نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جھنگ کے رنگ||فضیل اشرف قیصرانی

کوئ “میراثی” آخر کیونکر اپنے بیٹے کو میراثی بنانا چاہے گا؟ہاں مگر ایک فنکار اپنے بیٹے کو ضرور فنکار بنانے میں فخر محسوس کرے گا۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے اکثر جھنگ کی ونگ کے متعلق سن رکھا ہو گا مگر آج ذکر ہے جھنگ کے ان رنگوں کا جنہوں نے جھنگ کی ونگ کو اپنی آواز اور انداز سے امر کر دیا۔ذکر ہے ضلع جھنگ کی اُس بولی کا جسے آپ چاہیں تو سرائیکی کہیں،چاہے پنجابی،چاہے جھنگوی/جھنگوچی یا پھر جانگلی۔
یہ اعزاز کم ہی اضلاع کو حاصل ہے کہ وہ اپنے محددود لسانی اور ثقافتی جغرافیے میں لوک موسیقی کے کئ رنگوں کو سمو سکیں۔جھنگ مگر مستثنیٰ ہے اس سے۔جھنگ صرف “جھنگویوں” کا جھنگ نہیں بلکہ ونگوں والا جھنگ،جھنگ ہے منصور ملنگی کا،طالب حسین درد کا اور اللہ دتہ لونڑے والے کا۔
کون ظالم ہے جو کہہ سکے کہ اس نے منصور ملنگی کے گاۓ گیت “اک پھل موتیے دا،بلوچا ظالما یا کیویں ساکوں یاد نہ راہسی “ نہیں سن رکھے یا وہ ان گانوں سے کوئ جذباتی وابستگی نہیں رکھتا۔کوئ بد ذوق ہی ہو گا جو کہے کہ طالب حسین درد کے “جوگ” اس نے نہیں سنے یا وہ انہیں سننے کی تمنا نہیں رکھتا اور کوئ زندگی سے نا بلد ہی ہو گا جو کہے کہ اللہ ڈتہ لونڑے والے کی گائ “رمزاں” اس نے نہیں سنی۔
یہ جھنگ ہی ہے کہ اپنے محدود جغرافیے میں اس نے تین ایسے نادر و نایاب استاد فنکار پیدا کیے کہ انکا بدل شاید صدیوں میں دوبارہ میسر نہ ہو۔
جھنگ،طالب حسین درد کا جھنگ،جھنگ منصور ملنگی کا جھنگ اور جھنگ اللہ ڈتہ لونڑے والا کا جھنگ۔جہاں ہمارے کئ اور زوال ہیں وہیں یہ زوال کیا کم ہے کہ ہم جھنگ کو “جھنگویوں” کی وجہ سے جانتے ہیں۔مورخ یہ سوال ضرور اٹھاے گا کہ یہاں ایسی قوم بھی موجود تھی جو جھنگ کو جانتی تھی تو فرقہ واریت کی وجہ سے،وہ جھنگ کو جانتی تھی تو “جھنگویوں “ کی وجہ سے مگر وہ جھنگ کو ڈاکٹر سلام کی وجہ سے جاننے سے ہمیشہ کترائ۔
مورخ نے تو جب چاہا وہ لکھ ڈالے گا مگر ہمارا حال ہی ہمارے مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔آئیے ایک نئ تاریخ رقم کریں اور جھنگ کو نۓ سرے سے جانیں۔ہندی میں کہتے ہیں کہ میاں اپنے آکڑے سیدھے کرو۔آئیے اپنے آکڑے سیدھے کریں اور اپنے ہیروز کو پہچانیں اور انہیں خراج تحسین پیش کریں۔
کھبی رات کی تنہائ میں اور مکمل سکون میں طالب حسین درد کا جوگ سنیں،طالب حسین درد کو جوگ میں ڈوبا ہوا دیکھیں اور سامعین کے مر جانے والے سکوت پر غور کریں تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے آکڑے سیدھے ہو جائیں گے۔ہمیں باقاعدہ محسوس ہو گا کہ ہم جوگ میں ڈوب کر ٹلہ جوگیاں پر رسمِ رانجھا نھباتے ہوۓ خود جوگ لینے چل پڑے ہیں۔
منصور ہمارے دور کا حلاج نہیں سہی مگر کیا منصور کی موسیقی کو وہی مقام حاصل نہیں جو کسی حق پرست کی کہی بات کو ہے۔کیا منصور ملنگی بلوچا ظالما گاتے ہوۓ ہمارے اندر کی سسی کو نہیں جگا جاتا۔وہی سسی جو شاہ لطیف کی سسی ہے،جو بے تاب و بے قرار ہے،جسے پیا ملن کی آس ہے اور جو امید و نا امیدی کے بیچ کہیں فضاوں میں معلق ہے۔ہمارے اندر کی سسی،سوہنڑی،ہیر اور صاحبہ سب انہی افضل انسانوں کے ہاتھوں زندہ ہیں ورنہ ہم کب کے کیدو بن کر سماج کو لنگڑا بنانے کی راہ پر گامزن ہوتے۔
رمزاں کہیڑے ویلھے لائیو نی !
لگیاں لگ گئیاں نی سانول یار!
رمزاں کہیڑے ویلھے!
اللّہ ڈتہ لونڑے والے نے جس انداز سے رمزیں گائ ہیں خدا کرے کہ ہم میں سے وہ سب نے سن رکھی ہوں تو ہمیں اندازہ ہو کہ فنکار کیا ہوتا ہے۔ہمیں مگر ترکی کے ارطغرل سے فرصت نہیں ملی کہ ہمارے اپنے ہیروز تو میراثی کہلاے جبکہ دوسروں کے حملہ آوروں اور زور آوروں میں ہم نجات دہندہ ڈھونڈتے رہے۔
اور ہیروز بنتے بھی کیونکر کہ ہمیں شروع سے کورس میں پڑھایا گیا کہ!
میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر امم کیا ہے؟
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
حضرت خود حیات ہوتے اور دیکھتے کہ آج انکے کلام کو بھی طاؤس و رباب ہی نے زندہ رکھا ہے جبکہ شمشیر و سناں شاعری کے نسخے جلانے کے درپے ہے۔
سماج میں جیتے جاگتے شعور والے افراد کی تربیت میں یقیناً کئ عوامل کار فرما رہتے ہیں اور فنون لطیفہ ان میں سے ایک ہے۔سماج اور افراد کی اخلاقی اور معاشرتی برتری/ابتری کہیں ضرور فنون لطیفہ کی برتری/ابتری سے منسلک ہے۔آپ کسی بھی برتر معاشرے کو دیکھ لیں آپکو وہاں فنون لطیفہ برتر ملیں گے جبکہ ابتر معاشروں میں آپکا فنون لطیفہ ابتری میں مبتلا نظر آے گا۔
ہمارے ہاں شاندار کھسہ بنانے والا فنکار موچی ہی رہا،ہمیں شاندار موسیقی سنانے والا میراثی سے اوپر درجہ نہ پا سکا،مٹی کے شاندار فنپارے بنانے والا آج بھی کمہار کہلایا اور ظلم دیکھیں کہ پھر ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر کیوں ہمارے ہاں معاشرہ اور فنون لطیفہ رو با زوال ہیں؟
تو سرکار!
کوئ “میراثی” آخر کیونکر اپنے بیٹے کو میراثی بنانا چاہے گا؟ہاں مگر ایک فنکار اپنے بیٹے کو ضرور فنکار بنانے میں فخر محسوس کرے گا۔
تو فنکار بنیں،فنکار بنائیں اور اپنی خوبصورت ثقافت پہ فخر کریں کہ ارطغرل بننے کو کئ اور مواقع مل جائیں گے۔
ہماری موسیقی سلامت،جھنگ سلامت،جھنگ کی ونگ اور جھنگ کے موسیقی کے رنگ سلامت۔
ہمارا منصور ملنگی زندہ آباد!
ہمارا طالب حسین درد زندہ آباد
اور
ہمارا اللّہ ڈتہ لونڑے والا زندہ آباد

About The Author