حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے برس کورونا کی پہلی اور دوسری لہر جن پیاروں کو نگل گئی ان میں استاد مکرم سید حیدر عباس گردیزی، ہمارے بزرگوار الحاج ملک شفقت بھٹہ، سید زاہد حسین شمسی بھی شامل ہیں۔
سیدی حیدر عباس گردیزی سے ہمارا تعارف 1970ء کے وسط سے ایک دو برس بعد ہوا۔ تعارف کا ذریعہ بلوچ لالہ عمر علی خان بلوچ بنے۔ سفر حیات میں ایسا ہوتا ہے کہ آپ اور ہم کسی سے کسی کے توسط سے متعارف ہوتے ہیں اور پھر یہ تعارف ایک نئے تعلق کی بنیاد بن جاتا ہے۔
اندرون بوہڑ گیٹ میں محلہ شاہ گردیز والی اس طویل گلی کی کچھ یادیں اور بھی ہیں ان میں مرحوم و مغفور قبلہ مفتی عنایت علی شاہؒ اور سید ناصر عباس گردیزی بھی شامل ہیں۔
مفتی صاحب قبلہ نے طالب علم کو ہمیشہ مکتب بو ترابؑ کے حوالے سے اٹھائے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا۔ بسا اوقات سوالات کڑوے ہوتے تھے مگر انکے چہرے پر مسکراہٹ ہمیشہ تازہ رہتی۔
سید ناصر عباس گردیزی خدا ان کی مغفرت کرے یاروں کے یار تھے مکتبی حوالے سے اب ان کے وارث ان کے برادر عزیز سید علی رضا گردیزی ہیں۔
یادداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو سیدی حیدر عباس گردیزی سے اولین ملاقات ان کی قیام گاہ پر ہی ہوئی۔ عمر علی خان بلوچ نے ان کے والد بزرگوار سید حسن رضا گردیزی کا اپنے ماہنامہ ’’سرائیکی ادب‘‘ کے لئے انٹرویو کرنا تھا۔ وقت سے کچھ دیر پہلے ہم دونوں ان کی قیام گاہ پر پہنچے۔ سید حسن رضا گردیزی مرحوم کے انتظار کے لمحوں میں ان کے صاحبزادے سیدی حیدر عباس گردیزی سے تعارف ہوا، ان برسوں میں آتش جواں تھا اور خوب جواں
ان کا عصری موضوعات پر مطالعہ بھی شاندار تھا۔ یہی ملاقات مستقل تعلق کی بنیاد رکھ گئی پھر پتہ نہیں کب انہوں نے دوست سے استاد کا درجہ حاصل کرلیا۔
سچ یہ ہے کہ اس طالب علم نے ان سے بہت کچھ سیکھا رسمی عقیدوں سے بغاوت تو پہلے سے ہی کررکھی تھی لیکن ہمارے استاد مکرم کو حیرانی اس بات پر تھی کہ سوالات کرنے اور بحث اٹھانے والا دوست نما شاگرد یا شاگرد نما دوست ملتان کی معروف عالمہ اور خطیبہ سیدہ عاشو بی بی وعظ والی کا فرزند ہے۔
کبھی کبھی استاد اپنے شاگرد سے پوچھ بھی لیتے تھے ’’یار توں اے جیڑیاں گالیں کریندے تیکوں ڈرنی لگدا، یا یہ کہ تیکوں بی بی کج نی آہدے؟‘‘
استاد محترم کے توسط سے ہم رائو مہروز اختر، سید محمد قسور گردیزی اورسید ولایت حسین گردیزی سے متعارف ہوئے۔
بعد کے برسوں میں جب بھی کراچی سے ملتان آمد ہوئی ہم بلوچ لالہ (عمر علی خان بلوچ) کے ہاں کے علاوہ اگر کہیں سے دستیاب ہوسکتے تھے تو وہ سیدی حیدر عباس گردیزی کی قیام گاہ تھی۔
1981ء میں اپنی گرفتاری 83ء میں رہائی اور پھر تلاش رزق سے بندھی ہجرتوں کی بدولت ملاقاتوں میں طویل وقفے ہونے لگے۔
ان سے آخری ملاقات (ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ملاقات آخری ثابت ہوگی) پچھلے برس ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل اس ملاقات میں مرحوم علامہ رحمت اللہ طارقؒ کے فرزند اور ہمارے برادر عزیز میر احمد کامران مگسی بھی موجود تھے۔
