عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان میں کیا ہورہا ہے؟
افغانستان کی سماجی- سیاسی صورت حال میں ایک ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ امریکہ-یورپ اور بھارت کی حمایت یافتہ کابل حکومت لڑے بغیر کابل سے دست بردار ہوگئی ہے۔ پاکستان کے لبرل ، سوشلسٹ ، قوم پرست مین سٹریم تجزیہ نگاروں کے لیے یہ بالکل غیرمتوقع صورت حال ہے۔ اس حوالے سے وٹس ایپ پہ بنے ایک کمیونسٹ گروپ میں بڑی دلچسپ بحث چل رہی ہے۔ میں اس بحث کو یہاں کامریڈز کی شناخت کو چھپاکر پیش کررہا ہوں۔ کامریڈ سین کابل پہ افغان طالبان کے قبضے کو سامراج کی شکست کے طور پہ دیکھتا ہے۔ اس کے نزدیک افغان طالبان کی سماجی بنیاد دیہات ہے۔ کامریڈ رے کو کامریڈ سین کی بات سے شدید اختلاف ہے۔ وہ اسے کسی ایک فریق کی جیت اور دوسرے کی ہار کے تناظر میں نہیں دیکھ رہا۔ کامریڈ بے کو کامریڈ رے سے اتفاق ہے اور کامریڈ تے کو کامریڈ سین سے اتفاق ہے۔ یہ جاندار بحث افغانستان کی نئی صورت حال بارے پیدا شدہ کنفیوژن سے نکلنے میں مدد دے سکتی ہے(عامر حسینی)
کامریڈ سین
سامراجی جنگ ہارنے اور بھاگنے کے طریقہ کار پر اختلافات کے شکار ہوگئے ہیں، خاص کر جس ریاست اور فوج کی تعمیر پر دو ہزار ارب ڈالرز خرچ کئے گئے وہ تنکوں کی طرح بکھرتی نظر آرہی ہے۔ اس نے پچھلے پندرہ سال میں سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں ریاستوں کی تعمیر اور جمہوریت کے نفاذ پر لکھے گئے پوسٹ ماڈرن اور نیولبرل لکھاریوں کی لکھی گئیں سینکڑوں کتب، ہزاروں ریسرچ آرٹیکلز اور رپورٹوں کو ردی کا مال ثابت کردیا۔ افغانوں نے ثابت کردیا کہ کم ازکم استعمار کے خلاف ان کی مزاحمتی تاریخ ماند نہیں پڑی
جرمنی کے سبکدوش فور اسٹار جنرل اور نیٹو کے سابق سینئر کمانڈر ایگون ریمز نے افغانستان میں طالبان کی انتہائی تیز رفتار پیش قدمی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے حکومتی فورسز کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
کامریڈ رے
افغانوں نے ثابت کر دیا؟ یہ کیا ہم 19 ویں صدی میں رہ رہے ہیں کہ منگولوں نے ہندوستان، تاتاریوں نے وسطی ایشیاء اور انگریزوں نے انڈیا فتح کر لیا؟ طالبان ایک ردعمل پسند قوت ہیں جن کا نہ کوئی ترقی کا تصور ہے نہ یہ اپنے آپ کو عوام کے آگے جوابدہ سمجھتے ہیں. یہ ویسے ہی ہیں جیسے داعش اور القاعدہ. ان کی آمد کو کسی طور بھی بہتر قرار نہیں دیا جا سکتا. یہ مزدور طبقہ کو بری طرح تقسیم کر دیں گے، علاقائی اور فرقہ وارانہ قتل عام کر کے عورتوں، ناداروں کا جینا دو بھر کر دیں گے.
کامریڈ سیین
یہ تیسری سامراجی طاقت ہے جو اس قبرستان میں دفن ہورہی ہے۔ اس سے پہلے روس اور برطانیہ۔
تاریخ ناک کی سیدھ میں نہیں چلتی اور نہ اس نے انتظار کرنا ہوگا کہ ترقی پسند اور روشن خیال تحریک شروع کریں گے تو افغان آٹھ کھڑے ہوں گے
عجیب لیفٹ آگیا ہے کہ امریکہ اوران کا میڈیا چیخ رہا کہ یہ ویت نام سے برتر ہے اور ہم کہتے ہیں کہ نہیں آپ جنگ جیت کر جارہے ہو
دوسرا یہ کس نے طالبان کو ترقی پسند کہا ہے؟
ہم تو سامراج اور پٹھو حکومت کی حالت پر خوشی بنارہے ہیں۔
اور ضرور بنائیں گے بیس سال اس کی راہ دیکھی ہے اور ثابت کردیا کہ سامراج نہ کسی قوم کی تعمیر کرسکتے ہیں، نہ تعمیر نو، جمہوریت اور انسانی حقوق سے لیکر فوج تکسابقہ کمیونسٹ اب طالبان اور امریکہ کے ساتھ ہیں۔ اب آپ کرلو کمیونسٹوں کا انتظار
کامریڈ رے
سمجھ سے بالا ہے کہ کیسے 18 ویں 19 ویں صدی کے استعارے اکیسویں صدی میں افغانستان پر استعمال کیے جا رہے ہیں. 440 امریکی 20 سال میں مرے، یہ کوئی ویتنام نہ بنا ان کے لیے. پشتون قوم کا تصور خیالی ہے کیونکہ افغانستان میں اس کی کوئی سرمایہ دارانہ شکل تک نہیں. تاریخ میں تو فاشزم بھی آیا تو کیا اب اسے بھی ترقی سمجھ لیں؟
امریکہ تو طالبان کو اقتدار باضابطہ دے کر جا رہا ہے. طالبان نے چھ ماہ سے کوئی ایک دکھاوے کا حملہ تک امریکہ نیٹو پر نہ کیا. اب پرسوں امریکہ نے کہا کہ طالبان کابل میں امریکی ایمبیسی پر حملہ نہ کریں، مطلب یہ کہ کابل فتح کر لیں ہم تسلیم کر لیں گے. یہ ویتنام سے یکسر مختلف صورتحال ہے. چین، ایران، پاکستان، امریکہ کو طالبان قبول ہیں کہ یہی افغانستان پر ریاستی کنٹرول قائم کریں گے.
کامریڈ سین
ایلکس روز امریکہ کی شکست پر پانچ آرٹیکلز شئیر کرتا ہے
ایک نیشن اسٹیٹ اور اس میں جمہوریت کی تعمیر کا منصوبہ تو امریکہ کا تھا جو فیل ہوگیا
لگتا ہے سابقہ ماؤ نواز طالبان کا حصہ ہے۔
ویسے کسان یا دیہی فوج یہی کرے گی
Irfan Habib at 90. A hilarious recollection.
In 2003 in an interview, Professor Habib said the UK ambassador visited him and Professor Saira Habib in Aligarh. Apparently it was a courtesy call prompted by a sense of concern: the way Muslims were being treated in BJP ruled India… He wanted the learned professors to know that the UK govt was equally worried. In response Professor Habib, while offering tea and cake, said: I hope the UK govt will extend the same concern to Muslims of Iraq and Afghanistan. The eminent visitor left soon afterwards…
Suchatana Chattopadhyay post
Copied
کیا کسان، دیہی عوام
class for itself
ہوسکتے ہیں؟
یا ان کو ماؤ نواز کمیونسٹ یا طالبان طرز کی قیادت درکار ہوگی
سامراج اور اس کی تعمیر کردہ ریاست کے خلاف دیہات سے اٹھنے والی جدوجہد کی قیادت روش خیال اور ترقی پسند ماو نواز کیوں نہیں کر رہے؟
کامریڈ رے
یہ آپ کا مفروضہ ہے کہ طالبان دیہی اور نچلی پرت سے ہیں. یہ ایک طرح کا وہ سیاسی جواز ہے جوسرے موجود ہی نہیں ہے
پورا افغانستان اس طرح دیہی ہے اور پسماندہ بھی. جو شہر سامراجی دور میں بڑے ہوئے ان کے مسائل اور تحریکیں اٹھنے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گے. اس لیے جس خانہ جنگی کا خدشہ مستقبل میں بتایا جا رہا ہے وہ شہری دیہی نہیں بلکہ نسلی اور فرقہ وارانہ ہو گی. افغانستان کوئی ملک کی صورت گزشتہ 40 سال سے وجود نہیں رکھتا. یہ علاقائی قوتوں کے زور آزمائی کا مرکز رہا اور رہے گا. یہاں کسی قسم کی سرمایہ دارانہ بڑی انوسٹمنٹ نہیں ہوئی یوں وہ بورژوازی وجود نہیں رکھتی جو کسی سرمایہ دارانہ ریاست کا دفاع کرنے میں خون بہائے. بلکہ ایک خاصی کمینی قسم کی مڈل کلاس اور لوئیر مڈل کلاس ہے جو مخبری، ٹھیکیداری کر کے علاقائی اور سامراجی قوتوں کی آلہ کار بنی رہتی ہے اس لیے فوج کے بجائے ملیشیائیں راجواڑوں کا دفاع کرتی ہیں. امریکہ ایک پست ہوتی سامراجی قوت ہے. یہ افغانستان کو یکجا کرنے نہیں بلکہ اپنے مخالف سامراجی قوتوں کو پسپا رکھنے کے منصوبوں پر گامزن ہے. یہ سمجھنا کہ امریکہ اور یورپی قوتیں کسی جنگ میں شکست کھا گئیں یہ غلط فہمی ہے. یہ اپنے طور طالبان کی راہ ہموار کر کے افغانستان کو خلفشار کا مرکز بنا کر جا رہی ہیں تا کہ چین ایران انڈیا پاکستان اب انہیں بھگتیں
کامریڈ سین
مجھے یہ پاکستانی حکمران طبقہ کی اپروچ لگتی ہے یہ ان کا مفروضہ ہے کہ امریکہ انتشار چاہتا تھا اور یوں پاکستان کے لئیے مسائل جنم لیں گے اور ایک بار پھر سب سے پہلے پاکستان طرز کی پالیسی بنائی جائیں گئی؟
ویسے یہ بھی ایک مفروضہ ہی ہے کہ امریکہ افغانستان میں خلفشار ہی چاہتا تھا اور وہ کامیاب ہو گیا اس میں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے یہ مفروضہ بھی سامراج کے حق میں جاتا ہے کہ وہ ہار کے بھی نہیں ہارا۔ سامراج کی ہار اہم ہے یا جیت؟ ہمیں سیاسی طور پر کیا سوٹ کرتا ہے اسکا جیت جانا یا ہار جانا؟ سامراجی طاقتوں نے جس طرح افغان جنگ کی شروعات میں جمہوریت اور انسانی حقوق اور سیاسی بنیادوں پر افغان ریاست کی تشکیل نو کے نعرے بازی کی تھی پتا نہیں کہاں کہاں سے تھیوریز گھڑ کے لائی گئی تھی ان سب کا کیا؟ میرے خیال میں تو سامراج کی ناکامی کو پیش کرنا زیادہ اہم ہے۔ ہاں اس کے ساتھ ساتھ طالبان بربریت کو کسی طور پر بھی سپورٹ نہیں کیا جا سکتا
کامریڈ رے
آپ یہ بتائیں کہ سامراج افغانستان میں کونسی جنگ جیتنے آیا تھا؟ دہشتگردی کے خلاف جنگ؟ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے آیا تھا؟ اور عراق میں کیوں گیا تھا؟ لیبیا کو کیوں برباد کیا؟ شام کو کیوں تباہ کرنے کے چکر میں تھا؟ اس کا مطلب آپ سامراجی کھیل کو ایک جدلیاتی تاریخی تناظر میں نہیں دیکھ رہے بلکہ افغانستان کے حالات کو صرف آئسوليشن میں دیکھ رہے ہیں.
کامریڈ سین
ہم یہ بات نہیں کر رہے وہ جو کہہ کر آیا تھا اور جس کے لئیے پورے کے پورے فلسفے گھڑے گئے میں اس کی بات کر رہا ہوں- بیس سال سے جس کا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا وہ یہ تو نہیں تھا کہ ہم انتشار کے لئیے آئے ہیں؟ تو اس کے پروپیگنڈا کی منطق سے وہ ہار گیا۔ باقی سازشی تھیوری تو بہت ہیں
کامریڈ تے
سامراج جن سیاسی نعروں کا سہارا لے کر حملہ آوار ہوتا ہے ان نعروں کے دعوے کا کیا ہوا؟ یہ پھر جیت کیسے ہو گئی ہم
کیوں تلے ہوئے ہیں اس کی جیت پر
کامریڈ بے
سامراج صرف ننگی طاقت کا نام نہیں ہوتا؛ وہ اپنے ہر سامراجی کھیل کو سامراجی آڈیالاجی لبادے میں پیش کرتا ہے… کوئی بھی سامراج آڈیالاجیکل لیجیٹیمیسی کے بغیر زیادہ دن چل نہیں سکتا؛ اور اسی آڈیالاجی کے پیچھے اس کے معاشی اور سیاسی مفادات چھپے ہوتے ہیں… مارکسزم ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ سامراجی آڈیالاجی کے پیچھے اس کے چھپے ہوئے معاشی اور سیاسی مفادات کس طرح بے نقاب کیا جائے.
سامراج کی جیت یا ہار میں میں بھی اس کے مفادات چھپے ہوئے ہوتے ہیں؛ کامریڈ ریاض نے بلکل ٹھیک بات کی طرف اشارہ کیا کہ طالبان جیسی رجعت پسند قوت کو مظبوط کر کے جانے کا مقصد آنے والے سامراجی کھیل کے لیے میدان تیار کرنا ہے؛ یعنی خطے میں عدم استحکام اور اپنے مد مقابل قوتوں کے لیے درد سر چھوڑ کر جانا
کامریڈ تے
اس کی جیت کا جشن منا کر بے نقاب کئیے جاتے ہیں؟ سیکھنا چاہتا ہوں۔
کامریڈ سین
پہلی بات اتفاق سے کرس ہارمن نے کہی
[8/16, 11:05 AM] Muhammad Aamir Hussaini: “At a certain point in their historical lives, social classes become detached from their traditional parties. In other words, the traditional parties in that particular organisational form, with the particular men who constitute, represent and lead them, are no longer recognised by their class (or fraction of a class) as its expression. When such crises occur, the immediate situation becomes delicate and dangerous, because the field is open for violent solutions, for the activities of unknown forces, represented by charismatic "men of destiny”.”
― Antonio Gramsci, Selections from the Prison Notebooks
کامریڈ رے
اب کو اقلیتوں، عورتوں کی فکر بھی کہیں کرس کے مضامیں میں پڑھنے کو ملے تو شئیر کریں
کامریڈ سین
I am so sick of all the handwringing in the MSM regarding Afghan women and how the anti war movement is supposedly “betraying” them by supporting the withdrawal from Afghanistan.
Save for the little “island” in Kabul, most Afghan women suffered the same tribulations that they did under the Taliban. Many still lived under the Taliban to the extent that they retained or retook that land during the insurgency. The Afghan judiciary under Karzai defined only two rights for Afghan women – the right to pray and the right to obey their husbands. Afghanistan is a very rural, conservative and, to a considerable extent, tribal country (not in the orientalist reductionist sense but in a more sociological one). The Taliban are Islamist but they are also essentially a Pashtun Islamo-nationalist movement committed to a conservative Pashtun tribal religious agenda, albeit in a militarized brutal fashion shaped by decades of war and their Deobandi and Wahhabi education. The so called “Punjabi Taliban” is no such thing and even if it were, the fact that it’s called such is a clear indication that it’s an exception to the rule: it’s a Pashtun movement.
کامریڈ سین
That’s not even getting into the different factions and their priorities. The core Taliban are historically loyal to Pakistani interests in ruling a state that is Pashtun dominated yet will not threaten Pakistani territorial integrity. Pashtun nationalist but not irredentist. The neo-Taliban fighting on their behalf are anti American nationalists seeking to get foreigners out of the country. Their Pashtun nationalism may go beyond that of the leadership and they’re willing to be more independent minded than the core Taliban sheltering across the border on Quetta. The Pakistani Taliban are against the Pakistani state and accuse it of treachery for joining the war on terror.
None of this is to say Pashtuns are inherently evil or tribal or ultra conservative war mongering brutes. The history of 20th century Pashtun movements in both Afghanistan and the Subcontinent demonstrate otherwise. But 40 years of war, years of training by the CIA and the ISI and machinations of various states have allowed the Taliban to become the most coherent expression of Pashtun national politics available, even if they fall short of demands made by the more ideologically oriented Pashtun nationalists.
As for Afghan women, years of war and jihadi influence (initiated by the US and its allies) have created the abysmal situation they are in these days. Only ending the war and creating a regional settlement between all its neighbors will allow any real change. Whether that will happen, idk. But maintaining a US presence there will not make things better there.”
ایک پوسٹ سے
کامریڈ رے
یعنی اب بنیادی انسانی حقوق بھی قابل بحث
ہو گئے. اب ہم "کس کو کیا آزادی ہو” سے "کیا آزادی ہے” پر آگئے
کامریڈ سین
بات ہمیشہ کیا آزادی ہے، سے شروع ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہیے تک جاتی ہے۔
کامریڈ رے
یعنی طالبان کا جو سماج کا تصور ہے وہ اس لیے تسلیم کر لیا جائے کیونکہ سماج ایسا ہے. پشتون روایت میں عورت گھر میں اچھی، اقلیتیں مسلمان اچھی اور فرقوں کا کوئی وجود نہیں، جدید تعلیم کفر ہے. یہ سب روایت اور عدم فراہمی کی وجہ قرار دے کر ہم طالبان کے تصور معاشرت کو تسلیم کر لیں؟ پھر مارکسی ترقی کا تصور تو یقینا جاگیردارانہ ہی رہنا چاہیے کہ سرمایہ داری سے قبل یہی رواج تھا اور جدید تعلیم، برابری کا تصور کو سماج میں عدم استحکام پیدا کرتا تھا.
مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ طالبان کو سامراج دشمن قرار دیتے ہیں وہی دراصل طالبان کی طرح قدامت پرست(کنزرویٹو) ہیں- اور سرمایہ دارانہ ترقی پہ تنقید کو اپنی قدامت پرستی کے لیے ڈھال بنالیتے ہیں۔ ان کے ںزدیک تمام سرمایہ دارانہ ترقی انسانی تباہی کا سبب ہے۔ جبکہ سرمایہ داری مارکس کے نزدیک جاگیرداری سے زیادہ آزادی بخش ہے۔لیکن یہ جس نہج پہ پہنچ چگی ہے وہاں سے انسانیت کی مزید ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے مزدور طبقہ کا انقلاب ضروری ہے۔ اسی لیے مارکس ازم جدید ہے ناکہ قدامت پرست نہیں
کامریڈ سین
مارکس کا ہیرو اسپارٹیکس تھا!
کامریڈ سین
‘Those who sold us the war kept their megaphones, a reward for their service to empire and the military-industrial complex. It did not matter how cynical or foolish they were.’
Chris Heges
کامریڈ رے
ابھی ایک امریکی رکن کانگریس ڈیموکریٹ کہہ رہا تھا کہ ویسے بھی افغانستان کا بڑے حصے پر غنی کا کنٹرول نہ تھا، یا تو یہ طالبان کے زیر اثر تھے یا دوستم ہزارہ شمالی اتحاد. جو غنی اتحادی تھے وہ مرکز کی نہ سنتے اور یوں افغانستان میں کوئی ایسا مرکز نہ تھا جو لڑائی جیتنے کا عزم رکھتا. اسنے کہا کہ تبھی جب امریکی انخلاء شروع ہوا تو ہوا کا رخ دیکھ کر علاقائی رہنما طالبان سے سمجھوتے کرتے گئے اس لیے مزاحمت بھی نہ ہوئی. میرا خیال یہی رہا ہے کہ ہم افغانستان کی سرمایہ دارانہ نوعیت کو سمجھیں، ملکوں کی طرح پارٹیاں، طبقے، گروہ، گوریلا، محلے اور حتہ کہ افراد کی اصل سرمایہ دارانہ نوعیت بھی کسی تنازعہ میں ابھر آتی ہے. اس لیے کامریڈز یہ وقت اس کا نہیں کہ کون جنگ جیت رہا یا حکومت بنا رہا. بلکہ یہی وقت یے کہ ہم توجہ سے بدلتے حالات کو ٹی وی، رپورٹوں اور براہ راست افغان عوام کے تاثرات سے سمجھیں اور جانیں کہ کون سا معاشی طبقہ فعال ہے، کون آگے آ رہا ہے کون لڑ رہا ہے. فل حال جو سامنے ہے وہ یہ کہ پلانٹڈ ترقی، جس کا یاں ہمارے کئی پختون کامریڈز بار بار چرچا کرتے رہے، اس ترقی نے سرمایہ دارانہ سطح پر صرف
Parasites
پیدا کیے
جو سامراج کی موجودگی میں تو لڑتے رہے لیکن سامراج کے جاتے ہی انہوں نے بھی اپنا بوریا بسترا سمیٹ لیا. یعنی یہ کوئی خاص طبقاتی غلبہ، گرامسکی کے سنس میں
hegamony
نہیں رکھتے تھے اور ایک انتہائی پسماندہ ملک جو قالین، ڈرائی فروٹ اور جڑی بوٹی پیدا کر کے ڈالر کما سکتا ہو وہ کسی بھی طور پر اب بھی ایک پسماندہ سرمایہ دارانہ ریاست سے زیادہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں علاقوں پر جتھوں کا قبضہ امریکی دور میں بھی رہا. جو المیہ افغانستان کا ہے وہ یہ کہ یہ اب بھی عمومی طور پر ایک دستکار، چھوٹے زمیندار والا خطہ ہے جو جدید سنس میں ملک نہیں. جبکہ امریکی و سامراجی پراپیگنڈا یہی تھا کہ یہاں بڑی ترقی ہوئی، سڑکیں پل بنے، سروسز ہیں، اسکول، ہسپتال، این جی اوز، فوج ہے. لیکن جس چیز کی جدید دور میں کسی پسماندہ ملک کو ضرورت ہوتی ہے وہ اکنامک سرپلس یعنی وہ ویلیو ایڈیشن جو سرمایہ دارانہ طرز پر ہو جس سے کسی خطہ میں بورژوازی ابھرے اور یہ عوام کو کچھ دے اور محنت کشوں کو دبائے رکھنے کے لیے ان پر تشدد کا انتظام کرے اور تمام استحصال و جبر کرنے والوں کو ایک ریاستی نظام میں مجموعی بالا دستی کا احساس فراہم کرے. ایسا افغانستان میں شاید 70 کی دہائی تک کچھ ہوا ہو اس کے بعد تو اس مصیبت زدہ ملک کو نہ آزادی ملی نہ مہلت. اسی لیے افغانستان میں سرمایہ دارانہ حکومت نہیں بلکہ بار بار مواقع ابھرتے ہیں کہ محنت کش اور جبر کا شکار مل کر اقتدار حاصل کریں اور جب ایسا نہ ہو تو اس خلاء کو مذہبی، فرقہ وارانہ، نسل پرست لوئیر مڈل کلاس پر کر دیتی ہے اور اگر یہ طالبان کی طرح سامراجی قوت کو چیلنج کرے تو اس پر حملہ آوروں کا ساتھ مڈل کلاس اور بڑے کاروباری دیتے ہیں. افغانستان کے کچلے ہوئے، فرقوں، مذاہب، محنت کشوں کو جڑنا ہو گا. نہ ملائیت مسائل کا حل ہے نہ سامراجی کاسہ لیسی.
کامریڈ سین
Twenty years on, the West’s "War on Terror” in Afghanistan is ending in abject defeat for the United States and its allies.
For those twenty years, we have been part of the anti-war movement that warned that occupation could bring no lasting peace and no positive change to Afghanistan.
Here’s an article from our archives that looks at the roots of the Taliban in the failure of the Afghan left to oppose the Soviet and Western occupations.
یہ بھی پڑھیے:
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر