعات و شرک کے زمرے میں لاکر نہ صرف علمی سطح پہ رد کی ایک مربوط کوشش نظر آتی ہے بلکہ یہ بعد ازاں مخصوص جیو پالٹیکس کے تحت انتہائی خوفناک عسکریت پسندی اور تشدد میں بدلتی بھی نظر آتی ہے۔ یہ پہلو ہمارے اس مقالے میں زیر بحث نہیں ہے۔ یہ رجحان علی ابن ابی طالب اور اہل بیت اطہار سے جڑی معجزہ آفرینی اور بشر کامل جیسے تصورات کی نفی کرتا اور انھیں عام انسانوں کی سطح پرلاکر کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور فقہ و شریعت میں ان کے مقابلے میں دیگر صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کو لیکر آتا ہے۔ اور یہ صوفی سنّی اسلام کو اسلام کی غیرمعتبر اور غیر اسلامی روایات ، بدعات و شرک کا آمیزہ قرار دینے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ رجحانات اسلامی سماج سے مراد ایک مونولتھک اور تکثریت مخالف سماج لیتے ہیں اور ہند-اسلامی تکثرت پسند ثقافت کو طاقت سے یا اصلاح پسندی سے مٹانے میں کوشاں رہتے ہیں۔ دیکھا جائے جو جسے نوآبادیاتی دور اور مابعد نوآبادیاتی دور میں ہم مسلم ریشنل ازم اور مسلم خرد افروزی کی روایت کہتے ہیں وہ بھی صوفی اسلام اور شیعہ اسلام کی تکثریت پسند اشکال کے خلاف نظر آتے ہیں۔ اور تو اور شیعہ اسلام میں بھی جو اصولی شیعت ہے اس کا ایک ذیلی ڈسکورس بھی اسی راستے پر عمل پیرا نظر آتا ہے اور اپنے ہی اندر اخباری شیعت سے برسر پیکار نظر آتا ہے۔ جیسے ہمیں صوفی اسلام کے قریب سمجھا جانے والا بریلوی اسلام کے اندر یہ رجحانات فی زمانہ ترقی پذیر نظر آتے ہیں۔ اس پہلو سے ابھی ہمیں اکیڈمک ریسرچ بہت ہی نایاب نظر آتی ہے۔

    تاریخ اسلامی کی ابتدائی عرب روایت میں امام علی ابن ابی طالب علیھم السلام اور معاویہ ابن ابی سفیان کی طرف رجحانات کے جائزے پر اردو میں تحقیق کی بلندی کو چھوتی ہوئی اور معاصرانہ فرقہ وارانہ ڈسکورس سے ہٹ کر تجزیوں کا رجحان انتہائی نایاب ہے۔ سوشل میڈیا پر اور کتابی شکل میں موجود مواد جو ہے وہ بھی کلیشوں کے گرد گھومتا ہے۔ ہمارا جو تعلیم یافتہ شہری درمیانہ طبقہ جو ہے جو بظاہر اپنے آپ کو غیر فرقہ وارانہ اور جدیدیت سے ہم آہنگ مسلم شعور کا علمبردار کہتا ہے اس کے ہاں بھی اس موضوع پر تکفیری ذہینت سے کسی نہ کسی سطح پر ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ محمود غامدی اور ڈاکٹر اسرار احمد کا گرویدہ جدید تعلیم یافتہ شہری مڈل کلاس گروہ بھی اسی قبیل سے ہیں اور ڈاکٹر زاکر نائیک، ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے گرد جمع جدید تعلیم یافتہ گروہ بھی اسی طرح کے ہیں۔

    ہمیں اگر مسلم تاریخ کی اولین عرب روایت میں امام علی اور معاویہ ابن ابی سفیان کی  گرد نمو پانے والے نظریات کی  ترکیب کا معاصر تکفیری ذہنیت اور فرقہ وارانہ رجحانات سے اوپر اٹھ کر جائزہ لینا ہے تو اس کا آغاز ہمیں حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے شروع کرنا ہوگا۔ عرب مورخین نے اسے عالم اسلام کی سیاسی تقسیم کے آغاز سے تعبیر کیا۔

    اولین عرب روایت میں اسے عظیم مذہبی فتنہ (آزمائش) کہتی ہے۔ جس میں نہ صرف انتہائی تکلیف دہ اور متشدد تصادم کا ایک سلسلہ شروع ہوا بلکہ اس کیوجہ سے جو مسلمان برادری تھی اس میں مستقل بنیادوں پر جماعتیں اور مخالف گروہ وجود میں آئے جن کے درمیان مصالحت مشکل ہوگئی – مسلمان برادری کے جو مستقل خلیفہ تھے ان کے قتل نے ان مخفی عناصر کے درمیان تناؤ کو بڑھا دیا جو عرب سماج میں پہلے سے موجود تھی۔

    اس تقسیم کا پہلا عنصر تو مکّی مہاجر تھے، دوسرے مدنی انصار تھے اور  اموی قیادت کے تحت تیسرے پرانے اشراف مکّہ تھے۔ اور چوتھے بدوی عرب تھے۔ ان چار عناصر کے درمیان جو تناؤ جب جاری تھا تو ایسے میں ایک پانچواں گروہ وہ ظاہر ہوتا ہے جو حضرت علی ابن ابی طالب کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ علی ابن ابی طالب کو ان کے سبقت اسلام، رسول اللہ صلی اللہ علہ وآلہ وسلم کے عم زاد ہونے ، اسے ہی مبداء شریعت کی تفسیر اور تعبیر کرنے میں سب سے زیادہ مہارت رکھنے کے سبب اسلام کی سب سے مرکزی شخصیت مانتے تھے ۔ ویسی ہی مرکزیت کے حامل جیسے پہلے دو خلفا راشد ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما رہے تھے۔ ابتدائی عرب روایت تاریخ سے ہمیں اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی چھے سالہ دور حکومت میں یہ جو اشراف مکّہ بنوامیہ کی قیادت میں تھے ان کی اقتصادی اور حربی طاقت اتنی بڑھ چکی تھی کہ یہ مکّہ اور شام میں ایک بڑی عرب ارسٹوکریٹ طاقتور گروپ کی شکل اختیار کرچکے تھے اور ان کی اس طاقت کے سبب ایک طرف تو وہ عرب قبائل جنھوں نے فتوحات اور اسلامی سلطنت کے پھیلاؤ میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان کے دور میں سماجی بے چینی پہلے ہی بڑھ چکی تھی۔ ایک بے چینی عراقی قبائل، مدنی انصار اور مہاجر صحابہ کے ان حصوں میں حضرت عثمان کے زمانے میں بڑھی جو خلافت ایڈمنسٹریشن کے گورنروں اور بیت المال کے نگرانوں کی اکثریت کو مستند اسلامی اقدار سے انحراف کے راستےپر چلنے والا سمجھ رہے تھے۔ ایسے حالات میں ہم خلیفۃ المسلمین حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک تحریک اٹھتے دیکھتے ہیں جو ان کے قتل پر منتج ہوتی ہے۔ ان حالات میں امام علی ابن ابی طالب کا بطور خلیفہ جو انتخاب ہوا تھا اس کا انعقاد سماجی نظم کو واپس پرانے، زیادہ بہتر طریقوں کی طرف پھیرنے کے لیے ہوا تھا اور اس کے لیے بدوی عربوں، عراقی قبائل اور انصار مدینہ کی اکثریت کا تاون ناگزیر تھا تب ہی ان کی خلافت کا جواز پیدا ہوسکتا تھا۔ اور ان گروہوں کی اکثریت نے حضرت ‏عثمان ابن عفان کی خلافت کے خلاف تحریک چلائی تھی۔

    اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پرانی  مکّی  اشراف میں  جو بنوامیہ کی قیادت میں اکٹھے تھے اور جنھوں نے اسلام کی فتوحات سے سب سے زیادہ اقتصادی فوائد حاصل کیے تھے ان کی طرف سے علی ابن ابی طالب علیھم السلام کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر انھیں ساتھ ہی مدینہ میں مقیم مہاجر مدنی اشرافیہ میں شمار ہونے والے حضرت طلحہ اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنھما کی طرف سے بیعت سے انحراف کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان دونوں کے مطالبات مبہم تھے اور اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ دونوں کس حد تک اس اصلاحی پروگرام پر یقین رکھتے تھے جس کی بنیاد پہ امام علی کی خلافت کا انعقاد ہوا تھا اور انھوں نے بھی اس وقت بیعت کی تھی۔ جن حالات و واقعات میں یہ دونوں گھرے ہوئے تھے ان کے ہوتے ان کے مطالبات ک تحقیق کرنا ممکن نہیں رہا۔ اور پھر جب 36ھجری میں جنگ جمل جو ہوئی جس میں یہ شریک تھے اس میں یہ دونوں شہید ہوگئے تھے اور جو گروہ علی ابن ابی طالب کے مدمقابل آیا تھا وہ بھی شکست کھاگیا تھا۔

    علی ابن ابی طالب کی خلافت کی حمایت کرنے والے گروہوں اس کے بعد سب سے زیادہ سخت ردعمل کا جو سامنا ہوا وہ ردعمل بنوامیہ کی طرف سے آیا جن کی قیادت شام کے گورنر معاویہ ابن ابی سفیان کررہے تھے جن کا دعوی تھا کہ وہ قتل ہونے والے خلیفہ کے ولی ہیں اور انھوں نے قتل کا بدلہ قتل کا نعرہ لگایا اور اس کے لیے بظاہر قران کی آیات سے بھی استدلال کا۔ لیکن جواب میں حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے حامیوں نے ان کا قرآنی آیت سے استدلال کو غلط قرار دیا اور جواب میں قرآنی آیات اور اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجر و انصار صحابہ کے اتفاق کو حجت قرار دیتے ہوئے ان کو واپس جماعت میں شامل ہونے کو کہا۔

    یہ دونوں اطراف جنگ صفین میں ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں۔ اور واضح طور پر جب حضرت علی کا لشکر فتح یاب ہونے کے قریب تھا تو معاویہ ابن ابی سفیان کے لشکر نے قرآن نیزوں پہ بلند کرکے صلح کرنے کی پیشکش کی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک چال تھی جس کا اندازہ حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے مقرب ساتھیوں کو تھا۔ لیکن اس پیشکش کو ایک طرف تو قبائل قریش و حجاز جس کا جھنڈا حضرت عبداللہ بن عباس کے ہاتھ میں تھا میں شامل ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم خیال رفقا نے ماننے پر زور دیا- یاد رہے کہ ابوموسی اشعری پہلے دن سے سرے سے جنگ کرنے کے حق میں نہ تھے ان کو کوفہ میں حضرت علی کی مدد میں سرشار عراقی قبائل کے دباؤ پر جنگ میں شریک ہونا پڑا تھا۔ دوسری طرف عرب بدوی قبائل کے اکثر شرکا نے اس پہ زور دیا کہ قرآن کو اگر حکم بنایا جارہا ہے تو صلح کی پیشکش کو قبول کرلینا چاہئیے۔ تیسرا گروہ عراقی قبائل میں اشراف القبائل کے اکثر سرداروں تھے جنھوں نے اس صلح کی حمایت کی ان میں اشعث بن قیس بھی تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لشکر میں یہ وہ اندرونی تقسیم تھی جس نے ایک تو لڑائی کو نتیجہ خیز ثابت نہ ہونے دیا۔ اور دوسرا بعد ازاں اس نے اس گروہ کی تشکیل بھی کی جسے ہم اشراف القبائل اور بدوی عرب جن سے خوارج کا ظہور ہوا سے الگ کرکے شیعان آل محمد کا گروہ کہہ سکتے ہیں۔

    جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جنگ جمل میں اپنے لشکر کو سات جھنڈوں کے سات بڑے حضوں میں بانٹا تھا تو دیکھا جائے توعراقی قبائل میں جو اشراف القبائل سے ہٹ کر اور بدوی قبیلوں سے الگ قبائل تھے وہ اور ان کے علم بردار ولی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے عراقی شیعان علی کہلائے۔  امام علی کی رائے سے کہ شامی قوم قرآن اور دین کی قوم نہیں ہے سے اتفاق کرنے والوں میں مالک الاشتر، حجر بن عدی، عدی بن حاتم،مخنف بن سلیم، کریم بن عفیف، اعوسچہ،شریک، ہانی بن عروہ ، سیلمان بن صرد الخزاعی جیسے کبار کوفی(شیعہ) نمایاں تھے۔ اور یہی وہ قـبائل ہیں جنھوں نے حضرت علی ابن ابی طالب کی اس رائے سے بھی اتفاق کیا تھا کہ نھروان میں خوارج کا پیچھا کرنے کی بجائے سیدھا شام پر حملہ کیا جائے۔

    اولین عرب روایت میں ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کی جو جنگ تھی وہ دفاعی جںک تھی۔ اس کا مقصد عقیدے کی بقا تھا اور اس کا اصول یہ تھا کہ اگر ٹھیک قیادت ہوتو اسے ہی آخر میں نصرت ملتی ہے۔ اور عقیدہ و دین پہ قائم رہنا علی ابن ابی طالب کے لیے طبعی عادت جیسا معاملہ تھا کیونکہ وہ ہی تو اس وقت دین کے سب سے بڑےعارف تھے اور وہ اپنے اوپر عقیدے کی بقا اور دین کی طرف سے مسئولیت کو فرض خیال کرتے تھے اور اسی لیے اللہ کی طرف سے ان پہ یہ انعام کیا گیا تھا کہ وہ “امام” کی صفت سے متصف ہوئے تھے۔

    اب جبکہ حضرت علی ابن ابی طالب جو بلاشبہ قتل عثمان کے وقت سے لیکر جنگ نھروان تک سبقت اسلام ، قرابت رسول اللہ اور اپنے عظم دینی علمی مرتبے کے لحاظ سے سب سے برتر شخصیت تھے لیکن مدینہ،مکّہ، کوفہ، بصرہ جو قتل عثمان سے لیکر جنگ نھروان تک بڑے پیمانے پہ سیاسی صف بندی کا مرکز تھے اس میں ایک دوسرا گروہ ایسا تھا جو ان معرکوں میں کسی کی جانب سے بھی شریک ہونے سے باز رہا۔ یہاں تک کہ کچھ اسی شخصیات جن کا اسلام میں بڑا نام اور مرتبہ تھا وہ بھی اس سے الگ رہے جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جیسے نام بھی شامل ہیں۔ پھر خود حضرت علی کے لشکر سے بدوی عرب قبائل کی بہت بڑی تعداد بھی الگ ہوگئی جس نے تحکیم کو مسئلہ بنالیا۔ نھروان کی جنگ کے بعد خود کوفہ اور بصرہ کے طاقتور اشراف القبائل کے بڑے سردار اور ان کے حامی کوفہ میں بظاہر غیر جانبداری کی روش چلنے لگے اور ان میں سے کئی ایک کے خفیہ طور پر امیر شام سے روابط تھے۔ اس نام نہاد غیر جانبداری نے پہلے پہل مدینہ میں مہاجرین اور انصار کے اندر جنم لیا تھا اور مکّہ جو اکثریت میں بنوامیہ کے ساتھ علی ابن ابی طالب کی مخالفت میں کھڑا تھا اس غیر جانبداری کے آثار پائے جاتے تھے۔ ان دو شہروں میں پائی جانے والی غیر جانبداری نے حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کا ساتھ دینے والے حجازی مہاجر و انصار صحابہ کی ایک مختصر تعداد کو حجاز سے نکل کر کوفہ و بصرہ میں اپنے حمایتی تلاش کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اور پھر غیر جانبداری کی یہ لہر کوفہ و بصرہ میں بھی جاپہنچی تھی۔ اس غیر جانبداری میں شامی کیمپ اور اس سے پہلے جنگ جمل میں باغی کیمپ کے اس پروپیگنڈے کا بھی بہت اثر تھا کہ حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے ساتھی قاتلان عثمان کا تحفظ کررہے تھے جبکہ حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے جید رفقا نے ہر موقعہ پر اس الزام کا وافی و کافی جواب دیا تھا۔ حضرت علی کوفہ میں اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب وہ سرتوڑکر شام پہ جڑھائی کے لیے لشکر کی تیاری میں مصروف تھے کوفہ میں غیر جانبداری کا لباس اوڑھنے اور لشکر میں شریک ہونے سے کترانے کے لیے حیلے بہانے کرنے والے اشراف القبائل کا ہی تو شکوہ کرتے تھے ناکہ ان کا شکوہ اپنے مخلص شیعان سے تھا۔

    کیا ستم ظریفی ہے کہ جب امام علی ابن ابی طالب کوفہ کی مسجد میں شہید کردیے گئے اور امام حسن پر بصرہ کے قریب خوارج نے قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ بمشکل جان بچا پائے اور حکومت سے دست بردار ہوکر مدینہ واپس آئے تو  ہمیں غیرجانبدار صفوں میں براجمان مدینہ کی کئی بڑی اسلامی شخصیات سے یہ طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ ان کی شہادت اور آل بیت کی مشکلات و مصائب کے ذمہ دار وہ کوفی  تھے جنھیں شیعان آل محمد کہا جاتا ہے۔ حالانکہ تمام مورخین اسلام اس بات پہ متفق ہیں کہ اپنی شہادت سے پہلے علی ابن طالب نے کم از کم 60 ہزار کوفی شیعان آل محمد پر مشستمل لشکر شام پر چڑھائی کرنے کے لیے تیار کرلیا تھا۔

    تمام مستشرقین ماہر تاریخ اسلام بشمول الرنگ لڈوگ پیٹرسن بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دین علی اور دین علی کی پیروی کرنے والوں کے خلاف اس زمانے میں جو غیر جانبداری اور الزام تراشی کے حربے اختیار کیے گئے اس نے بنوامیہ کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ اس وقت کے بلاد اسلامیہ میں ایسے گروہ پیدا ہوگئے تھے جنھوں نے خود حضرت علی کی تکفیر کردی اور ان کے دینی تشخص اور مقام کو کمتر سمجھنا شروع کردیا۔ کیا تاریخ میں اس سے بڑا جرم اور ستم ظریفی ہوسکتی ہے۔

    امام علی ابن ابی طالب نے دور عثمانی میں حضرت عثمان ابن عفان کے خلاف اٹھنے والی تحریک، ان کے قتل کے بعد خلافت کا عہدہ سنبھالنے اور پھر حجاز سے نکل کر کوفہ کو مستقر بنانے سمیت جو فیصلے کیے بنوامیہ کےتاریخ سازوں نے انھیں خود امام حسین علیہ السلام کے نام سے غلط فیصلے ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ یہ ایک طرح سے ‘ظلم” کا الزام مظلوموں کی طرف پھیر دینے کی کوشش تھی۔

    قتل عثمان سے لیکر شہادت علی المرتضی اور صلح امام حسین تک اور اس سے آگے واقعہ کربلا تک بیانیوں کی اس جنگ میں اپنے بیانیوں سے بنوامیہ کی تائید کرنے والا سیف بن عمر الاسیدی التمیمی الکوفی کی کتاب “وقعۃ الجمل” سے طبری،بلازری،ابو حنیفہ الدینوری ، ابن اثیر و ابن کثیر سب کے سب امام حسن کا امام علی ابن ابی طالب سے ایک مجادلہ روایت کرتے ہیں اور اس میں امام حسن کا طرز تخاطب بھی وہ دکھایا جاتا ہے جو بعید از عقل اور دور از قرین قیاس ہے۔ صاف لگتا ہے کہ یہ واقعہ اس لیے گھڑا گیا کہ غیرجانبدار کیمپ کو حکمت و دانش کا منبع بتایا جاسکے اور یہ دکھایا جاسکے کہ خود امام حسن بھی غیر جانبدار رہنے کے حق میں تھے اور انھوں نے یہ مشورہ حضرت علی ابن ابی طالب کو بھی دیا تھا جو انہوں نے نہ مان کر اپنا نقصان کیا۔ اس مکالمے کے دوران علی ابن ابی طالب کے نام سے یہ کلمات بھی کہلوائے گئے کہ مدینہ کے محاصرے کے موقعہ پر اگر علی ابن ابی طالب اپنے گھرانے کے ساتھ مدینہ سے نکل کر کہیں اور جانے کی کوشش کرتے تو بلوائی ان کو بھی اسی طرح گھیرکر شہید کردیتے جیسے انھوں نے حضرت عثمان ابن عفان کو شہید کیا تھا۔ یہ ایک ایسا موقف ہے جو حضرت علی ابن ابی طالب کے اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے خلاف پیس کیے گئے ان کے اپنے موقف کی صریح ضد ہے۔ گویا علی ابن ابی طالب نے جنگ جمل، جنگ صفین ، جنگ نھروان کیں وہ ساری جنگیں انھوں نے اپنے حق پر ہونے کی بجائے اپنے ساتھ لڑائی میں شریک ہونے والوں کا یرغمال بن کر کیں۔ سوال اس مکالمے کو پڑھ کر یہ بھی جنم لیتا ہے کہ اگر حضرت علی ابن ابی طالب عمار یاسر، مالک الاشتر، حجر بن عدی، عدی بن حاتم طائی، محمد بن ابی بکر جیسے ساتھیوں کے یرغمال تھے یا ان کو حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے میں شریک سمجھتے تھے تو ان میں سے جو آپ کی حیات میں شہید ہوئے ان کی شہادتوں پر گریہ اور غم و اندوہ کا اظہار کیوں کرتے رہے؟ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کے ساتھ عبداللہ بن عباس، حضرت ایوب انصاری، حضرت ‏عثمان بن حنیف سمیت جو مہاجر و انصار و حجازی صحابی ان جنگوں میں شریک ہوئے کیا وہ بھی حضرت علی ابن ابی طالب کے یرغمال اور مجبور ہونے کو نہ سمجھ سکے؟ اور اس حدیث کا کیا ہوگا جو عمار یاسر کے قاتل قبیلے کو باغی گروہ قرار دیتی ہے؟

    ابتدائی عرب روایت میں سیف بن عمر تمیمی، عامر بن شراحیل الشعبی، زھری، صالح بن کیسان، عمار دمشقی بیانیوں کے  مطابق بنوامیہ کی کامیابی جو تصویرکشی کرتی ہے اس میں وہ اس کامیابی کا سہرا امیر شام اور عمرو بن العاص کے سرباندھتی ہے۔ وہ دونوں کو عرب ذہانت اور دانائی کی اعلی مثال بناکر پیش کرتی ہے۔ وہ ان کی چالوں کو بہترین سیاسی سٹریٹجی بناکر پیش کرتی ہے۔ وہ ان دونوں کو مدبر،متحمل مزاح اور سب سے بڑھ کر عربوں کے ہاں دور جاہلیت سے چلی آرہی ایک قدر”حلم”کی بہترین تجسیم بناکر دکھاتی ہے۔ یہ تصویر کوفہ کے ابومخنف،نصر بن مزاحم کے تاريخی بیانیوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ اس تصویر سے بالکل الگ تصویر ہے جو ہمیں حضرت علی ابن ابی طالب کے خطوط بنام معاویہ ابن ابی سفیان و عمرو بن العاص کے متون اور خود معاویہ ابن ابی سفیان کے بنام علی ابن ابی طالب خطوط کے متون پڑھ کر دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ تصویر اس تصویر کے بھی بالکل متضاد ہے جو ہمیں مدینہ میں غیرجانبدار ہوکر الگ تھلگ بیٹھنے والےعبداللہ بن عمر اور سعد بن ابی وقاص کے معاویہ ابن ابی سفیان کے ان خطوط کے جواب میں میں لکھے گئے خطوط سے دیکھنے کو ملتی ہے جب حضرت علی کے سفیر دمشق میں معاویہ ابن ابی سفیان کو علی ابن ابی طالب کی بیعت پر راضی کرنے کے لیے 17 ماہ قیام کیے ہوتے ہیں۔

    یہاں پر ایک سوال اور بھی بنتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا امام علی ابن ابی طالب جنگ جمل و جنگ صفین و جنگ نھروان کے ذمہ دار تھے؟ کیا اس خانہ جنگی کی شروعات علی ابن ابی طالب نے کی تھی؟ کیا حضرت عثمان ابن عفان کی خلافت کو چیلنج علی ابن ابی طالب نے کیا تھا؟ ان سب سوالوں کے جواب نفی میں ہیں۔ علی ابن ابی طالب سے بیعت توڑنے والوں نے جنگ جمل ان پر مسلط کی اور علی ابن ابی طالب نے 17 ماہ انتظار کیا معاویہ ابن ابی سفیان کے جواب کا اور 17 ماہ بعد یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھے جو لشکر لیکر عراق آئے اور صفین کے مقام پر ان سے لڑے۔

    صلح امام حسن علیہ السلام کے بعد تو صورت حال اور دلچسپ ہوجاتی ہے۔ 40 ھجری سے 50 ھجری امام حسن کی شہادت کے وقت دس سال کے دورانیہ میں خانوادہ اہل بیت اطہار اور ان کے شیعہ جو مدینہ و مکّہ و کوفہ و حجاز و یمن میں آباد تھے اور کسی قسم کی سیاست نہیں کررہے تھے۔ آپ اسے غیرجانبداری کہہ لیں یا بے زاری کہہ لیں تو کیا ان پر سے جبر وستم اور ان کی معاشی ناکہ بندی ہٹ گئی تھی؟ کوفہ میں مغیرہ بن شعبہ کے دور میں شیعان آل محمد سے ان کی زمینں چھینی گئیں، ان کے وظائف بند کیے گئے اور انھیں دین علی سے اظہار برآت پہ مجبور کیا جاتا رہا۔ مغیرہ بن شعبہ نے کوفہ کے شیعان آل محمد کو قتل کرنے سے گریز کیا تو اس کی جگہ زیاد بن ابی سفیان کو گورنر بنایا گیا جس نے اپنی گورنری کے زمانے میں ایک لاکھ سے زائد شیعان آل محمد کو شہید کیا۔ کس جرم میں؟ کیا ان میں سے کسی نے بنوامیہ کے خلاف اعلان بغاوت کیا تھا؟ نہیں۔ حجر بن عدی اوران کے ساتھیوں کا قتل ہوا جبکہ وہ امام حسن علیہ السلام کے حکم پر ہتھیار اٹھانے سے باز رہے تھے۔

    ایک قدم اور آگے بڑھایا گیا۔

    حکومت و اقتدار سے الگ بیٹھے ہوئے امام حسن کو زھر دے کر شہید کردیا گیا۔ پھر یزید کی زبردستی بیعت کی مہم چلائی گئی۔

    اس مہم کے دوران حضرت عبدالرحمان بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ویرانے میں قتل ہوا اور کہا گیا کہ ان کو جنات نے قتل کردیا۔ اور امام حسین علیہ السلام سے زبردستی پہلے مدینہ میں بیعت لینے کی کوشش کی گئی جبکہ ان کا ارادہ جنگ کا نہیں تھا۔ پھر بیعت سے انکار پر جب گورنر مدینہ نے ان کو گھر جانے دیا تو گورنر بدل دیا گیا اور ان کے قتل کا حکم دیا گیا۔ وہ مکّہ میں آئے تو وہاں قاتل ہرکارے بھیج دیے گئے اور اس طرح سے ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ لڑیں اور اس طرح سے کربلا میں مظلومیت سے شہید کردیے گئے۔ اس کے بعد کسی امام نے قیام نہیں کیا لیکن امام سجاد سے لیکر امام حسن عسکری تک گیارہ آئمہ اہل بیت کو شہید کیا گیا۔ اس سے جو لوگ آج غیر جانبدار پوزیشن کو کامیاب حکمت عملی بتاتے ہیں ان کی کس کیمپ سے ہمدردی ہے صاف پتا چل جاتا ہے۔

    امام علی ابن ابی طالب اور معاویہ ابن ابی سفیان کے درمیان جو ہوا اس میں معاویہ ابن ابی سفیان کی قیادت میں پرانی مکّی اشرافیہ کی جیت ہوئی ۔ اب یہاں پر سوال یہ جنم لیتا ہے کہ خانہ جنگی میں بنوامیہ کی ہاتھ جو سیاسی و سماجی طاقت آئی کیا اس نے دوخلفائے راشدین کے بنائے ہوئے سماجی نظم کو بحال کیا؟پاورمیں آنے کے بعد ہوا کیا؟ پاور میں آنے کے بعد بنوامیہ کی قیادت میں مکّی اشراف نے سارا زور امام علی ابن ابی طالب اور ان کے حامیوں کی کردار کشی میں صرف کیا اور اپنے آپ کو اسلام کے حقیقی سماجی نظم  کو قائم کرنے والا بناکر پیش کیا۔ اس نئے اقتدار نے روایتی قبائلی اداروں اور عرب اشراف سماج کو نئے ظروف میں متوازن بنانے کی کوشش کی۔ قبائلی اشراف پرستی کی تنظیم نو پہ مبنی جابر حکومت کو عراق کی شیعی تحریکوں نے بار بار چیلنج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بنوامیہ نے پرانی قبائلی اشرافیت کو مضبوط کرنے کے لیے جتنا جبر اور جتنا تاریخ کے بیانیوں میں درباری رنگ شامل کیا اتنا ہی اس کے خلاف ردعمل بڑھتا چلاگیا۔ اس نے شیعان آل محمد کو تاریخ کے پنوں سے جتنا غائب کرنے کی کوشش کی اتنا ہی شعان آل محمد نے اپنے آپ کو باقی رکھا۔ شیعان آل محمد کی تحریک حضرت علی ابن ابی طالب کی شہادت سے ختم نہیں ہوئی بلکہ اہل بیت کی شہادتیں اور ان پہ ڈھائے جانے والے مصائب کو ہی شیعان آل محمد نے اپنی طاقت بنالیا۔ واقعہ کربلا نے تو اس غم ایک ایسی خاموش مزاحمت میں بدل دیا کہ بنوامیہ کی ساری جابرانہ مشینری اسی اظہار غم اور عزاداری  کو ختم کرنے پہ صرف ہونے لگی۔

    یہاں پہ ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں  اور اس کے خلاف لڑنے والی پرانی مکّی اشرافیہ و اس کے حامی دونوں نے اس دوران ہوئے واقعات کے اندر اپنی جڑیں تلاش کیں۔ دونوں کیمپ ہی پہلی صدی ھجری کے دوسرے نصف دور میں ہوئے واقعات سے جڑے ہیں۔ اور یہاں پر یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ فتنہ کی تاریخ اور اس کے بارے میں تاریخی تحریریں دو الگ الگ مختلف وسیع شعبے ہیں۔ اور ہر ایک غور فکر اور مطالعے کے قابل ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author