اس ملاقات سے چند دن قبل ان کا فون آیا ہمیشہ کی طرح خیر خیریت دریافت کرچکنے پر دوسرا سوال تھا ملتان کب آرہے ہو۔ پھر تاکید کی کہ مجھے اطلاع کرکے آنا اس بار ایک لمبی نشست لازمی ہے۔
یہ ملاقات ہوئی اور خاصی طویل رہی۔ استاد شاگرد نے پچھلی صدی کی آخری تین دہائیوں کی ملاقاتوں، تبادلہ خیالات اور یادوں کوتازہ کیا۔ میر احمد کامران مگسی اس دوران بے ساختہ کہہ اٹھے
’’شاہ صاحبان یہ ساری باتیں ضبط تحریر میں لائی جانی ضروری ہیں یہ تو تاریخ ہے اس شہر کی‘‘۔
میں نے بھی ان کی خدمت میں عرض کیا اپنی یادداشتوں کو تحریر کیجئے۔ مسکراکر انہوں نے وعدہ کیا لیکن کورونا وبا کے بھیس میں دندناتی اجل انہیں لے رخصت ہوئی۔
سیدی حیدر عباس گردیزی جواں فکر روشن خیال صاحب مطالعہ اور عملیت پسند انسان تھے۔ اپنا سیاسی سفر انہوں نے جناب سید محمد قسور گردیزی کی سرپرستی میں نیشنل عوامی پارٹی سے شروع کیا۔ نیپ پر پابندی لگی تو شیرباز خان مزاری کی قائم کردہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ضلعی صدر بنے بعدازاں ایک مرحلہ پر پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے اور اسی جماعت کے ہوکر رہ گئے۔ طویل عرصہ تک پیپلزپارٹی کی فیڈرل کونسل کارکن رہنے کے علاوہ پی پی پی سرائیکی وسیب سٹڈی سرکل کے سربراہ بھی رہے۔
اس منصب کے حوالے سے انہوں نے نوجوانوں کی تربیتی نشستیں بھی منعقد کیں۔ گزرے برس کی آخری ملاقات میں وہ یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ ملتان سے روزنامہ ’’بدلتا زمانہ‘‘ کے اجرا کے موقع پر میں ابتدائی پانچ چھ ماہ ملتان میں ہی مقیم رہوں گا۔
سیدی، میں نے اور میر کامران نے ان پانچ چھ ماہ کے حوالے سے بڑے پروگرام بنائے۔ سرائیکی قومی سوال صوبہ کے حوالے سے سیمینار منعقد کرنے کا حتمی فیصلہ بھی ہوا لیکن سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ گئے۔
ایک دن ان کے سانحہ ارتحال کی خبر غم موصول ہوگئی۔ ہمارے مشترکہ دوست حارث اظہر نے مشورہ دیا کہ جس طرح کورونا وبا کا جن بے قابو ہے اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے سفر سے گریز کروں۔
یہ سطور لکھے جانے کے لگ بھگ 24گھنٹے بعد ہفتہ کی شام میں ملتان ٹی ہاوس میں سیدی حیدر عباس گردیزی کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ہورہا ہے ان کے سیاسی و سماجی دوست اور خاندان کے افراد سیدی کی یادیں تازہ کریں گے۔
لاریب اب یادیں ہی ہیں۔ پچھلے برس پھیلی کورونا وبا نے بہت سارے پیاروں سے محروم کردیا۔ یہ بجا کہ سفر حیات طے کرچکنے پر سبھی کو رخصت ہونا ہے کل وہ رخصت ہوئے آنے والی کل کون دیکھے یہ کس کو پتہ۔
سیدی حیدر عباس گردیزی ملتانیوں کی اس باشعور اور روشن فکر نسل کے نمائندے تھے جس نے چراغ سے چراغ جلانے کی روایت کو زندہ رکھا۔ لالہ عمر علی خان بلوچ، سید زمان جعفری، سید حسن رضا بخاری المعروف رضو شاہ، عطا اللہ ملک ،عزیز نیازی ایڈووکیٹ، عارف محمود قریشی ، عمر کمال خان ایڈووکیٹ، سید محمد قسور گردیزی اور بہت سارے دیگر مہربان گزشتہ برسوں میں دنیا سرائے سے پڑاو اٹھاکر رخصت ہوئے ان انسان دوست ملتانیوں کو بھی بھلا کوئی بھول سکتا ہے۔
حق تعالیٰ مغفرت فرمائے سیدی اور دیگر مرحومین کی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر