عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابصار عالم کا شمار پاکستان کے اُن سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے جن پہ یہ الزام ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کے میڈیا سیل کے غیر اعلانیہ رکن ہیں-
اپنے اس کالم میں وہ جب 80ء اور 90ء کی دہائی کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ یہ بتانے کی سرے سے زحمت نہیں کرتے کہ میاں نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ نواز کسی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں پنجاب کے سیاسی افق پہ نہیں ابھرے تھے بلکہ وہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی چھتری اور پھر جنرل ضیاءالحق کی جانب سے پوری ریاستی مشینری 1984ء سے لیکر اپنی موت تک اُن کی خدمت کے لیے وقف کرنے کے نتیجے میں پنجاب میں نواز شریف کی جڑیں مضبوط کی گئی تھیں، پھر ضیاءالحق کی باقیات نے نواز شریف کو مضبوط کیا، یہاں تک کہ اسٹبلشمنٹ کے اندر نواز شریف کی جڑیں مضبوط کرنے والوں نے خود مسلم لیگ کی قیادت کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو پیچھے کیا، پیر آف پگارو سمیت پنجاب اور سندھ کے طاقتور اشراف گھرانوں کو نواز شریف کی اطاعت کے لیے مجبور کیا گیا-
وزرات عظمیٰ کے طاقتور امیدوار محمد خان جونیجو، پھر غلام مصطفیٰ جتوئی کو پیچھے دھکیل کر نواز شریف کو وزرات عظمیٰ کا امیدوار بنایا گیا-
پنجاب میں پاور پالیٹکس میں یہ اسٹبلشمنٹ ہی تھی جس نے گجرات کے چودھری ہوں یا جہلم کے مخدوم یا ملتان کے سید، قریشی، گیلانی یا ریاست بہاول پور کے عباسی، مخدوم اور تو خود لاہور کی ارائیں اور کشمیری برادری کے بڑے کھڑپینچ سب کو نواز شریف کی اطاعت پہ مجبور کیا گیا، ان میں سے کچھ نے پیپلز پارٹی جوائن کی، کچھ نے اپنی مسلم لیگ قائم کرلی – پنجاب میں میاں نواز شریف 90ء کے بعد اسٹبلشمنٹ کے اندر اپنا طاقتور دھڑا بنانے کی طرف چلے اور وہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے اندر تک اپنی جڑیں لے گئے – اسٹبلشمنٹ کے اندر میاں نواز شریف کی جڑیں کسی نظریاتی بنیاد پہ استوار نہیں ہورہی تھیں بلکہ یہ میاں نواز شریف کی ذاتی وفاداری پہ استوار تھیں-
عدلیہ میں دیکھ لیں نواز شریف نے چُن چُن کر اپنے ذاتی وفاداروں کو رکھا جن کے سامنے اتنی مراعات اور چمک تھی کہ وہ سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت کرگئے، ریاست کا کون سا ادارہ ہے جو نواز شریف کی مداخلت سے بچا ہو – انھوں نے پاکستان کی صحافت کے بڑے بڑے میڈیا گروپوں پہ سرمایہ کاری کی جو پیسہ، طاقت اور مراعات کی رو میں اندھے ہوکر نواز شریف کے پیچھے لگ گئے
نواز شریف کا 12 اکتوبر 1999ء کو اقتدار اس لیے نہیں گیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو طاقتور، عدلیہ و میڈیا کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے یا وہ اپوزیشن کو جمہوری حقوق دیے ہوئے تھے- انہوں نے ہر ادارے کو ملیامیٹ کرنا چاہا جب وہ فوج کے ادارے کو ملیامیٹ کرنے کی طرف آئے تو ملک پہ مارشل لاء لگوابیٹھے –
ابصار عالم ہمیں یہ بتانے سے قاصر کیوں ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جن کی کچھ نہ کچھ عوام میں جڑیں تھیں پی این اے کی تحریک کے بعد جنرل ضیا الحق کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ نے اپنی نوازشات اُس پہ کی جس نے نواز شریف کی وفاداری کا حلف اٹھالیا – یہی وجہ ہے کہ پی این اے کی تمام جماعتیں سوائے جماعت اسلامی کے زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں اور ان جماعتوں کے دو سے تین دھڑے نواز شریف کے ساتھ چلے گیے جے یوپی، تحریک استقلال اُس کی مثال ہیں-
نواز شریف شخصی آمریت کے جس راستے پہ چلے اُس کا ساتھ دینے سے تو چوہدری شجاعت حسنین اور چودھری پرویز اللہی ساتھ نہ چل سکے-
پنجاب میں نواز شریف 1985ء سے لیکر 12 اکتوبر 1999ء تک ریاست کی ساری مشینری اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور زرایع ابلاغ کو اُن کی بدترین کردار کُشی کے لیے استعمال کرتے رہے- پنجاب میں نواز شریف نے کسی دوسری جماعت کو یکساں فیلڈ لیول پلے کبھی فراہم ہی نہیں ہونے دیا –
مسلسل وعدہ شکنی، اسٹبلشمنٹ سے بار بار ڈیل
12 اکتوبر 1999ء کے بعد 2001ء میں وہ اے آر ڈی میں پی پی پی کے اور دیگر جماعتوں کے ساتھ آئے، وہ درپردہ مشرف سے معافی کے طلبگار اور نہ صرف اے آر ڈی کی اتحادی جماعتوں بلکہ اپنی جماعت کے سرکردہ لوگوں کو بے خبر، جیل میں بند چھوڑ کر چلتے بنے –
لندن میں بیٹھ کر اے آر ڈی توڑ کر اے پی ڈی ایم بنایا اور پھر اُسے بھی عین وقت پہ چھوڑ دیا-
2008ء سے 2013ء نواز شریف جنرل کیانی اور افتخار چوہدری سے مل کر پی پی پی کی حکومت گرانے کی سازشیں کرتے رہے، اُن کا خواجہ آصف میموگیٹ لیکر سپریم کورٹ گئے، پھر سوئس خط کے معاملے سپریم کورٹ جاکر پی پی پی کا وزیراعظم نااہل کرایا، اٹھارویں ترمیم میں وہ آئین کی شق 61،62ء کو ختم کرنے، الگ آئینی سپریم کورٹ، ججز کی پارلیمنٹ کے زریعے تقرری، آئی ایس آئی کو وزرات داخلہ کے ماتحت کرنے سے وہ منحرف ہوگئے- اور پھر 2013ء کے انتخابات میں انھیں کیانی و افتخار چوہدری نے آراوز کی مدد سے اُن کو جتوادیا –
نواز شریف نے اپنی ذات کے ساتھ وفاداری کے جس اصول کے تحت 90ء کے بعد کی سیاست شروع کی تھی وہ 2013ء سے 2018ء کے دوران پھر پوری طاقت سے شروع ہوئی اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ ریاست کی طاقت کو اپنی ذات کا غلام بنانے میں جب ایک بار پھر فوجی طاقت سے ٹکرائے تو اقتدار سے باہر ہوگئے-
نواز شریف اور اُن کی بیٹی کو پنجاب میں جمہوریت، آئین، قانون اور پارلیمانی سیاست کی بالادستی کی سب سے بڑی طاقت بناکر پیش کرنا یا تو بہت بڑا فکری مغالطہ یا پھر پیڈ پروپیگنڈا ہے-
2018ء سے تا دمِ تحریر میاں نواز شریف ہوں، شہباز شریف ہوں، مریم ہوں یا حمزہ یہ اپنی ذات اور اپنے پیسے بچانے کیلئے بار بار ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو پیچھے دھکیلا –
پی ڈی ایم کے ساتھ جو کیا-پنجاب میں کیسے بزدار کو گرنے سے بچایا؟ اور تو اور اب کیسے قومی اسمبلی میں بجٹ پاس کرادیا؟
شریف برادران پاکستان میں عوامی جمہوری سیاسی کلچر کی بالادستی کی محض نعرے بازی کرتے ہیں اور اُن کا سارا زور
Rivival of old dynastic rule
پہ ہے –
ابصار عالم نے وجاھت مسعود سمیت جتنے صحافیوں اور لبرل این جی اوز کے سول سوسائٹی کے اشراف نام گنوائے یہ ماضی میں بے شک پی پی پی کے ساتھ رہے لیکن انہوں نے اپنے میڈیا مالکان اور عالمی سطح پہ امریکی بلاک سے وابستہ نیولبرل ڈونر گروپوں اور آقاؤں کی مرضی اور منشا کے مطابق نواز شریف کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا ہے-
میں معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ابصار عالم کس میرٹ اور معیار پہ پیمرا کے چیئرمین بنائے گئے تھے؟
وہ کیسے دا اوپن سوسائٹی نامی گلوبل این جی او کے پاکستانی سیکشن کے سربراہ بنے؟
وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کیسے نواز برادران کو کلین چِٹ دیتے ہیں؟
وہ بتائیں کہ جنرل راحیل شریف کو این او سی کیوں دیا گیا تھا؟
وہ مولانا فضل الرحمان کو حقیقی جمہوریت پسند ہونے کی چِٹ بھی صرف اس وجہ سے دے رہے ہیں وہ نواز شریف کی پرانی بادشاہت کی بحالی کے یک نکاتی ایجنڈے پہ عمل پیرا ہیں ورنہ کون نہیں جانتا کہ اُن کی جماعت سندھ میں اسٹبلشمنٹ کی جی ڈی اے، پی ٹی آئی کی اتحادی اور اب آزاد کشمیر کے انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کے حق میں اپنے سارے امیدوار دستبردار کراچکی ہے –
ابصار عالم تاریخ سے سبق سیکھنے کی بات کرتے ہیں جبکہ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اُن کا صحافتی سفر دائیں بازو کی نظریاتی لائن سے بتدریج خدمات برائے فروخت کی طرف ہوا ہے- جیسے پنجاب کے کئی ایک ماضی کے نامور بائیں بازو کے صحافتی اور لبرل ازم علمبردار کے سول سوسائٹی کے اشراف نواز شریف کے خادم ہوگئے ہیں –
ابصار عالم کا عالم یہ ہے کہ وہ عبدالمالک سمیت صحافیوں کے ایک دوسرے گروپ کو جو پاکستان کی غیر منتخب ہئیت حاکمہ کے بے دام غلام ہیں اُن کو غلام کہنے سے کترارہے ہیں –
نواز شریف کی بادشاہت کی بحالی کے علمبردار پنجابی اشراف صحافی، لاہوری بوتیک لیفٹ اور کمرشل لبرل گروہ اگر واقعی جمہوریت، آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا قائل ہوتا تو وہ مسلمیگ نواز سمیت آج کی پی ڈی ایم کی قیادت سے یہ سوال ضرور کرتا کہ انہوں نے جن شرائط کو پوری نہ کرنے کا الزام دے کر پی پی پی اور اے این پی کو اے پی ڈی ایم سے باہر کیا تھا وہ شرائط وہ خود اب پوری کرنے سے بھاگ کیوں گئے ہیں؟
قومی اسمبلی، سینٹ، صوبائی اسمبلیوں سے استعفے کیوں نہیں دیتے؟
استعفے دینے کے بعد لانگ مارچ جو کرنا تھا وہ لانگ مارچ کہاں ہے؟
قومی اسمبلی میں بجٹ پہ ووٹنگ کے دن مسلم لیگ نواز کے 35 اراکین کہاں غائب ہوگئے؟
اُس روز نواز لیگ کے پنجابی اشرافیہ کا جاگا ہوا ضمیر کہاں جاکر سوگیا تھا؟
آزاد کشمیر میں ہورہے انتخابات میں جے یو آئی ایف کا سلیکٹڈ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت کے فیصلے پہ نواز شریف کیمپ کے شعور جاگے پنجابی اشرافیہ کی خاموشی کا کیا مطلب ہے؟
میں اور بھی متعدد تضادات کی نشاندہی کرسکتا ہوں اور یہ دکھاسکتا ہوں کہ کس طرح پنجابی صحافتی اشرافیہ کی ایک بہت بڑی تعداد نواز شریف کی بادشاہت کی بحالی کے ایجنڈے پہ مبنی پاور پالیٹکس کو اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست بناکر پیش کررہے ہیں –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر