ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” میں درد سے تڑپ رہی تھی، قے تھی کہ رکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ اور وہ ڈاکٹر میرے ماں باپ سے کہہ رہا تھا کہ آپ کی بیٹی کو ہسٹیریا ہے، رشتہ ڈھونڈیں اور شادی کر دیں کہ یہی آخری حل ہے۔ یہ آخر ڈاکٹر کیسے ہسٹیریا کی تشخیص ہر کسی پر تھوپ دیتے ہیں؟
میری عمر اس وقت صرف اٹھارہ برس تھی۔ مجھے ہر ماہ ماہواری کا شدید درد اٹھتا تھا، بلیڈنگ بھی زیادہ ہوتی تھی، میں سوکھ کے کانٹا ہو چکی تھی اور ڈاکٹرز کو میرا علاج شادی نظر آیا تھا۔
دوسرے معنوں میں میرا علاج ایک مرد کے پاس تھا جو جنسی تعلق قائم کرتا، آرگیزم ہوتا اور میں ٹھیک ہو جاتی، ہت تیرے کی۔
کیوں کرتے ہیں ڈاکٹر ایسا؟ ”
یہ ایک شکوہ ہے جو ہم تک ہوا کے دوش سے ہوتا ہوا پہنچا ہے۔
ڈاکٹر ہونے کے ناتے اس سوال سے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے جب اپنے گریبان میں جھانک کر جواب ڈھونڈنا چاہا تو ہمیں پھر تاریخ کا سہارا لینا پڑا۔
تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں کئی آوازیں سنائی دیں
”یہ عورت تو بالکل ہسٹریکل لگ رہی ہے“
”ناخوش ہے نا اپنی زندگی سے“
”اپنے اوپر قابو ہی نہیں اسے“
”عورتیں دماغی طور پہ ہوتی ہی کمزور ہیں“
”جذبات نے پاگل کر رکھا ہے اسے“
” ڈرامہ کر رہی ہے، کوئی بیماری نہیں“
” زور دار سیکس چاہیے اسے، پرسکون ہو جائے گی“
تاریخ میں ہسٹیریا کی علامات کیا بیان کی گئی ہیں؟ اینگزائٹی، بے چینی، اضطراب، اداسی, سانس لینے میں مشکل, بے خوابی, بے ہوش ہو جانا, درد, جسم میں کھچاؤ, فٹس, قے, بات کرنے میں دقت, جنسی خواہش, بے وجہ ہنسنا اور رونا
یونانی حکیم جالینوس کا خیال تھا کہ اگر جنسی تعلقات کے ذریعے عورت کی رطوبات کا اخراج نہ کروایا جائے تو وہ زہر بن جاتی ہیں اور پورے جسم پہ اثر انداز ہو کر عورت کو ہسٹیرک بناتی ہیں۔ سو ہسٹیریا کی صورت میں کنواری کی جلد شادی کرنی چاہیے تا کہ متعلقہ امور کی انجام دہی سے اس کے جسم میں زہر نہ بن سکے۔
بیوہ ہونے کی صورت میں جالینوس صاحب کو ایک اور حل سوجھا کہ شادی ہونی تو مشکل ہے سو جڑی بوٹیوں اور مختلف مرہم عورت کے بیرونی اعضا پہ لیپ کر کے مالش کرنی چاہیے تاکہ رطوبت نکل جائے اور عورت کو سکون مل سکے۔ ( دیکھیے کتنی ہمدردی تھی ان مردوں کو عورت سے ) ۔
سولہویں اور سترہویں صدی میں بھی ہسٹیریا کا تعلق رحم سے جوڑتے ہوئے ایک اور نادر نسخہ پیش کیا گیا کہ رحم عورت کے جسم میں ایک بھوکے جانور کی طرح مرد کی رطوبت سیمن تلاش کرتا رہتا ہے۔ اس تلاش میں اگر وہ گلے تک پہنچ جائے تو عورت کا سانس بند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ شادی، جماع اور بچے کی تکون ہی اس پاگل رحم کو سکون بخش سکتی ہے۔ (واللہ پڑھ کر خون کھول جاتا ہے)
ہسٹیریا کی ایک اور تصویر ان عورتوں کے بارے میں کھینچی گئی جو کتابیں اور خاص طور پہ ناول پڑھتی تھیں اور وہ بھی جو کالج اور یونی ورسٹی جانا چاہتی تھیں۔ ان عورتوں کے لئے جنسی خواہشات رکھنے کا پروپیگنڈا کیا گیا اور رومانوی ناول پڑھنے، خود لذتی، ہم جنس پرستی اور مردوں کو بہکانے کی فرد جرم عائد کی گئی۔ اب کے علاج میں شادی، جماع، بچوں کے ساتھ آپریشن کے ذریعے بیضہ دانی نکالنا اور زنانہ ختنے کرنا تھا۔
انیسویں صدی میں ایک اور طریقہ علاج سامنے آیا جس کی بنیاد عورت کو تمام دنیا سے کاٹ کر تنہائی میں ایک قیدی کی طرح بند کرنا تھا۔ ”تنہائی اور علاج“ کی بنیاد یہ تھی کہ عورت کا ذہن مختلف وجوہات کی بنا پر بہت زیادہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور وہ ذہن کی اوور ایکٹووٹی نہ سنبھال سکنے کی وجہ سے عجیب و غریب حرکتیں کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اس لئے عورت کو ایک تنہا علیحدہ کمرے میں بستر تک محدود کر دینا چاہیے، جہاں اسے ایک مخصوص قسم کی غذا اور جسم کا مساج کیا جائے اور ضرورت پڑے تو بجلی کے جھٹکے دیے جائیں۔ مشہور امریکی مصنفہ شارلٹ پرکنز گل مین نے افسانہ ”پیلی دیواریں“ اسی موضوع پہ لکھا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ہسٹیریا کا علاج وائبریٹر کے ذریعے کرنے کا شہرہ ہوا۔ وائبریٹر کو عورت کے مخصوص اعضا پر رگڑ کے عورت کو ڈسچارج کروانے کی کوشش کی جاتی۔ وجہ وہی پرانی تھی کہ عورت کو جنسی طور پہ پرجوش کر کے اسے خوش اور پر سکون رکھا جا سکے۔
اس افسانے کا آغاز ریچل مینز کی ریسرچ ( The technology of Orgasm ) سے ہوا اور وہی اس خیال کا مرکز بنا۔
ہسٹیریا صرف عورتوں کی بیماری نہیں ہے۔ ان سنہری الفاظ کو میڈیکل سائنس میں متعارف کروانے کا سہرا دو عناصر کے سر بندھتا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کی متعارف کردہ تحلیل نفسی اور پہلی جنگ عظیم۔
فرائیڈ نے ریسرچ کے ذریعے ثابت کیا کہ ہسٹیریا کا سبب ذہنی دباؤ یا سٹریس ہے اور اس دباؤ کے نتیجے میں جسم ری ایکشن دکھاتا ہے۔ فرائیڈ کی 1895ء میں لکھی گئی کتاب ”ہسٹیریا سٹڈیز“ نے ہسٹیریا کا علاج بات چیت کے ذریعے تجویز کیا تاکہ عورت کے اندرجمع گھٹن اور بھڑاس نکل سکے۔
پہلی جنگ عظیم عورتوں کے حق میں معجزہ ثابت ہوئی۔ جنگ میں حصہ لینے والے بے شمار مردوں میں ہسٹیریا نامی علامات پائیں گئیں۔ صرف برطانوی فوج میں ان کی تعداد اسی ہزار تک پہنچ گئی۔ عورت کی خوش قسمتی سمجھیے کہ اب بات مرد کی ذات تک آن پہنچی تھی سو ہسٹیریا کی مختلف جہتوں پہ غور ہونا شروع ہوا۔ عورتوں کی صدیوں سے بنتی گت میں کمی اس لئے آئی کہ اب انہی علامات کے ساتھ مرد کا علاج وائبریٹر سے کیسے کرتے۔ سو اب کی بار قرعہ فال ذہنی دباؤ اور اس کے اثرات کے نام ہی نکلا۔
بالآخر کیا ہے ہسٹریا؟
شدید ذہنی دباؤ، غصے کا الاؤ، جذباتی اتار چڑھاؤ، ڈپریشن، اینگزائٹی!
طے یہ ہوا کہ انسان کے طرزعمل میں ہسٹیریا کی علامات بلا صنفی امتیاز کسی بھی وقت عود کر سکتی ہیں۔ جب بھی ایسا ہو، اس کا علاج ماہر نفسیات سے کروایا جائے گا، کسی شادی دفتر یا وائبریٹر سے نہیں۔
دل کو تاسف گھیر لیتا ہے جب تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف معاشروں نے چار ہزار سال تک عورت کا استحصال ہسٹیریا نامی لفظ سے کیسے کیا۔ عورت کی ہر مشکل کا حل مرد کے خیال میں جنسی تعلقات میں تھا یعنی عورت محض ایک بدن کا نام اور کچھ نہیں۔
ہسٹیریا نامی چابک پدرسری معاشروں نے مسوجنی رویوں کے ساتھ عورت پہ برسایا اور اور اس قدر برسایا کہ اس کی بازگشت آج بھی موجود ہے۔
تاریخ کی بدصورت حقیقت آئینہ ہی تو ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر