نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں مثال کے طورپر یہ رسک ذوالفقار علی بھٹو نے 1977میں لیا تھا۔اقتدار تو انہوں نے دسمبر1971میں سنبھال لیا تھا۔ یہ مگر ہنگامی حالات میں ہوا عارضی بندوبست تھا۔اس کی بدولت ہمارے سویلین صدر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔بعدازاں ایک ’’عبوری آئین‘‘ نافذ ہوا جو اپنی سرشت میں پارلیمانی نہیں صدارتی تھا۔ 1973کا آئین تیار ہوجانے کے بعد بھٹو صاحب اس برس وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔آئینی اعتبار سے لہٰذا انہیں 1978سے قبل نئے انتخابات کی ضرورت نہیں تھی۔بھٹو صاحب نے تاہم مارچ 1977میں نئے انتخاب کروانے کا اعلان کردیا۔
فقط جوشیلے خطابات کے ذریعے مگر انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بناناممکن نہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اگر حکومت میں بیٹھی ہو تو انتہائی باریک بینی سے یہ جائزہ لینے میں مصروف رہتی ہے کہ اس کی پالیسیوں کی بدولت معاشی میدان میں رونق لگی محسوس ہورہی ہے یا نہیں۔اس تناظر میں ذاتی طورپر جائزہ لوں تو اپنے اقتدار کے روز اوّل سے عمران حکومت بازار میں کسادبازاری لائی۔ ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوا۔روزمرہّ استعمال کی اشیائے صرف کی گرانی نے بھی کم آمدنی والوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔ان حقائق کو نگاہ میں رکھوں تو عمران خان صاحب کو قبل از وقت انتخاب کی بابت فی الحال سوچنا بھی نہیں چاہیے۔
شوکت فیاض ترین نے تاہم جو بجٹ تیار کیا ہے اس کے اہم نکات پر غور کریں تو وہ بازار میں رونق برپا کرنے کو بضد نظر آرہا ہے۔قومی اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ پر عمومی بحث کے اختتام پر وزیر خزانہ نے جو تقریر کی وہ بارہا اصرار کرتی رہی کہ آئی ایم ایف کے تیار کردہ اس نسخے پر ہوبہو عمل سے انکار کردیا گیا ہے جو ڈاکٹر حفیظ شیخ کی معاونت سے تیار ہوا تھا۔شوکت ترین بارہا بہت فخر سے اعلان کرتے رہے کہ عمران خان صاحب ’’غریب آدمی‘‘ کے لئے ہمیشہ متفکر رہتے ہیں۔وہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کو ہرگز تیار نہیں۔نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے بینکوں کو سختی سے نئے کاروبار شروع کرنے کے لئے بلاسود قرضے فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔بینکوں ہی کی مدد سے کم آمدنی والوں کے لئے لاکھوںنئے گھر تعمیر ہوں گے۔کسانوں کے لئے بھی بھاری بھر کم مراعات کا اعلان ہوا ہے۔
اسلام آباد کے جو ’’باخبر‘‘ حلقے مارچ 2022میں قبل از وقت انتخاب دیکھ رہے ہیں انتہائی سنجیدگی سے اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر وزیر خزانہ کے اعلان کردہ ’’غریب دوست‘‘ منصوبوں پر آئندہ چھ ماہ کے دوران تیزی سے پیش رفت ہوتی نظر آئی تو عوام کی اکثریت ’’بلے بلے‘‘ پکارنا شروع ہوجائے گی۔وقتی ابال کی طرح اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم نامی اتحاد میں یکجا ہوئی تھیں۔اس اتحاد کا مگر انتقال پرملال ہوچکا ہے۔اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت یعنی مسلم لیگ (نون) یہ طے کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے کہ نواز شریف صاحب کو پنجابی محاورے والی ’’ماسی‘‘ کہیں یا شہباز شریف کو۔آئندہ چھ مہینوں کے دوران بازار میں اگر رونق لگ گئی تو تحریک انصاف قبل از وقت انتخاب میں حیران کن کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر