نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یاسر پیرزادہ کی بصیرت پر سوالیہ نشان!|| وجاہت مسعود

اس کے بعد کے مناظر پر بھی نظر رکھئے۔ پاکستان پر آمریت کا عذاب اترا۔ کیا دایاں اور کیا بایاں، کیا تعلیم یافتہ اور کیا ناخواندہ، کیا شہری اور کیا دیہاتی، تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برادرم یاسر پیرزادہ نے تو گویا بندگان ریا اور عباد المفاد کو خفیف کرنے پر کمر باندھ لی ہے۔ بندہ خدا نے صحافت کے شاہ سواروں کی فہرست اعمال قلم بند کر رکھی ہے۔ دن، مہینہ اور سال گنواتے ہیں، مو¿قف بیان کرتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں کہ یہ آپ کی کیسی بصیرت تھی جو حقائق کا احاطہ کرنے میں ناکام رہی۔ پاکستان کے شہریوں کا خون بہتا رہا، ہمارے فوجی جوانوں کے جسد خاکی کی بے حرمتی کی جاتی رہی، بچیوں کے اسکولوں سے شعلے اٹھتے رہے، ہمارے چوک قتل گاہ بنے، ہمارے بازاروں میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور بصیرت کے دعوے دار قیمتی عبائیں اوڑھے، پشمینے کی فرغل پہنے وطن کے دشمنوں کی وکالت کرتے رہے، رائے عامہ کو گمراہ کرتے رہے، حقائق کے سر میں دھول ڈالتے رہے، قوم کی آنکھوں میں مٹی جھونکتے رہے۔ یاسر پیرزادہ کو حیرت ہے کہ چودہ جون 2014 سے سولہ دسمبر 2016 تک عقل اور خرد کے یہ پتلے دھرنے کی دہلیز پر دھونی رمائے رہے تا آنکہ انہیں خبر ملی کہ ہوا کا رخ بدل گیا ہے۔ ان سیانوں نے اپنے لکھے پشتارے طاق میں رکھے اور آپریشن ضرب عضب کی حقانیت پر خوش خطی کی داد دینے لگے۔ یاسر پیرزادہ نوجوان ہے، وطن سے محبت کرتا ہے، قلم کی حرمت کے بارے میں حساس ہے اور اس نے ایک فوق العادت مفروضہ باندھ رکھا ہے کہ پیران تسمہ پا کے سینہ میں دل ہوتا ہے۔ ضمیر میں ایسی حرارت پائی جاتی ہے کہ چنگاری سے شعلہ اٹھنے کی توقع کی جاسکے۔ معصومیت کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اچھائی اگر ایسی ہی پیش پا افتادہ قوت ہوتی تو دنیا میں کمزور کا استحصال نہ ہوتا، سبز پتوں پر لہو کے لال دھبے نہ ہوتے۔ جنگوں میں انسانوں کے آشیانے نہ جلتے، انسانوں کی زندگی میں تعصب کا زہر نہ ہوتا۔ نیکی اور خیر کی قوتوں کو جہالت، مفاد اور بے بصیرتی سے مسلسل پنجہ آزمائی کرنا ہوتی ہے۔ عالیجاہ! آپ درست فرماتے ہیں ہم نے دس برس تک صحافت میں عبدالحلیم شرر کے دربارِ حرام پور کی تمثیل دیکھی۔ مگر یہ سانحہ تو ہماری نسلوں پر بار بار گزرا۔ آئیے آپ کو کچھ مناظر دکھاتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اقبال نام کے ایک ماہر قانون لاہور میں رہتے تھے۔ شعر بھی کہتے تھے، متوسط طبقے سے تعلق تھا۔ 1927 سے 1938 تک اقبال نامی درویش نے چند تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ پنجاب میں مسلم لیگ کا پرچم اٹھائے رکھا۔ اونچے شملے والے زمینداروں کی سیاسی جماعت یونینسٹ پارٹی حکومت کرتی رہی۔ پھر نواب اسمٰعیل اور اسکندر حیات میں سمجھوتہ ہوگیا۔ میر نور احمد ایک صحافی تھے۔ آپ نے نام سن رکھا ہوگا، ’مارشل لا سے مارشل لا تک‘ ان کی معروف کتاب ہے۔ میر نور احمد کے قلم میں پیسے اور اختیار کی روشنائی تھی۔ انہوں نے بالادست طبقے کے گٹھ جوڑ کو اسکندر جناح پیکٹ بنا کر فروخت کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح سے منسوب یہ پیکٹ ایسی عجیب دستاویز تھا جس پر فریقین کے دستخط ہی نہیں تھے۔ 1938 میں اقبال رخصت ہوگئے۔ دوسری عالمی جنگ چھ برس لڑے جانے کے بعد ختم ہوگئی۔ 1945 ءمیں اس خطے کے زمینداروں کا ضمیر جاگا اور وہ جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ جسے آج خطہ پاکستان کہا جاتا ہے یہاں کے مسلم لیگی رہنماؤں کی ایک فہرست بنائیے گا اور ایک جدول مرتب کیجئے کہ ملت کے مقدر کا کون سا ستارہ کب مسلم لیگ کے فرق عالیہ پر نمودار ہوا۔

اس دوران میں مذہب کے نام لیواؤں کی ایک بڑی جمیعت مطالبہ پاکستان کی مخالف تھی۔ کوئی احرار کہلاتا تھا تو کسی کو خاکساری کا دعویٰ تھا۔ کوئی زمیندار کا پھریرا لہراتا تھا تو کوئی انقلاب کا علم اٹھائے تھا۔ پاکستان بن گیا تو 1948 کا موسم گرما آتے آتے تقسیم ہند کے یہ سب مخالف پاکستان کے رہنما قرار پائے۔ کسی نے شیخ السلام کا لقب اختیار کیا تو کسی نے صالح قیادت کا پرچم اٹھا لیا، کسی نے شریعت گروپ تشکیل دیا تو کوئی وطن کی اساسی فکر کا نگہبان بن گیا۔ ہم نے فلک کو رنگ بدلتے کئی طور سے دیکھا۔ جو نا خوب تھا، خوب ہوا اور جو مردود تھا اسے مرغوب قرار پاتے دیکھا۔ ’لاکھوں جانوں کی قربانی‘ کی ترکیب تو آپ نے بھی سن رکھی ہوگی۔ ہمارے بزرگ بھی مشرقی پنجاب سے کٹتے ہوئے اٹاری پہنچے تھے۔ فسادات کا 3 جون کے منصوبے سے تعلق سمجھنا ہو تو کلکتہ اور نواکھلی کے فسادات کی تاریخوں کو بہار کے فسادات کے مقابل رکھئے۔ ٹیکسلا اور راولپنڈی کے فسادات کی تقویم کو امرتسر سے گڑگاؤں تک کے فسادات کے تقابل میں رکھئے۔ ریڈ کلف کی لائن میں تحصیل اور ضلع کی اکائی کا فرق سمجھئے۔ 1941 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر نظر رکھئے اور پھر سوال اٹھائیے کہ نعرہ تسکین دیتا ہے تو بصیرت کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر 73 سال کی پیرانہ سال قیادت پر حرف دشنام ارزاں کیا جاسکتا ہے تو صاحب ہم آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ کون سی دریدہ دہنی ہے جو قوم کے بانی کے ساتھ روا نہیں رکھی گئی۔ پنجاب میں ممدوٹ اور دولتانہ تھے، قائداعظم نے چھے ہفتے پنجاب کے گورنر ہاؤس میں قیام کیا تھا۔ اقتدار کی گتھی نہیں سلجھا سکے۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں کی تاریخ چشم کشا ہے اور تھالی کا بینگن ایک مفید مطلب ترکاری ہے۔

اس کے بعد کے مناظر پر بھی نظر رکھئے۔ پاکستان پر آمریت کا عذاب اترا۔ کیا دایاں اور کیا بایاں، کیا تعلیم یافتہ اور کیا ناخواندہ، کیا شہری اور کیا دیہاتی، تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ جو مٹھی بھر بولتے تھے وہی گردن زدنی تھے، ملک دشمن تھے، ملت کے غدار تھے، بے بصیرت تھے، قوم کی ترقی کے دشمن تھے۔ دو دفعہ ہم جنگوں کے عذاب سے گزرے، آدھا ملک کٹ گیا، عقل داڑھ نہ نکلی۔ ترانے ہم نے بہت اچھے لکھے۔ اخبار کے صفحے پر جوش کا چشمہ بہایا گیا، محبت کے زم زم کا چرچا ہوا، ریڈیائی لہروں پر حق کی فتح ہوئی۔ 96 ہزار جوان دشمن کی قید میں چلے گئے۔ ہم نے تاریخ کا تجزیہ نہیں کیا، اپنی غلطیوں کا مواخذہ نہیں کیا۔ قربانی کے بکروں کی آرتی اتارتے رہے، مذہب سے دوری کا نوحہ لکھتے رہے۔ اخلاقی قدروں کے زوال کا ماتم کرتے رہے، چالیس برس تک سرمایہ داری کے خیمے میں بیٹھے رہے اور جب دو قطبی دنیا ختم ہوئی تو ہم پر انکشاف ہوا کہ سرمایہ داری کے ساتھ تو ہمارا ازلی تصادم ہے۔ انتظار حسین کی تنقیدی کتاب ’اپنی دانست میں‘ ابھی شایع ہوئی ہے۔ ایک جملہ مزے کا حسین نقی کو مخاطب کر کے لکھا ہے۔ انتظار صاحب نے کہا \” یار حسین نقی، سامراج کے خلاف تیرے نعروں سے تو ملا لوگ کے نعرے زیادہ بلند آہنگ ہوگئے۔ کیسے معلوم ہوگا کہ سامراج کے خلاف لڑائی میں تو تیری جوانی خرچ ہوئی\”۔ مجھے معلوم نہیں کہ حسین نقی نے انتظار صاحب کو کیا جواب دیا تھا مگر مجھے یہ معلوم ہے کہ میرا دوست یاسر پیرزادہ دہشت گردی کی وکالت کرنے والوں کو انتہا پسندی کے خلاف خطبہ دیتے سنتا ہے تو کہیں رک کر سوچتا ہوگا کہ جب پشاور کے مینا بازار اور لاہور کی مون مارکیٹ پر قیامت ٹوٹ رہی تھی تو یہ لوگ دہشت گردوں کی عذر خواہی کیوں کر رہے تھے۔ کیا فرق صرف یہ ہے کہ تب فوج کے سپہ سالار کو دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی سے گریز تھا اور 2013 کے موسم خزاں میں عسکری کمان بدل گئی تھی۔ اگر صاحب اختیار کا چہرہ بدل جانے سے بصیرت کے تقاضے بدل جاتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ 2016 کے موسم گرما میں دجلہ کے قطرے کا کیمیائی تجزیہ کر لیا جائے۔ بصیرت کی حقیقت سمجھ لی جائے، قلم کی قیمت پوچھ لی جائے اور یہ بھی پوچھ لیا جائے کہ ان دنوں بربادی یاراں کی کیا صورت ہے؟ قومی مفاد کے آئندہ خطوط کیا ہوں گے؟ یاسر پیرزادہ کی حیرانی کا سلسلہ کہیں رکے گا یا وہ بصیرت کی پگڈنڈیوں پر خجل ہوتا رہے گا اور اہل بصارت منزلوں پر منزلیں مارتے رہیں گے؟

بشکریہ ہم سب

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author