نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی ماہ قبل عمران خان صاحب جب کشمیر کا مقدمہ لڑنے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تشریف لے گئے تھے تو وطن واپسی کے لئے جہاز میں بیٹھتے ہی ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کو اس عالمی ادارے میں پاکستان کی مستقل مندوب کے عہدے سے فارغ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ان کی جگہ منیر اکرم صاحب تعینات ہوئے۔وہ اس سے قبل بھی کئی برسوں تک اس عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔وزارت خارجہ کے بے شمار ریٹائرڈ ہوئے سینئر افسر جن کی رائے کا میں بہت احترام کرتا ہوں منیر اکرم صاحب کو بہت دھانسو سفارت کار شمار کرتے ہیں۔شنید ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے قواعد وضوابط اور روایات کے حتمی ماہر ہیں۔اپنی ذہانت اور ذاتی تعلقات کو ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کا مؤقف اس ادارے کے مختلف فورموں سے جاندار انداز میں پیش کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال۔
۔اس اجلاس میں ہوئی تقاریر لائیو دکھائی جارہی تھیں۔میں نے آغاز سے انجام تک مذکورہ اجلاس میں ہوئی ہر تقریر کو بہت غور سے سنا۔۔ مذکورہ اجلاس دیکھتے ہوئے مجھے گماں رہا کہ پاکستان کو بھی اپنا مؤقف بیان کرنے کا وقت ملے گا۔ہمارے مندوب مگر وہاں موجود ہی نہیں تھے۔
ہمارا ہر موسم کا دوست یعنی چین مگر سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔اس کے پاس ویٹو کا اختیار بھی ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے مستقل مندوب نے جمعہ کے روز ہوئے اجلاس سے قبل چین کے مستقل مندوب سے ملاقات کے بعد ان سے پاکستان کو مذکورہ اجلاس کے دوران اپنا موقف بیان کرنے کا موقع حاصل کرنے کے لئے اثرورسوخ استعمال کرنے کی درخواست کی یا نہیں۔گزشتہ کئی ماہ سے ہمیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ چین کے علاوہ کئی برسوں تک بھارت کے قریب ترین رہا روس بھی ان دنوں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے موقف کا کٹر حامی ہے۔روس بھی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کا حامل مستقل رکن ہے۔ روس اور چین کے اس ادارے میں مستقل مندوب اگر پاکستان کا موقف سنے جانے کو اصرار کرتے تو بھارت سے تعلق رکھنے والے ان دنوں سلامتی کونسل کے سربراہ کے لئے انکار کی گنجائش ہی باقی نہ رہتی۔
میرے ذہن میں آئے سوالات کا جواب مگر ہمارے دھانسو شمار ہوتے سفارت کار فراہم کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کریں گے۔صحافی ان کی دانست میں جاہل،غیر ذمہ داری اور لفافے ہوا کرتے ہیں۔ہم ’’منشیوں‘‘ کو ’’قومی سلامتی امور‘‘ کی نزاکتوں کے تناظر میں سادہ لوح شمار کیا جاتا ہے۔ہمارے قومی مفادات کے نگہبان حلقے تو اکثر صحافیوں کو پاکستان کے ان دشمنوں کے آلہ کار بھی تصور کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان پر گزشتہ کئی دنوں سے ففتھ جنریشن وا ر مسلط کررکھی ہے۔ایسے حالات میں دیانت دارانہ سوالات اٹھانے سے بھی خوف آتا ہے۔ہرملک کی تاریخ میں تاہم ایسے کئی مقامات آتے ہیں جہاں حالات کی سنگینی کو جانتے ہوئے بھی دانستہ اختیار کردہ خاموشی قابل معافی نہیں رہتی۔میں نہایت فکر مندی سے مصر ہوں کہ افغانستان ان دنوں جس جانب انتہائی تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ پرخلوص غوروفکر اور دیانت دارانہ مباحثے کا متقاضی ہے۔
افغانستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب نے جو بھی کہا فی الوقت اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔میرے لئے اس روز چین کے مستقل مندوب کی جانب سے ہوئی تقریر کہیں زیادہ پریشان کن تھی۔ان کی تقریر واضح عندیہ دے رہی تھی کہ افغانستان میں ’’مشرقی ترکستان‘‘ کے نام سے بنائی ایک تنظیم بھی متحرک ہے۔مذکورہ تنظیم کو چین اپنے مسلم اکثریتی والے سنکیانگ میں تخریب کاری کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔چینی حکومت نے داسو میں ہوئے ایک حالیہ واقعہ کی اس تنظیم سے رشتے بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی داسو کے حوالے سے اپنی تشویش سے پاکستان کو آگاہ کردیا ہے۔
مذکورہ تناظر میں ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا پر ان خدشات کا ذکر ہی نظر نہیں آتا جو واخان کی پٹی پر طالبان کے قبضے نے چینی فیصلہ سازوں کے ذہنوں میں اجاگر کئے ہیں۔واخان کیا ہے یہ جاننے کے لئے نقشے سے رجوع کرلیا جائے۔اس کے بعد تاجکستان کو ذہن میں لائیں۔ہمارا چترال بھی اسی پٹی کی وجہ سے آپ کے ذہن میں آنا چاہیے اور وہاں سے چلتے ہوئے گلگت کے بارے میں سوچیں۔ان علاقوں میں اگر چین مخالف مذہبی انتہا پسندی فروغ پاتی محسوس ہو تو سی پیک کا مستقبل یقینا خطرے میں نظر آئے گا۔
جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا جو اجلاس ہوا ہے اس سے خطاب کرتے ہوئے ہر ملک کے مندوب نے یکسوہوکر اصرار کیا کہ طالبان فی الفور افغان شہروں کی جانب پیش قدمی روک دیں۔طالبان اس کے لئے آمادہ نہیں۔اسی باعث سلامتی کونسل کے اجلاس کے چند ہی لمحوں بعد امریکی فضائیہ نے B-52جیسے جدید ترین طیاروں سے ان مقامات پر بمباری شروع کردی ہے جو طالبان کے قبضے میں جاچکے ہیں۔یوں گماں ہورہا ہے کہ امریکہ 31اگست تک ایسے فضائی حملوں کو شدت سے جاری رکھے گا۔یہ حملے طالبان کو مزید مشتعل کریں گے۔انہیں فوری جنگ بندی کے بعد لہٰذا مذاکرات کی میز پر لوٹنے کو مجبور نہیں کیا جاسکے گا۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر