عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرکٹ کے علاوہ بھی کھیل ہوتے ہیں، ہاکی صرف مارنے کے لیے نہیں رکھتے، فٹ بال صرف لیاری میں ڈاکومینٹری بنانے کے لیے نہیں کھیلی جاتی، مکے صرف لڑائی میں نہیں برساتے اور دوڑ صرف چور نہیں لگاتے یہ بھی کھیل ہیں۔ کرکٹ کی چکاچوند سے پرے کھیل کے اور بھی کئی میدان ہیں۔
یہ کھیل صرف کھیل نہیں، ان سے ملک و قوم کی عزت بڑھتی ہے، مثبت خبروں میں ملک کا نام آتا ہے، پیسہ آتا ہے، سپورٹس ٹورزم بڑھتی ہے۔ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے سوشل میڈیا پہ وقت کی بربادی کے علاوہ اور بھی میدان نظر آتے ہیں۔
لیکن دنیا نے دیکھا اولمپکس میں پاکستان کی تیاری، پاکستان کے کھلاڑی، ان کی کارکردگی کتنی کمزور نظر آئی۔ تو بات یہ ہے کہ میڈلز صرف قوم کی دعاوں سے نہیں جیتے جاتے، برسوں کی محنت بولتی ہے۔
پاکستان کا میڈیا ہر اولمپکس کا موسم شروع ہوتے ہی ایسی رومانوی کہانیاں سنانا شروع کر دیتا ہے کہ فلاں کھلاڑی کے پاس پہننے کے جوتے نہیں تھے آج وہ اولمپئین ہے۔ فلاں بےچاری رکشے میں دھکے کھاتی ہوئی سپورٹس کمپلکس تک آتی تھی آج وہ اولمپئین ہے۔ کیا اولمپئین بننا کافی ہے یا چیمپئین بننے کی بھی کوئی خواہش ہے، اور کیا صرف خواہش کر لینا ہی کافی ہے؟
پاکستان کی قومی فٹ بال ٹیم کے سابق کھلاڑی یونس خان پیرس کے مستقل مکین ہیں اور یورپ میں صحافت کو اب بطور پیشہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یونس خان کے بقول ’جب وہ فٹ بال ٹیم میں تھے تو سپورٹس کمپلکس اسلام آباد میں ہونے والے تربیتی سیشنز میں واجبی کھانا ملتا تھا، یہاں تک کہ کھلاڑیوں کو دن میں ایک ڈبہ دودھ ملتا تھا جسے لے کر آب پارہ مارکیٹ جاتے اور وہاں جوس سینٹر والوں سے اس کا ملک شیک بنواتے۔‘
میں یونس خان سے کھلاڑیوں کو ملنے والی تکنیکی سہولیات پر سوال پوچھنے ہی والی تھی مگر کھلاڑیوں کی روٹی پانی جیسے بنیادی ضرورت تو پوری ہو لے۔ کہنے لگے ’کھلاڑی کو میدان میں پرفارم تو کرنا ہے مگر ساتھ اسے گھر بھی دیکھنا ہے، نوکری کی فکر ہوتی ہے، خرچے پورے کرنے ہیں، کھیل کا خرچہ تو الگ ہے، اپنی صحت کو دیکھنا ہے، قوم کی عزت بنانے والوں کو اپنی دال روٹی کی فکر ہوتی ہے۔‘
پاکستان میں کھیلوں میں آنے والا ٹیلنٹ اکثر چھوٹے گاوں قصبوں سے آتا ہے۔ یہ امیر گھرانوں کے بچے نہیں ہوتے، یہ پہلے ہی معاشی چیلنج کا سامنا کرکے قومی لیول تک ابھرتے ہیں جہاں ان کے ٹیلنٹ کو مزید نکھارنے کے لیے سہولیات ملنی چاہیے۔ ہونے کو تو کیا نہیں ہونا چاہیے، مگر ہو کیا رہا ہے۔
یونس خان کے پاس سنانے کو کئی کہانیاں تھیں جیسے کہ پاکستانی فٹ بال کے سابق کوچ ڈیو برنس اور جان لیٹن کے دور میں پاکستان نے سیف گیمز میں دو گولڈ میڈل سمیٹے۔ ’ان کوچز کو تنخواہیں فیفا دیتی تھی، اور یہ اپنی تنخواہ سے کھلاڑیوں کی مدد کرتے تھے یہاں تک کہ انہیں فٹ بال کھیلنے کے جوتے تک خرید کر دیئے۔ یہ ان کوچز میں سے تھے جو سفارشی کھلاڑی قبول نہیں کرتے تھے سو بے آبرو کرکے نکالے گئے۔‘
میں تصور کر رہی تھی کہ اگر کھلاڑی کے پاس درست ساز وسامان نہیں ہوگا تو وہ پرفارم کیا خاک کرے گا۔ سہولیات کا ایسا ہی فقدان ہے تو یہ درجنوں فیڈریشنز اور ان کے سینکڑوں آفیشلز کیا کرتے ہیں، فٹ بال فیڈریشن، ہاکی فیڈریشن، باکسنگ فیڈریشن وغیرہ وغیرہ یہ سب کس درد کی دوا ہیں؟
یونس خان کے مطابق پاکستان میں غیر روایتی کھیلوں میں بہتر پرفارمنس کی کنجی انہیں فیڈریشنز اور سپورٹس بورڈ کے پاس ہے۔ ان اداروں کا محور و مرکز کھیل، کھلاڑی، کھلاڑی کی معاشی سپورٹ، ٹریننگ اور رزلٹ ہوں گے تو کامیابی ہوگی ورنہ فیڈریشنز کی سیاست تو پہلے ہی ترجیحات میں نمبر ون ہے۔
کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے نہ پنپنے کے پیچھے جہاں اور کئی عوامل ہیں وہیں خود ہم میڈیا والوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ مقبولیت میں کرکٹ تو خیر بلامقابلہ نمبر ون ہے اس سے شکوہ نہیں مگر دیگر کھیلوں، کھلاڑیوں، ان کی ہار جیت، مسائل، بائیو گرافی، خوشیوں، سلیکشن، ریجکشن کچھ بھی تو میڈیا پر نہیں آتا۔
سپورٹس جرنلسٹ التمش جیوا ایسے ہی کھلاڑیوں اور ان کے کارناموں پہ کام کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے دنیا میں اپنا نام بنایا مگر پاکستانیوں نے فراموش کر دیا۔ جیسے فلائنگ برڈ آف ایشیا عبدالخالق جنہوں نے درجنوں سونے کے تمغے جیتے یا پھر ایشیا کے نمبر ون رہنے والے پاکستانی ٹینس سٹار ہارون رحیم۔
جیوا کو لگتا ہے پاکستان میں غیرمعروف کھیلوں کا احیا ممکن ہے اگر ہم ماضی کے پاکستانی عالمی نامور کھلاڑیوں اور ان کی کامیابی کو میڈیا پر لائیں، ان کی زندگی پر فلمیں بنیں، ہماری درسی کتب میں ان کی کہانی شامل ہو۔ دعا ہے التمش جیوا کا یہ خواب پورا ہو، فی الحال تو بس کرکٹ ہے اور چوکے چھکے۔
یہ تو بھلا ہو اولمپکس کا ورنہ کتنے پاکستانیوں کو علم تھا کہ جیولین تھرو بھی کوئی کھیل ہے اور اس میں کسی پاکستانی ارشد ندیم کا بھی کوئی نام اور کام ہے۔ سکوائش میں ہم برسوں چیمپئین رہے اب اس کا نام نہیں سنتے، پاکستان ہاکی کا نوحہ تو خیر سے کئی پڑھ چکے۔
باکسنگ میں ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے لیکن پوچھتا کوئی نہیں۔ ٹیبل ٹینس، تھرو بال، دوڑ، تیراکی ایسے درجنوں کھیل ہیں جن کا قدرتی ٹیلنٹ پاکستان میں موجود ہے، پر اتنا وقت کس کے پاس دھرا ہے کہ ان کھیلوں کو بھی دیکھے، پوچھے۔
پبلک دیکھنا اس کھیل کو چاہتی ہے جس میں اپنے ملک کے کھلاڑی کھیلیں، میڈل چاہے نہ جیتیں مگر مقابلہ تو کریں۔ جہاں یہ یقین ہو کہ عالمی مقابلوں میں ہمارا دستہ نیچے سے نمبر ون ہی آئے گا تو وہ سارا سال ایسے کھیلوں کو کوئی کیوں دیکھے۔لے دے کہ ایک کرکٹ ہی رہ گئی ہے جہاں ہم جیت جاتے ہیں۔
ہمارا سپورٹس بورڈ، درجنوں فیڈریشنز، پاکستانی ایتھلیٹکس، اولمپکس کے ادارے سب اگر اسی ڈگر پہ چلتے رہے تو آئیے ہم سب مل کر اگلے اولمپکس تک جو کر سکتے ہیں وہی کرتے ہیں یعنی دعا ’یا اللہ کوئی معجزہ ہو جائے، پاکستان جیت جائے۔‘
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکاہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر