ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز جوہر ٹائون کی بورڈ آف ریونیو سوسائٹی میں بم دھماکے سے تین افراد شہید اور دو درجن سے زائد زخمی ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک درجن افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ آئی جی انعام غنی کے بیان کے مطابق دہشت گردوں کا ٹارگٹ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تھے۔ تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دھماکہ حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب ہوا اور وہ دہشت گردوں کا نشانہ تھے۔
پوری قوم ایک طرف کورونا کے عذاب میں مبتلا ہونے کے باعث طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہے۔ لاہور میں ہونیوالے بم دھماکے نے تشویش کی نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ پاکستان ضیاء الحق دور سے لیکر آج تک مختلف حالتوں میں دہشت گردی کا عذاب بھگت رہا ہے اور یہ پل دو پل نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ کچھ عرصہ خاموشی کے بعد دہشت گردی کا یہ واقع پیش آیا ہے تو اس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔
صدر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ ساتھ اپوزیشن رہنمائوں مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو نے بھی صوبائی دارالحکومت میں امن امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں بلکہ ایک مذہبی شخصیت تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مذہبی شخصیت پر ہمسایہ ملک ہندوستان کی ایجنسیاں پہلے بھی کئی وار کر چکی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے تانے بانے ہندوستان اور افغانستان سے ملتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے آنے کے بعد پاکستان دشمن کارروائیوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔
پاکستان کے مسلمان تقسیم کے وقت ہونیوالی دہشت گردی کو آج تک نہیں بھلا سکے۔ جہاں لاکھوں مسلمان شہید کئے گئے اور ہزاروں دوشیزائوں کو مشرقی پنجاب میں اغواء کیا گیا۔ دیگر واقعات میں 18 فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کا المناک واقعہ ہو یا پھر دیگر واقعات کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد سب کے ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ لاہور میں دہشت گردی کے واقعات کی طویل فہرست ہے فروری 2017ء میں ڈیفنس کے ایک ریسٹوران میں دھماکے سے 8 افراد، 13 فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سمیت 13 افراد، 27 مارچ 2016ء کو گلشن اقبال پارک لاہور میں بچوں سمیت 71 افراد، 15 مارچ 2015ء میں فیروز پور روڈ کے ایک چرچ میں پندرہ افراد ہلاک ہوئے اور یہ ستم بھی دیکھئے کہ اس موقع پر مشتعل ہجوم نے دو افراد کو ملزم سمجھ کر زندہ جلا دیا بعد میں پتہ چلا وہ بے قصور تھے۔
17 فراری 2014ء کو قلعہ گجر سنگھ پولیس لائن میں ہونیوالے دھماکے میں 7 افراد، 2 نومبر 2014ء کو واہگہ بارڈر پر خود کش دھماکے میں 73 افراد، 6 جولائی 2013ء کو انار کلی میں دھماکے سے 5 افراد، 24 اپریل 2012ء کو ریلوے سٹیشن پر 5 افراد، 12 جولائی 2012ء کو پولیس ٹریننگ ہاسٹل میں دھماکے سے 9 اہلکار، ستمبر 2010ء کو لاہور میں 3 دھماکے ہوئے جس میں محرم کے جلوس میں شامل 38 افراد شہید ہوئے۔ اسی طرح لاہور ہی میں یکم جولائی 2010ء کو داتا دربار پر خود کش دھماکے سے 50 افراد، مارچ 2010ء میں متعدد دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں افراد شہید و زخمی ہوئے، 7 دسمبر 2009ء کو علامہ اقبال ٹائون میں دو بم دھماکے ہوئے جس سے 54 افراد، 15 اکتوبر کو حساس اداروں پر حملوں میں 38 افراد، 27 مئی 2009ء کو سٹی پولیس ہیڈ کوارٹر پر دھماکے سے 35 افراد، 3 مارچ 2009ء کو انٹرنیشنل کرکٹ کے موقع پر سری لنکن ٹیم کو نشانہ بنایا گیا8افراد، 11 مارچ 2008ء کو ایف آئی اے کی بلڈنگ سے خودکش حملہ آوروں نے گاڑیاں ٹکرائی جس سے 38 افراد شہید ہوئے۔
یہ چند واقعات ہیں ان میں صرف ہلاک ہونیوالوں کی تعداد بیان کی گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ صوبائی دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا ترقی یافتہ شہر ہونے کے باعث لاہور دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔ لاہور بارڈر سٹی ہے اور دشمن ملک بھارت کو ہمیشہ کھٹکتا ہے اسی بناء پر اس کی حفاظت بھی ضروری ہے اور لاہور کی آبادی جو کہ پہلے ہی بہت بڑھ چکی ہے اور اب اسے مزید وسعت نہ دی جائے اور اس کی آبادی کو کنٹرول میں رکھا جائے تو بہتر ہے۔ لاہور ایک قدیم تاریخی شہر ہے۔
ایک مشہور روایت کے مطابق رامائن کی رزمیہ کے ہیرو رام چندر کے دو بیٹے تھے۔ ایک لوہ اور دوسرا کش، کش نے قصور آباد کیا۔ لوہ نے اپنی ماں سیتا کی یاد میں دریائے راوی کے کنارے یہ آبادی بسائی۔ لہور، لوہارو، لوہور وغیرہ مختلف ناموں سے لاہور بن گیا۔ اس شہر کے گرد اگر بعد کے زمانوں میں ایک فصیل اور تیرہ دروازے بنائے گئے تھے۔ ان کی قریبی آبادیاں اسی نام سے منسوب ہیں۔
بعض دروازوں کے آثار ختم ہو گئے ہیں بعض ابھی تک قائم ہیں لیکن آبادیاں انہی کے نام سے معروف ہیں۔ وہ تیرہ دروازے اور ان کی آبادیاں یہ ہیں: دہلی دروازہ، اکبری دروازہ، موتی یا موچی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، لوہاری دروازہ، موری دروازہ، بھائی دروازہ، ٹیکسالی دروازہ، روشنائی دروازہ، مستی دروازہ، کشمیری دروازہ، شیراں والا یا خضری دروازہ، زکی یا یکی دروازہ۔ لاہور، ہندوستان میں آنے والے بیرونی حملہ آوروں کے لیے درہ خیبر کے بعد پہلے پھاٹک کی حیثیت رکھتا تھا۔
اس لیے کئی بار روندا گیا۔ سلطان محمود غزنوی نے 1027ء میں لاہور کو فتح کیا اس کا منظور نظر ایاز یہاں کا صوبے دار رہا۔ اس کی قبر کشمیری بازار میں ہے۔ اس کے عہد میں حضرت داتا گنج بخش یہاں تشریف لائے۔ 1186 تا 1290 سلاطین غور لاہور پر قابض رہے۔ ان میں سے قطب الدین ایبک کا مزار انارکلی کے اندر ایبک روڈ پر موجود ہے۔ اسکے بعد خلجی اور تغلق سلاطین کا زمانہ آتا ہے جو ڈھائی سو سال تک محیط ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ملتان حملہ آوروں کی زد میں رہا مگر آج حملہ آوروں کو کوئی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتا جبکہ داتا دربار پر آج بھی مرجع خلائق ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مغلیہ اور انگریز دور میں لاہور کو بہت ترقی حاصل ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر