نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال دفاعی اور قومی سلامتی امور پر کڑی نگاہ رکھنے والے سینئر ترین صحافی نے میری کوٹ ٹائی والی تصویر لگاکر ’’خبر‘‘ یہ دی تھی کہ ’’ایم کیو ایم‘‘ کے کسی زمانے میں سرکردہ رہ نما رہے ’’نصرت جاوید‘‘ کو امریکہ میں پراسرارانداز میں قتل کردیا گیا ہے۔میں اپنے قتل کی ’’خبر‘‘ سن کر خوش ہوا۔ یہ جینا واقعتا کوئی جینا نہیں رہا۔
میں نے جب وہ کلپ دیکھی تو اسے آٹھ ہزار سے زائد لوگ بھی دیکھ چکے تھے۔ اس کے نیچے تبصرہ کرتے ہوئے مگر ایک مہربان نے سینئر ترین صحافی کو اطلاع دی کہ انہوں نے ’’ایم کیو ایم‘‘ کے رہ نما نہیں ’’صحافی نصرت جاوید‘‘ کے قتل کی خبردی ہے۔صبح اُٹھ کر وہی کلپ دوبارہ دیکھی تو میرے قتل کی ’’خبر‘‘ وہاں سے ہٹادی گئی تھی۔سینئر ترین صحافی کی مہربانی سے گویا میں ابھی تک زندہ ہی ہوں۔اس کلپ نے مگر شناختی کارڈوں کے حوالے سے جو ’’خبر‘‘ دی تھی وہ اپنی جگہ برقرار ہے۔یہ افغان اور بھارتی جاسوسوں کی کارستانیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔اس ضمن میں ہمارے سیاست دان جو سہولت کاری فراہم کرتے ہیں اس کا ذکر بھی جذبہ ایمانی کے طیش سے ہوا ہے۔
صبح اُٹھنے کے بعد اخبارات بھی دیکھے۔مجھے ہمیشہ حسد میں مبتلا کرنے والی خوب صورت نثر لکھنے والے وجاہت مسعود نے اپنے کالم کا آغاز میرے ذکر سے کیا تھا۔انہیں شبہ ہے کہ لاتعلقی کا ڈھونگ رچاتے ہوئے بھی میں سوشل میڈیا کی حرکیات پر گہری نظر رکھتا ہوں۔اُستاد گرامی نے پکڑلیا ہے تو اعتراف کرنا پڑے گا کہ جب بھی وقت ملتا ہے سوشل میڈیا سے یقینا رجوع کرتا ہوں۔
اصل مقصد اس کا مگر گمراہی کے اس طوفان سے آگاہ رہنا ہے جو سینئر ترین تصور ہوتے صحافیوں کا بہت بڑا گروہ قومی سلامتی کے تحفظ کے نام پر پھیلارہا ہے۔تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ روایتی میڈیا کے مقابلے میں یوٹیوب وغیرہ کے ذریعے پھیلائی ’’خبروں‘‘ کو خلقِ خدا کی اکثریت سنجیدگی سے لیتی ہے۔کئی دہائیوں سے مسلسل لکھے جارہا ہوں۔مجھے کامل یقین ہے کہ روایتی میڈیا کے لئے لکھی میری دھانسو ترین خبر یا کالم کو نوے ہزار لوگوں نے کبھی نہیں پڑھا ہوگا۔
یہ حادثہ مگر پاکستان ہی میں نہیں ہورہا۔امریکہ کا روایتی میڈیا ہمارے ہاں کے مقابلے میں بہت زیادہ معیاری ہے۔کسی رپورٹر یا کالم نگار کے فراہم کردہ اعدادوشمار کو دیوانگی کی حد تک ڈبل چیک کیا جاتا ہے۔اس کے باوجود کوئی چوک ہوجائے تو اخبارات نہایت خلوص سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ٹھوس حقائق کی یہ نگہبانی بھی کام نہیں آرہی۔
حال ہی میں امریکہ میں کچھ سروے ہوئے ہیں ان کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے دیرینہ ووٹروں کی مؤثر تعداد شدت سے محسوس کررہی ہے کہ جوبائیڈن نے ٹرمپ سے 2020کا صدارتی الیکشن چرالیاتھا۔ایک سروے کے نتائج نے حیران کن انکشاف یہ بھی کیا کہ ٹرمپ کو ووٹ دینے والوں کا 25فی صد حصہ نہایت شدت سے یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ بالآخر انصاف کا بول بالاہوگا اور امریکی عدالتیں ٹرمپ کو 2020کے صدارتی انتخاب میں کامیاب قرار دیتے ہوئے وائٹ ہائوس بھیج دیں گی۔ اس سروے کی تفصیلات پڑھتے ہوئے میرا سرچکرانا شروع ہوگیا۔
سوشل میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے میں ہرگز یہ پیغام نہیں دینا چاہ رہا کہ میرے اور وجاہت مسعود صاحب جیسے روایتی میڈیا پر تکیہ کرنے والے لکھاریوں کو ہاتھ اٹھاکر شکست تسلیم کرلینا چاہیے۔غور طلب سوال یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر کے لوگوں کی بے پناہ اکثریت نے روایتی میڈیا پر اعتبار کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔فیس بک کے بانی نے اسی سوال پر غور کرتے ہوئے اپنا پلیٹ فار م متعارف کروایا تھا۔ اسے متعارف کرواتے ہوئے یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھی کہ انسانوں میں غصے، نفرت اور تعصبات کا ہجوم جمع رہتا ہے۔معاشرتی ادب آداب مگر ان کے اظہار کی اجازت نہیں دیتے۔ فرد تنہائی کے خوف سے خاموش رہتا ہے۔فیس بک یا ٹویٹر پر لیکن آپ غصے اور نفرت کا ڈٹ کر اظہار کریں تو آپ کو فوراََ لائیکس اور شیئرز ملنا شروع بھی شروع ہوجاتے ہیں۔یہ لائیکس اور شیئرز آپ کو اطمینان دلاتے ہیں کہ میری طرح اور بھی بے تحاشہ لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں۔یوں آپ کو اپنا ’’قبیلہ‘‘ دریافت ہوجاتا ہے۔آپ اس کی ہمراہی میں فریقِ مخالفت کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔فیس بک چلانے والی کمپنیاں اس کی بدولت ریکارڈ ساز منافع کمانا شروع ہوجاتی ہیں۔روایتی اخبار کا اصل حسن صحافت کی وہ قسم ہے جسے Long Form Journalismکہا جاتا ہے۔سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ حقائق کا کہانی کی صورت بیان۔اس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے گھر آئے اخبار کا جائزہ لیجئے۔ اس کے اولین صفحات سیاستدانوں کے بیانات سے بھرے ہوں گے۔جو سیاسی جماعت بھی برسراقتدار ہوتی ہے اپنی حکومت کی بابت لوگوں کا جی خوش رکھنے کے لئے 1980کی دہائی سے ہمارے ہاں اخبارات کو اپنی پسند کی شہ سرخیاں لگانے کو مجبور کرتی ہے۔غیر جانب داری کا بھرم رکھنے کے لئے اخبارات وہ سرخیاں نمایاں انداز میں چھاپنے کے بعد نام نہاد ’’بیلنس‘‘ کے نام پر حزب مخالف کے سرکردہ رہ نمائوں کے بیانات بھی چھاپنا ضروری سمجھتے ہیں۔بیانات کے ذریعے اخباروں کے صفحات پر ’’قبضہ‘‘ مگر سنجیدگی سے غور کریں تواب کاربے سود ہے۔کیونکہ جن بیانات کو شہ سرخیوں کے ذریعے اجاگر کیا ہوتا ہے وہ ٹِکروں کی صورت 24/7چینلوں پر کئی بار چل چکی ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ ٹویٹس کی بھرمار بھی ہے۔اخبارات کو اپنی وقعت اور ساکھ برقرار رکھنا ہے تو انہیں ہر صورت Long Form Journalismکی طرف لوٹنا ہوگا۔ایسا کرتے ہوئے لازمی نہیں کہ اخبار اپنی موجودہ شکل میں کاغذ کے ذریعے ہی میسر ہو۔ اس کی شکل Digitalبھی ہوسکتی ہے۔’’خبر‘‘ لکھنے کا مگر وہی معیار اور انداز برقرار رکھنا ہوگا جو دہائیوںنہیں صدیوں کی مشقت سے روایتی اخبار نے دریافت کیا تھا۔سوشل میڈیا فیشن کی ایک لہر کی طرح نمودار ہوا تھا۔لہر مگر بالآخر گزر جاتی ہے۔بنیادی حقیقت سمندرہے جو کبھی ساکت اور کبھی متلاطم نظر آتا ہے۔اخبارات کو اپنی بقاء کی خاطر ’’گہرائی‘‘ سے جڑے رہنا ہوگا۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