نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دوٹوک جواب اور خدشات||رسول بخش رئیس

خوف تو ہے‘ ماضی کی طرح ایوانِ اقتدار کی چابیاں دور دراز کے ملکوں میں بند کمروں کی خفیہ ملاقاتوں میں نہ تلاش کرنا شروع کر دیں۔ پھر نہ ہو گا عمران خان اور نہ کوئی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو انکار کرنے کی جرأت کر سکے گا۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک کے مشکل حالات اور خطے کی عرصے سے بگڑی‘ اور مزید خراب ہوتی ہوئی صورت حال کے باوجود کپتان نے واضح‘ غیر مبہم اور کھلے الفاظ میں امریکہ کو پاکستان کے اندر اڈے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہی سطور میں ایک دو مرتبہ پُرانی روشیں جاری رکھنے کی مخالفت کر چکا ہوں۔ مجھے بالکل یہی امید تھی کہ ہماری جمہوری حکومت اور سلامتی کے ادارے ایسا ہی فیصلہ کریں گے۔ میرے نزدیک ہمارے اندر کے اور ارد گرد کے معروضی ماحول کا تقاضا یہ ہے کہ ہر داخلی اور خارجہ پالیسی وضع کرتے وقت معاملات کو مصلحت پسندی‘ وقتی فائدے اور ذاتی و سیاسی مفادات کے تنگ و تاریک کوچوں سے نکال کر آئندہ نسلوں اور وطنِ عزیز کی دائمی اور وسیع ترقی و خوش حالی کے میدانوں میں لے آئیں۔ بات دل سے نکلے تو ہر جگہ اثر دکھاتی ہے۔ جن سے مخاطب ہوں‘ وہ بھی مان لیتے ہیں۔ کیا اس بات میں صداقت نہیں کہ جو جنگ امریکہ افغانستان کے اندر بیس سال کے بعد بھی نہیں جیت سکا‘ وہ پاکستان میں اڈے بنا کر بھلا کیسے سرخرو ہو سکتا ہے؟ کپتان نے زبردست سوال اٹھایا ہے بلکہ کپتانی کا حق ادا کر دیا ہے۔ امریکی ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو دینے کا مقصد ہی یہی تھا کہ پیغام عوام تک بھی چلا جائے۔ سفارتی ذرائع سے تو پاکستان کا موقف واضح کیا جا چکا ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر رنگ باز سیاسی ہرکارہ یہاں موجود ہے۔ جب وزارت خارجہ اور وزیر اعظم کا دفتر امریکہ اور ماضی کے دیگر اتحادیوں کو اڈے دینے سے انکار کر رہا تھا‘ بیان بازی یہ ہو رہی تھی کہ پاکستان نے رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ افواہیں‘ بد گمانیاں پھیلائی جاتی ہیں اور شوشے چھوڑے جاتے ہیں‘ اور ایسے لوگ کسی کے لیے پیادوں کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔
عمران خان صاحب کا افغانستان کی جنگوں کے بارے میں ایک موقف رہا ہے۔ تسلسل سے وہ کہتے رہے ہیں کہ ”ہمیں دوسروں کی جنگ میں کودنے سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے‘‘۔ گزشتہ چند سالوں میں یعنی تحریکِ انصاف کی حکومت کے دور میں افغانستان کے بارے میں ہماری پالیسی میں بنیادی فرق نمایاں ہو چکا ہے۔ جو اثر و رسوخ افغان طالبان کی قیادت کے ساتھ تھا‘ استعمال کیا‘ اور انہیں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ کیا۔ امریکہ سے تو ہم شروع دن سے گزارش کر رہے تھے کہ افغانستان میں امن کا واحد راستہ طالبان کے ساتھ بات چیت میں مضمر ہے‘ لیکن طاقت کے شبہے میں امریکی اس بات کو نہیں مانتے تھے۔ جب طالبان نے جنگ کے میدان میں ان کا طاقت کا سارا نشہ ہرن کر دیا تو بالآخر سرپٹ دوڑتے آئے کہ ہماری طالبان سے بات کرائو۔ ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ کرا دی اور معاہدہ بھی ہو گیا۔ اس معاہدے پر امریکہ نے عمل درآمد بھی کیا؛ البتہ اس کا دوسرا حصہ رہ گیا کہ کابل کی کٹھ پتلی حکومت اور طالبان کے مابین امن سمجھوتہ نہیں ہوتا تو جنگ ختم نہیں ہو گی۔ امریکہ تو اپنا دامن‘ جو اب تک تار تار ہو چکا ہے‘ اسی حالت میں سنبھالے افغانستان سے بھاگ رہا ہے۔ امریکی قیادت‘ ری پبلکن ہو یا ڈیموکریٹک‘ افغانستان کی جنگ کو اب فضول‘ بے فائدہ جنگ قرار دے چکی ہے۔ ایک دفعہ نہیں کئی مرتبہ‘ وہ کابل انتظامیہ کے اپنے ہی لوگوں کو بتا چکے ہیں کہ تم جانو اور تمہارا کام جانے‘ خود لڑو اگر سکت ہے‘ ہم صرف مالی اور فوجی امداد جاری رکھیں گے۔ نہ جانے یہ بھی کب تک؟ ہتھیار ہوں‘ اڈے ہوں‘ وردیاں اور مواصلات کا نظام ہو‘ چھائونیاں اور فوجی قیادت ہو تو بھی میدان میں لڑنا تو فوجیوں نے ہوتا ہے۔ ادھر افغان حکومت بھرتی کرتی ہے‘ ادھر موقع ملتے ہیں اسلحہ سمیت فوجی بھاگ جاتے ہیں۔ بھگوڑوں کے بارے میں جو شماریات موجود ہیں‘ ان پر شک ہو تو نیو یارک ٹائمز یا کسی اور ذرائع سے آپ تصدیق کر سکتے ہیں۔
عرض کر رہا تھا کہ ہماری افغان پالیسی اب مختلف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کے فوجی انخلا سے پہلے افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین امن معاہدہ طے پا جائے۔ ابھی تک ایسے آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ ہمارے امریکی دوست بہت جلدی میں ہیں۔ یوں لگتا ہے‘ تین چار ہفتوں تک وہ جا چکے ہوں گے۔ ہم یہ بھی تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ طالبان جنگ کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کریں گے تو یہ نہ ہمارے‘ نہ ہی افغانستان کے مفاد میں ہو گا۔ سب کو معلوم ہے کہ نتیجہ خانہ جنگی ہو گا‘ اور جو کچھ گزشتہ بیس سال میں افغانستان کی تعمیر و ترقی ہوئی ہے‘ برباد ہو جائے گی۔ ہم افغانستان کی جنگوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہی بات کپتان نے دہرائی ہے کہ ہم نے اگر امریکہ کو اڈے دیئے تو یہاں پر دہشتگردی شروع ہو جائے گی۔ ہمارے اکثر مبصرین پاکستان میں دہشتگردی کو ضیاالحق کے دور اور سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی دس سالہ جنگ کے کھاتے میں بغیر کسی تحقیق اور گہرے مطالعہ کے ڈال دیتے ہیں۔ یہ دور تو 1988 میں ختم ہو گیا تھا‘ جب جنیوا میں معاہدہ ہوا‘ اور جنگ ختم ہو گئی تھی۔ نو گیارہ کے واقعات اور افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد بھی دہشتگردی کی فضا قائم نہ تھی‘ البتہ پشتون علاقے میں سخت مخالفت تھی‘ جس کے نتیجے میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد‘ متحدہ مجلسِ عمل 2002 کے انتخابات میں بلوچستان اور کے پی میں جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ میرے خیال میں دو واقعات کے بعد تحریکِ طالبان پاکستان بنی۔ پہلا واقعہ اسلام آباد کے وسط میں لال مسجد میں مورچہ بند یا محصور ”عسکریت پسندوں‘‘ کے خلاف کارروائی تھی۔ بہت سے لوگ مارے گئے‘ معلوم نہیں وہ کون تھے اور کتنے تھے۔ فوج کے افسر اور جوان بھی شہید ہوئے۔ اس کے اثرات زلزلے سے کم نہ تھے۔ ہماری سرحدوں تک پہنچے۔ مسلح گروہ اور تنظیمیں ریاست کے خلاف ابھرنے لگیں۔ دوسرا واقعہ قبائلی علاقوں میں دمدولہ کے مقام پر رونما ہوا۔ صبح سویرے ایک مدرسے میں جب بچے اور اساتذہ نماز کی تیاریوں میں مصروف تھے‘ ایک بھاری بم گرا‘ دھماکا دور تک سنا گیا۔ قریب کے دیہاتی آئے تو آگ‘ خون اور گوشت پوست کے ٹکڑے اکٹھے کئے۔ یہ دو ہزار سات کی بات ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈرون حملوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس علاقے میں لوگ مرتے رہے‘ ان کے گھر مسمار ہوتے رہے اور کھیتیاں برباد ہوتی رہیں۔ ہم صرف خبر نشر کرتے تھے۔ امریکی جنگ کے اثرات اور ہمارا ان کے ساتھ اتحاد ”دہشت گردی‘‘ اور ”دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے محرکات میں سے ہے۔ اس وقت ہم امریکہ کے ساتھ چلتے چلتے بہت آگے نکل گئے تھے۔ کچھ تجزیہ کر لیا ہوتا کہ اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ شکر ہے‘ اب یہ ادراک ہو چکا ہے۔ اچھا فیصلہ ہے‘ افغان جانیں‘ وہاں کے دھڑے جانیں اور ان کی خود بربادی کی جنگیں۔
افغان مظلوم بھی ہیں کہ بڑی طاقتوں نے ان پر طویل جنگیں مسلط کیں‘ بہادر اور غیرت مند بھی کہ بہت قربانیاں دیں اور مزاحمت کی‘ اندر سے تقسیم بھی رہے کہ دھڑے خریدے گئے اور انہیں مزاحمت کاروں کے خلاف استعمال کیا۔ افغانستان کی جنگوں کا ملبہ زیادہ تر ہمارے اوپر ہی پڑا۔ کپتان کی اس پالیسی کا ایک عرصے سے ملک اور عوام کو انتظار تھا۔ وہ تو ثابت قدم رہیں گے‘ مگر ہمیں اس کے نتائج کیلئے تیار اور اس کے خلاف جن دھڑوں کو میدان میں اتارا جائے گا‘ اور نہ جانے کتنے لوگوں کی جیبیں گرم ہوں گی‘ ان سے ہوشیار رہنا ہو گا۔ آزادی‘ اور آزاد خارجہ پالیسی اور دائمی قومی مفادات کے تحفظ کے لیے۔ دیکھتے ہیں سیاسی فنکاروں میں سے کوئی اس پالیسی کے حق میں آواز اٹھاتا ہے یا معنی خیز خاموشی اختیارکرتا ہے۔ خوف تو ہے‘ ماضی کی طرح ایوانِ اقتدار کی چابیاں دور دراز کے ملکوں میں بند کمروں کی خفیہ ملاقاتوں میں نہ تلاش کرنا شروع کر دیں۔ پھر نہ ہو گا عمران خان اور نہ کوئی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو انکار کرنے کی جرأت کر سکے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author