رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد میں اب ایسی محفلیں بہت کم ہوتی ہیں جہاں تین چار لوگ جن کے نظریات ایک دوسرے سے نہ ملتے ہوں وہ بھی ایک جگہ بیٹھ کر بات کر سکیں‘ اچھا کھانا کھا سکیں‘ رات دیر تک گپ شپ سے لطف اندوز ہوسکیں۔
بدلتی دنیا میں پچھلے کچھ برسوں سے انسانی تعلقات اور روایات میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ اب ایک دوسرے کے نظریات و خیالات کو برداشت کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا ہے۔ جب سے سوشل میڈیا اور اس سے پہلے چینلز کی بھرمار ہوئی اور ٹاک شوز نے اپنے رنگ جمانے شروع کئے‘ دوستیاں تو چھوٹیں رشتہ داریاں تک متاثر ہوئیں۔ سوشل میڈیا نے بہت سے دوست اور دوستیاں ختم کرائیں‘ برداشت کا مادہ ختم ہوا۔ کسی کی بات اچھی نہیں لگی تو ٹوئٹر یا فیس بک پر ہی کھری کھری سنائی۔ یہ رواج چل نکلا کہ دوستی جائے لیکن فقرہ نہ جائے۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ کتنی دوستیاں اور تعلقات محض نظریات اور پروفیشن کی وجہ سے قربان کرنے پڑے۔ بڑے بڑے لوگوں سے ملنا جلنا ختم ہوا۔ شہر میں کسی محفل کے اٹینڈ کرنے کے قابل نہ رہے کہ وہاں سخت سیاسی بحث چھڑ جاتی ہے یا آپ کے فائل کئے سکینڈل کا کوئی متاثرہ بڑا بندہ نکل آتا ہے۔ اکثر کہتا ہوں کہ اب یہ حالت ہے کہ اسلام آباد میں آدھے شہر سے میں نہیں ملنا چاہتا اور آدھا شہر مجھ سے نہیں ملنا چاہتا ‘لہٰذا بہتر ہے کہ چند مخصوص دوستوں تک ہی زندگی محدود کر دی جائے تاکہ میزبانوں کو مسئلہ نہ ہو۔اب میزبان بھی مہمان بلانے سے پہلے پوچھتا ہے کہ فلاں کو بلا رہا ہوں آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں اس سے۔ یقینا اُس سے بھی پوچھا جاتا ہوگا۔یوں سوشل میڈیا اور معاشرے میں سیاسی اختلافات کا ذاتی اختلافات کی شکل اختیار کرنا سماجی اکٹھ یا محفلوں کیلئے قاتل ثابت ہوا‘لیکن داد دینا پڑے گی ہمارے ون اینڈ اونلی میجر عامر کو جو کسی سے پوچھے بغیر شیر اور بکری کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پلاتے ہیں اور مجال ہے محفل میں کوئی بدمزگی پیدا ہو۔ ابھی دیکھ لیں کہ انہوں نے ایک رات پہلے اپنے گھر پر دوستوں کی محفل رکھی جس کا مقصد شاہد صدیقی صاحب کی الوداعی پارٹی تھا جس میں مختلف نظریات کے لوگ شامل تھے جو ویسے ایک چھت تلے جمع نہ ہوسکتے۔میجر عامر کے دل کی طرح ان کا دستر خوان اور باتیں بھی دل کش ہیں۔
شاہد صدیقی صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور اب وہ اسلام آباد چھوڑ کر لاہور شفٹ ہورہے ہیں۔ ہم سب دوست اداس ہیں کیونکہ شاہد صدیقی نے جس طرح اسلام آباد کے خشک کلچر میں جان ڈالی تھی وہ اپنی جگہ بڑا کارنامہ تھا۔ انہوں نے اوپن یونیورسٹی کے کلچر کو ایسا بدل کر رکھ دیا کہ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی بندہ صرف چار برسوں میں اتنے کام کرسکتا ہے۔ یونیورسٹی میں کتابوں کے میلے لگنا شروع ہوئے (مجھے اچھے لگتے کہ وہاں گرم گرم جلیبیاں بھی مل جاتی تھیں) ‘ یونیورسٹی میں سیمینارز اور لیکچرز کا اہتمام ہوا۔ بڑے بڑے صحافی اور دانشور‘ شاعر اور ادیب یونیورسٹی جا کر طالب علموں سے مذاکرے کرنے لگے۔ کراچی سے شکیل عادل زادہ جیسے لوگ مہمان خصوصی بن کر تشریف لانے لگے۔ ان کے یونیورسٹی سے جانے کے بعد مجال ہے کسی کو پتہ ہو کہ اس شہر میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بھی ہے جہاں میلے لگتے تھے‘ محفلیں جمتی تھیں‘ مذاکرے ہوتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ادارے مضبوط کرو‘ لیکن ادارے انسانوں سے مضبوط ہوتے ہیں۔ شاہد صدیقی وائس چانسلر تھے تو ادارہ کھڑا کر دیا‘ وہ چلے گئے تو ادارے کو شاید ہی اب شہر میں کوئی جانتا ہو۔ میرے بس میں ہوتا تو شاہد صدیقی کو تاحیات علامہ اوپن یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگاتا تاکہ ایسے ادارے کبھی زوال پذیر نہ ہوں۔
اب میجر عامر نے انکی الوداعی دعوت رکھی تھی جس میں انہوں نے چند اہم لوگوں کو بلایا ہوا تھا اور رات گئے تک محفل جمی۔ سینیٹر مشاہد حسین سید‘ حامد میر‘ پروفیسر طاہر ملک‘ قدوائی صاحب ‘ جرنلسٹ طارق عزیز‘ پشاور کے نامور دو صحافی ناصر علی سید‘ آصف ناصر اور کچھ قریبی دوست بھی شریک ہوئے۔ اب مشاہد حسین ہوں‘ میجر عامر‘ قدوائی صاحب یا حامد میر اِن سب نے پاکستان میں بہت سی حکومتیں بنتے گرتے دیکھی ہیں۔ محلاتی سازشوں کو قریب سے دیکھا ہے لہٰذا ہر ایک کے پاس اہم واقعات کی وہ تفصیلات ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جائے۔مشاہد حسین پر تنقید ہوتی رہتی ہے‘ میں بھی کرتا رہتا ہوں لیکن ایک بات کی داد دینا پڑے گی کہ وہ کسی محفل میں موجود ہوں تو آپ بور نہیں ہوسکتے۔ ان کے پاس بے شمار تاریخی‘ سیاسی واقعات ہیں جو وہ سناتے رہیں اور آپ سنتے رہیں۔ انکی یادداشت کمال کی ہے۔ کہنے لگے: یہ یادداشت کا تحفہ انہیں جینز میں اپنے والد سے ملا تھا جو کوئی بات نہیں بھولتے تھے۔ مشاہد حسین ہی وہ بندے تھے جنہوں نے 1993ء میں وزیراعظم نواز شریف کو صدر اسحاق خان کے خلاف ڈٹ جانے کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد نواز شریف نے وہ تقریر کی تھی کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے اور لیڈر بن گئے تھے۔ مشاہد حسین کے پاس بہت سے سیاسی اور تاریخی راز ہیں جس پر ہم سب کا اصرار تھا کہ وہ اپنی یادداشتیں لکھیں تاکہ اگلی نسل کو حقائق کا پتہ چلے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں ٹائمنگ‘ خود اعتمادی اور رسک لینے کی صلاحیت ہی کام آتی ہے۔ میجر عامر نے بھی یہی بات کی کہ اگروقت پر فیصلہ نہیں کرسکتے تو پھر آپ رہ جاتے ہیں۔
اسی محفل میں انکشاف کیا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ ڈان لیکس پر ڈٹ جائیں لیکن وہ لیٹ گئے۔ انکوائری آرڈر کی اور اپنی آدھی کابینہ اور اسلام آباد کے دو درجن صحافیوں اور سرکاری افسران کی انکوائری کرائی اور ڈان اخبار کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا۔ جس رپورٹر نے وہ خبر دی تھی اس کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا اور اپنے دو وزیروں‘ پرویز رشید اور طارق فاطمی کو برطرف کیا۔ اس کے باوجود جب بات نہ بنی اور برطرف ہو کر گھر جا بیٹھے تو اسی اخبار کے رپورٹر کو بلا کر نہ صرف ڈان لیکس کی تصدیق کی بلکہ بڑھ چڑھ کر مزید انکشافات بھی کیے۔ جب ان کے پاس وقت تھا‘ طاقت تھی کہ وہ ڈٹ جاتے اُس وقت وہ ڈان اخبار‘ اس کے رپورٹر اور اپنے وزیروں کے خلاف کارروائیاں کررہے تھے۔ اس پر اس محفل میں کسی نے لقمہ دیا کہ نواز شریف کے بارے مشہور ہے کہ وہ بڑے شوق سے لڑائی شروع تو کر لیتے ہیں لیکن پھر اس لڑائی کو اپنی مرضی کا انجام نہیں دے سکتے۔ نواز شریف کو ہر مکا لڑائی کے بعد یاد آتا ہے۔ انہیں ڈان لیکس کی لڑائی بھی وزیراعظم کی پوسٹ سے برطرف ہونے کے بعد یاد آئی۔
اس شاندار محفل میں بہت راز و نیاز کی باتیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک بات کی تو تصدیق ہوئی کہ شہباز شریف کی ایک عرب ملک کی حمایت سے 2018ء کے الیکشن کے بعد وزیراعظم بننے کی ڈیل فائنل تھی۔ یہ ڈیل ایک عرب ملک کا شہزادہ کررہا تھا۔نواز شریف مریم نواز نے لندن میں رہنا تھا۔ وطن واپسی پر نواز شریف نے محمود خان اچکزئی سے ملاقات کے بعد مقتدر حلقوں کے خلاف پریس کانفرنس میں سخت باتیں کر دیں تو ڈیل ختم ہوگئی اور عمران خان کی لاٹری نکل آئی‘ ورنہ معاملات تقریباً طے تھے۔ وہی بات جو ہمارے دوست سہیل وڑائچ نے کالم میں لکھی تھی کہ شہباز شریف نے اپنی کابینہ کے وزیروں کی لسٹ تک فیصلہ ساز اداروں سے کلیئر کرا لی تھی۔ اس محفل میں باتیں تو بہت ہوئیں‘ ایسی کہ دماغ کی بتی جل جائے لیکن مشاہد حسین سید نے کمال بات کی کہ زندگی خوبصورت ہے اگر رات کو سونے کے لیے نیند کی گولی نہیں لینا پڑتی اور آپ دن میں چند قہقہے لگا سکتے ہیں۔مجھے مشاہد حسین سید کی یہ بات سن کر امریکی ادیب مارک ٹوئن کی بات یاد آئی کہ اچھی کتابیں ہوں‘ اچھے دوست ہوں لیکن ضمیر مردہ ہو تو زندگی بہت خوبصورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر