نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں سوشل میڈیا پر کسی ایک فریق کا مستقل حاوی رہنا ممکن ہی نہیں۔ فیس بک، ٹویٹر یا انسٹاگرام بنیادی طور پر زیادہ سے زیادہ لائیکس اور شیئرز حاصل کرنے والی انسانی فطرت میں قدرتی طور پر موجود جبلت کو انگیخت دیتے ہوئے مسلسل بے چین رکھتی ہے۔ آپ کی لگائی پوسٹ کی محض تعریفیں ہوتی رہیں تو بات آگے نہیں بڑھتی۔ رونق اسی وقت لگتی ہے جب کوئی آپ کو للکارے۔ دلائل کے بجائے ذاتی حملوں سے آپ کو دبانے کی کوشش کرے۔ خلق خدا کے روبرو ہوئی ”بے عزتی“ کمزور ترین انسان کے لئے بھی برداشت کرنا مگر ممکن نہیں۔ جواب دینے کی مجبوری لاحق ہوجاتی ہے۔ دو نظریات نہیں بلکہ دو افراد کے مابین چھڑے تنازعہ کو ان کے ”حامی“ شیر بن شیر ”کہتے ہوئے مزید اکساتے رہتے ہیں۔ تماشا لگارہے تو لوگوں میں موجود چسکے کی ہوس کو تسکین مل جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کی بنیادی حرکیات سے میں کئی برس قبل چند محققین کی بدولت بخوبی آگاہ ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود اس سے چسکہ لینے کی علت میں مبتلا ہو گیا۔ بعد ازاں دریافت کیا کہ مذکورہ علت مجھے کتابیں پڑھنے اور فلمیں دیکھنے سے روک رہی ہے۔ اہم ترین بات مگر اہم سیاسی معاملات سے لاتعلقی تھی۔ ذات کے رپورٹر کو یہ گوارا نہ تھا۔ سوشل میڈیا پراب فقط اپنے چھپے کالم پوسٹ کرتا ہوں۔ گزشتہ ہفتے کے آخری دنوں میں فراغت سے مگر اکتاگیا۔ جی بہلانے کو شان نامی اداکار سے سوشل میڈیا پر جان بوجھ کر پنگالیا۔ رونق لگ گئی۔ اب مگر ہفتے میں پانچ روز صبح اٹھتے ہی یہ کالم بھی لکھنا ہے۔ اس کے بعد مواد درکار ہے۔ اس جانب توجہ مبذول رکھنا لازمی ہے۔
سنجیدہ موضوعات کی جانب لوٹتے ہوئے اعتراف کرنا ہے کہ چند ہفتے قبل جب میرے عینک ساز نے نہایت پریشانی سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ میری آنکھوں پر کالا موتیا حملہ آور ہو رہا ہے تو میں واقعتاً گھبراگیا۔ آنکھوں کے ایک مستند ڈاکٹر نے کمال مہربانی سے مجھے آپریشن سے بچانے کی ٹھان لی۔ میں نے ان کی ہدایات پر بھرپور عمل کیا۔ امید ہے آئندہ سات دنوں کے بعد اطمینان نصیب ہو جائے گا۔
میری آنکھوں کا معائنہ کرتے ہوئے مہربان ڈاکٹر نے محض میری بڑھتی عمر کو آنکھوں کی تکلیف کا باعث قرار نہیں دیا۔ میرے روزمرہ معاملات سے بے خبر ہوتے ہوئے بھی انہوں نے یہ بتاتے ہوئے مجھے حیران کر دیا کہ میں غالباً گوشہ نشین ہو چکا ہوں۔ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلتا۔ بستر پر بیٹھے یا لیٹے ہی اخبارات، کتابوں اور سوشل میڈیا کو دیکھنے میں مشغول رہتا ہوں۔ اپنی بینائی بچانے کے لئے مجھے گھر سے باہر نکلنا ہو گا۔
ان کی ہدایت نے مجھے قومی اسمبلی کے حال ہی میں ختم ہوئے طویل بجٹ اجلاس کا پارلیمان میں کئی گھنٹے گزارتے ہوئے مشاہدے کو راغب کیا۔ پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے میری توجہ زیادہ تر موجودہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی نشستوں پر مرکوز رہی۔ نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ کے بینچ واضح انداز میں کنفیوژن کا مجسم اظہار تھے۔ اس کی وجوہات کا کھوج لگایا تو اپنے تئیں فرض کر لیا کہ اس جماعت سے وابستہ اراکین کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق کس کی ماں کو ماسی کہیں۔ نواز شریف کی سنیں یا شہباز شریف کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نیویں نیویں رہتے ہوئے اچھے وقت کا انتظار کریں۔ مسلم لیگ (نون) اپنی سرشت میں ”انقلابی“ نہیں ہے۔ یہ دھڑوں والے ڈیرہ داروں کی جماعت ہے۔ ان کے حلقے ہیں جہاں سے اس جماعت کے سرکردہ افراد کی اکثریت 1990 کی دہائی سے منتخب ہو رہی ہے۔
اپنے فطری مزاج کے مطابق نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کی بے پناہ اکثریت کوشہباز شریف صاحب کی ”لائن“ دل وجان سے اپنانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہونا چاہیے۔ خاص طور پر اس سمے جب نواز شریف اور ان کی دختر نے ایک بار پھر طویل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ بنیادی مسئلہ مگر یہ ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ (نون) سے وابستہ اراکین قومی اسمبلی جب اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو ان کے ووٹروں کی اکثریت انہیں ”شیر بن شیر“ کو اکساتی رہتی ہے۔ محترمہ مریم نواز کو آپ پسند کریں یا نہیں۔ معروضی حقیقت مگر یہ ہے کہ وہ اب Vote Pullerبن چکی ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران اس ضمن میں ان کی کشش بھرپور انداز میں نمایاں ہوئی۔ مجھے گماں ہے کہ وہ اگر مفتاح اسماعیل کے حلقے میں متحرک ہوتیں تو غالباً کراچی سے سخت مقابلے کے باوجود وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو جاتے۔
ان دنوں آزادکشمیر میں انتخابی مہم جاری ہے۔ وہاں کے الیکشن کے لئے مسلم لیگ (نون) نے امیدوار طے کرنے کے لئے جو پارلیمانی بورڈ بنایا تھا اس کے تین اراکین سے میں نے سماجی تقریبات میں الگ الگ گفتگو کی ہے۔ ان تینوں نے مجھے بتایا کہ مسلم لیگ (نون) کی ٹکٹ کے خواہاں افراد اس خواہش کا بھی تواتر سے اظہار کرتے رہے کہ انتخابی مہم کے دوران مریم نواز شریف صاحبہ ان کے حلقے میں بڑے جلسے سے خطاب کریں۔ سیاستدان دل سے کسی کا بھی ”سجن“ نہیں ہوتا۔ خود غرضی اس کا کلیدی وصف ہے۔ وہ اگر اپنے حلقے میں جیت یقینی بنانے کے لئے مریم نواز صاحبہ کے جلسے کا شدت سے متمنی ہے تو سیاست کامجھ جیسا طالب علم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
شہباز صاحب کی دانستہ طور پر اپنائی ”لچک“ (آپ اس کے لئے سخت یا نرم لفظ بھی اپنی پسند کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں ) نے تاہم عمران حکومت کے سرکردہ افراد کو پریشان کر رکھا ہے۔ وہ شدت سے یہ طے کیے بیٹھے ہیں کہ موصوف کی ”ان“ سے کوئی گہری بات چل رہی ہے۔ جو ”گیم“ وہ تصور کیے بیٹھے ہیں اسے ناکام بنانے کے لئے عمران خان صاحب کے ”احتسابی کارندے“ اپنی صلاحیتوں کو کامل یکسوئی کے ساتھ یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں کہ شہباز شریف کو جلد از جلد عدالتوں سے منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت سزا دلوائی جائے۔
ان سزاؤں کی وجہ سے اپنے بڑے بھائی کی طرح وہ انتخاب میں حصہ لینے کے لئے نا اہل بھی ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ عمران حکومت کے ”احتسابی کارندوں“ تک میری رسائی نہیں۔ رپورٹر کی جبلت نے چند ”وسیلوں“ سے رجوع کو مگر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک انتہائی با اثر شخص نے مجھے کامل اعتماد سے بتایا کہ شہباز صاحب ”آئندہ دومہینوں میں“ عدالت کے ”سزا یافتہ“ ہوجائیں گے۔ میں نے ابھی تک ان کے دعویٰ پر اعتبار نہیں کیا ہے۔ گزشتہ تین دنوں سے تاہم چند اہم اشارے مجھے اس دعویٰ کو ذہن میں رکھنے کو راغب کر رہے ہیں۔ فرض کیا میری سورس درست ثابت ہوئی تو شہباز صاحب کے ساتھ ”کھایا پیا کچھ نہیں۔“ والا واقعہ ہو جائے گا۔ لندن میں ان دنوں خاموش بیٹھے نواز شریف اس کے بعد ”ووٹ کو (دوبارہ) عزت دو“ والا نعرہ بلند کرنے کو مجبور ہوجائیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر