نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عثمان کاکڑ کی اچانک موت اور وسوسے || نصرت جاوید

’’صحافی‘‘ کو مگر اپنے تئیں بھی کچھ ’’مغزماری‘‘ کرنا چاہیے۔ہمارے کئی صحافی ادارے ’’مندی‘‘ کے موجودہ ماحول میں بھی نظر بظاہر اپنے اخبارات اور سکرینوں کی رونق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمان کاکڑ سے محض رسمی شناسائی تھی۔ان کی موت کی خبر نے لیکن اداس کردیا۔تقریباََ دس برس قبل مشتاق منہاس کے ساتھ مل کر بلوچستان کی سیاست کو برسرزمین جاکر سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ ہمارے ساتھ گفتگو کرنے والوں نے بیشتر ایسی باتیں کہیں جو ٹی وی سکرین پر دکھائی جائیں تو ’’باغیانہ‘‘ شمار ہوتی ہیں۔میں البتہ مصر رہا کہ دلوں میں جمع ہوئی بھڑاس کے اظہار کے بعد ہی سنجیدہ مکالمے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اچھا وقت تھا۔میری بات مان لی گئی۔

بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے بالآخر کوئٹہ پہنچے تووہاں تین روز تک قیام ضروری محسوس ہوا۔عثمان کاکڑ سے ان ہی دنوں تعارف ہوا تھا۔ محمود خان اچکزئی پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے بہت ہی متحرک کارکن تھے۔یہ جماعت کئی لوگوں کی نگاہ میں ناقابل برداشت حد تک ’’قوم پرست‘‘ ہے۔اس کی ’’حب الوطنی‘‘ پر بھی اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔عثمان کاکڑ ذاتی طورپر لیکن حیران کن حد تک عاجز اور منکسرالمزاج نظر آئے۔ کم گو شخص تھے۔اپنے نظریات کو آواز بلند کئے بغیر فقط دلائل کے ذریعے بیان کرتے۔

جن دنوں میں کوئٹہ میں تھا تو وہاں کئی نسلوں سے آباد چند پنجابی کنبے اپنے گھر بیچ کر دیگر صوبوں کو منتقل ہونا چاہ رہے تھے۔ انہیں خوف لاحق تھا کہ بلوچ انتہا پسند انہیں بلوچستان میں رہنے نہیں دیں گے۔خوفزدہ گھرانوں کے کئی نوجوانوں نے مجھے رازداری کے وعدے کے ساتھ مطلع کیا کہ عثمان کاکڑ جیسے سیاسی کارکن ہمسائیگی کے رشتے کا احترام کرتے ہوئے انہیں کوئٹہ ہی میں رہنے کو یقینی بنانا چاہ رہے ہیں۔کم از کم دو ایسے نوجوانوں نے اس کی وجہ سے اپنے گھر پر پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کا پرچم بھی لہرارکھا تھا۔اسلام آباد میں مقیم ہوئے میں اس خوش گوار پہلو سے ہرگز آگاہ نہیں تھا۔
2014میں عثمان کاکڑ بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوگئے۔ اپنی جماعت کے نظریات کا انہوں نے ایوان بالا میں ہمیشہ ڈٹ کر اظہار کیا۔ان کی شکوہ بھری تقریر میں تلخی نمایاں ہوا کرتی تھی۔ سیاسی مخالفین کی ذات پر بیہودہ فقرہ بازی اور کیچڑاچھالنے سے مگر انہوں نے ہمیشہ گریز کیا۔ایک مجسم سیاسی کارکن تھے۔وفاداری بشرط استواری کی بھرپور علامت ۔ان کی اچانک موت نے یقینا جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے ہمہ وقت بلند ہونے والی ایک توانا تر اور مستقل مزاج آواز کو بھی خاموش کردیا ہے۔

توازن کھوکر پھسل جانے کی وجہ سے لگی چوٹ ان کی ناگہانی موت کا سبب بتائی گئی ہے۔ان کے چند پرستار مگر سوشل میڈیا پر وسوسوں بھرے سوالات اٹھارہے ہیں۔میں فقط یہ التجا ہی کرسکتا ہوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومت باہم مل کر قابل اعتماد ڈاکٹروں کے ذریعے ان کی موت کے حقیقی اسباب کا جائزہ لے کر انہیں عوام کے روبرو لائیں۔وگرنہ…

اسلام آباد تک محدود ہوا گزشتہ چند دنوں سے جبلی طورپر اس اندیشے میں مبتلا ہورہا ہوں کہ وقت کی راکھ میں دبی چند چنگاریاں بلوچستان کے سیاسی ماحول میں دوبارہ بھڑکنے کو تیار ہورہی ہیں۔بلوچستان حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کا بجٹ پیش ہونے کے دن صوبائی اسمبلی میں جوہنگامہ آرائی ہوئی اس کی نظیر ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔بلوچستان میں امن وامان کو یقینی بنانا افغانستان میں ابھرتے سیاسی ماحول کے تناظر میں بھی مزید اہم ہوگیا ہے۔ہمارے میڈیا اور پارلیمان میں تاہم افغانستان کماحقہ حد تک زیر بحث ہی نہیں۔جو لاتعلقی نظر آرہی ہے وہ میرے لئے کافی پریشان کن ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان اس تناظر میں شکر گزاری کی مستحق ہیں۔وہ اس ہفتے کی 25تاریخ کو سینٹ کی خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کی سربراہ ہوتے ہوئے افغانستان کے بارے میں تفصیلی بریفنگ کا اہتمام کرنا چاہ رہی ہیں۔اس بریفنگ کو ماضی کی ایک دھانسو مدیر ہوتے ہوئے وہ پارلیمانی رپورٹروں کے لئے بھی ’’کھلا‘‘رکھنا چاہ رہی ہیں۔ٹی وی سکرینوں پر نمودار نہ ہونے کی وجہ سے ’’غیر صحافی‘‘ ہوجانے کے باوجود میں ہمیشہ اس بات کا متمنی رہوں گا کہ ’’حساس‘‘ خارجہ امور پر منتخب نمائندوں کے لئے بریفنگ کے دوران صحافی بھی موجود ہوں۔وہاں موجود صحافیوں سے اہم معاملات کو’’آف دی ریکارڈ‘‘ رکھنے کا وعدہ لیا جاسکتا ہے۔صحافیوں پر فیصلہ ساز حلقے مگر اب اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔’’حساس ترین‘‘ کلیدی عہدوں پر فائز افراد بھی جو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کرتے ہیں اس کی تفصیلات روایتی میڈیا پر نہ بھی آئیں تو یوٹیوب چینلوں کے ذریعے طشت از بام ہوجاتی ہیں۔
روایتی میڈیامیں ’’خبر‘‘کو نشر ہونے یا چھپنے سے قبل کم از کم تین مدیروں سے ’’کلیئر‘‘ ہونا پڑتا ہے۔یوٹیوب چینلوں پر ایسی کوئی چھلنی موجود نہیں ہے۔محض چند افراد جنہوں نے پرنٹ اور ٹی وی صحافت میں کئی برس گزارے ہیں بہت تولنے کے بعد اپنے یوٹیوب چینلوں پر بولنے کی صورت محسوس کرتے ہیں۔ ان کے برعکس جو نوجوان صحافی ہیں وہ خود پر ضبط لاگو کرنے والوں کو بزدل نہ سہی ’’مصلحت پسند‘‘ ضرور پکارتے ہیں۔ نظر بظاہر وہ بلھے شاہ کی طرح ‘‘منہ آئی گل نہ رہندی اے‘‘ کے قائل ہیں۔بات کو گھماپھرا کر کہنے کے بجائے خود کو منہ پھٹ انداز اپنائے ’’حق گو‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔حقیقت مگر یہ ہے کہ یوٹیوب سے رزق کمانے کا بندوبست فقط اسی صورت ممکن ہے اگر آپ کے باقاعدہ صارفین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے۔اس تعداد تک پہنچنے کے لئے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں اپنی پسند کے لوگوں کے دلوں میں نسلوں سے موجود غصے اور ہیجان کو بھڑکانا ضروری ہے۔’’غیر جانب دار صحافت‘‘ کا پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں ’’مارکیٹ‘‘ کے تقاضوں نے خاتمہ کردیا ہے۔اسی باعث دور حاضر کو کئی سماجی محققین اب مابعداز حقائق ہی نہیں مابعد از صحافت کا زمانہ بھی پکارنا شروع ہوگئے ہیں۔

’’ایہہ منظور تے ایہہ نا منظور‘‘ والا رویہ سوشل میڈیا پر رونق تو لگادیتا ہے مگر اس کے ذریعے افغانستان جیسے دیرینہ اور انتہائی پیچیدہ موضوعات کا گہرائی سے جائزہ لینا ممکن ہی نہیں۔سینٹ کے اجلاس میں پیر کے روز تقریر کرتے ہوئے محترمہ شیری رحمن درست وجوہات کی بنیاد پر شدت سے دہراتی رہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنے کے لئے 4جولائی سے قبل ہی تلے بیٹھے ہیں۔جو تاریخ طے ہوئی ہے اس تک پہنچنے کو دو ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔قطر میں کئی مہینوں سے جاری مذاکرات کی بدولت ہمیں یہ امید دلائی گئی تھی کہ افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاء سے قبل افغان سیاست دان کے تمام اہم فریقین کی باہمی مشاورت سے کوئی ایسا بندوبست تشکیل دیا جائے گاجو غیر ملکی افواج کے انخلاء کی وجہ سے نمودار ہونے والے خلاء کو خوفناک خانہ جنگی کی طرف نہ دھکیلے۔یہ کالم لکھنے تک مطلوبہ بندوبست ہوا نظر نہیں آرہا ۔ نہ ہی اس کے ٹھوس امکانات دور دور تک دکھائی دے رہے ہیں۔دریں اثناء روزانہ کی بنیاد پر افغانستان سے خبریں آرہی ہیں کہ وہاں کے کئی صوبوں کے بیشتر علاقے سرعت سے طالبان کے کنٹرول میں آرہے ہیں۔یوں گماں ہوتا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد موجودہ افغان حکومت کابل،قندھار اور جلال آباد جیسے بڑے شہروں تک محدود مگر کئی اعتبار سے محصور بھی ہوجائے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا اس کے بارے میں کسی کو خبر نہیں۔

میں یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ ہمارے ریاستی اداروں نے افغانستان کے مستقبل کی بابت طویل مشاورت کے بعد ممکنہ مناظر کی تفصیل مرتب نہیں کی۔انہوں نے ہر نوع کی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لئے چند اقدامات بھی سوچ لئے ہوں گے۔مجھے خبر نہیں کہ طویل سوچ بچار کے نتیجے میں تیار ہوئے مستقبل کے ایسے خاکے کس حد تک پارلیمان کے روبرو رکھے جاسکتے ہیں۔صحافیوں کو اعتماد میں لینا تو بہت دور کی بات ہے۔

’’صحافی‘‘ کو مگر اپنے تئیں بھی کچھ ’’مغزماری‘‘ کرنا چاہیے۔ہمارے کئی صحافی ادارے ’’مندی‘‘ کے موجودہ ماحول میں بھی نظر بظاہر اپنے اخبارات اور سکرینوں کی رونق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔کاش ان میں سے چند اپنے نمائندوں کو افغانستان بھیجنے کی بابت بھی سوچیں۔برسرزمین حقائق کو صرف وہ ہی ہمارے لئے بیان کرسکتے ہیں۔ ٹھوس حقائق سے لاعلم رہتے ہوئے محض قیافہ اور قیاس آرائی ہوسکتی ہیں۔ افغانستان مگر ٹھوس حقائق کے اجاگر ہونے کا حق دار ہے۔ہم وہاں کی حقیقت سے غافل رہے تو ایسے مضمرات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا جن کے لئے ہم ذہنی طورپر ہرگز تیار نہیں ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author