حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکرر عرض ہے طالب علم کی خواہش فقط یہی ہے کہ اختلافات مکالمے سے دور کئے جائیں یہی زندگی کا حسن ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگ کیا چاہتے ہیں صاف سامنے دیوار پر لکھا ہے۔ گزشتہ روز سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے اپنے دور میں کئے گئے اقدامات پر تفصیل کے ساتھ بات کی۔
ایک بات وہ بتانا بھول گئے کہ پنجاب اسمبلی میں چونکہ نواز لیگ کی اس وقت اکثریت تھی اس لئے دو قراردادیں منظور ہوئیں۔ نواز لیگ نے بہاولپور صوبہ کے لئے قرارداد منظور کروائی۔ سیدی یوسف رضا گیلانی نے اس ضمن میں جن خیالات کا اظہار کیا اگلے کسی کالم میں تفصیل کے ساتھ انہیں رقم کرتا ہوں۔
فی الوقت جو بحث جاری ہے اس کے حوالے سے دو خطوط موصول ہوئے پہلا خط جناب عنایت اللہ مشرقی کا ہے وہ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر ہیں۔
دوسرا خط راولپنڈی سے پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ قنبر کا ہے۔
گزشتہ روز ایک دوست نے شکوہ کیا یکطرفہ بات ہورہی ہے پیپلزپارٹی کے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے دوستوں کا موقف شامل نہیں کیا جارہا۔
عرض کیا حکم کریں کس کے پائوں پکڑ کر کہوں کہ اپنا موقف لکھ کر دیجئے۔ اولین کالم میں درخواست کی تھی اس صحت مند مکالمے میں حصہ لیجئے۔
عین ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی کے دوست اسے وقت کا ضیاع سمجھتے ہوں یا پھر یہ کہ ہم کون سا مشہور کالم نگار ہیں کہ وہ ہماری درخواست کو پذیرائی بخشیں۔
بہرطور اگر پی پی پی سرائیکی وسیب کے دوست اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیں تو کالم کا دامن اور اخبار کا ادارتی صفحہ دونوں حاضر ہیں۔
آپ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر سئیں عنایت اللہ مشرقی کا خط پڑھ لیجئے وہ لکھتے ہیں:
سید صاحب! میں آپ کی تحریروتقاریر کا مداح ہوں۔ پیپلزپارٹی اور سرائیکی قوم پرستوں کے حوالے سے آپ کے گزشتہ کالموں میں اپنائے گئے موقف سے متفق ہوں۔ اگرچہ سئیں ڈاکٹر اشو لال نے قوم پرستوں اور سرائیکی قوم پرستی کی سیاست کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ قابل افسوس ہے لیکن قوم پرستوں کو جوابی ردعمل میں اخلاقیات کا دامن تھامے رہنا چاہیے تاکہ مکالمہ ہو بدمزدگی نہیں۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی سے تعلق کی دعویدار ایک گالم گلوچ بریگیڈ نے اس سارے معاملے کو بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ افسوس کہ پی پی پی کے کسی سنجیدہ فرد نے اس گروپ سے برات کا اظہار کیا نہ ہی اس روش پر افسوس ظاہر کیا الٹا ہمارے بہت سارے دوستوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے سرائیکی قوم پرست جماعتوں پر ہی حملے کئے۔
وفاقی سیاست کرنے والی ایک جماعت کا علاقائی منصب حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر اشو لال سئیں نے جو رویہ اپنایا وہ بھی افسوسناک ہے یہ میرے اور ان کے تمام پرانے مداحوں کے لئے حیران کن بات بھی ہے اور المیہ بھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بدزبانی دونوں طرف سے ہوئی جو قابل افسوس ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس معاملے پر جس بحث کے سلسلے کا آپ نے آغاز کیا اس میں دونوں طرف کے دوست اپنے خیالات کا اظہار کریں گے تاکہ مثبت نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ میں آپ کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، سلامت رہیں۔
خیر اندیش
عنایت اللہ مشرقی
صدر ، سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی
دوسرا خط راولپنڈی سے پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ غلام قنبر کا ہے وہ لکھتے ہیں:
شاہ جی!
’’سرائیکی صوبہ اور پیپلزپارٹی کے حوالے سے آپ نے کالموں کا جو سلسلہ شروع کیا یہ ایک قابل تحسین عمل ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بدزبانی، گالم گلوچ اور دوسرے کی رائے سے انکار کی ہٹ دھرمی کی بجائے صحت مند مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پیپلزپارٹی کی قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ جناب ڈاکٹر اشو لال کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے محترم عاشق بزدار کے لئے شہید رانی محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں اس منصب پر جناب عاشق بزدار کی تقرری کے نوٹیفکیشن کی طرح جنوبی پنجاب کی بجائے پیپلز کلچر ونگ سرائیکی لکھتی۔
پیپلزپارٹی کا ایک رکن ہونے کی حیثیت میں سرائیکی وسیب کے جیالے دوستوں سے کہوں گا کہ سیاسی کارکنوں والا رویہ اپنائیں۔ سیاسی کارکن دھونس، گالی اور تضحیک سے نہیں دلیل سے بات کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر میرے دوستوں کا رویہ نامناسب ہے۔ پیپلزپارٹی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی رکھتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ میرےجیالے دوست فرد کی بجائے پارٹی سے محبت کا اظہار کریں اور قوم پرستوں کے سامنے اپنی پارٹی کا موقف رکھیں۔ راجہ صاحب نے اپنے جیالے دوستوں کو سازشی عناصر سے دور رہنے کا مشورہ بھی دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ سازشی عناصر سرائیکی قوم پرستوں اور پیپلزپارٹی میں لڑائی کرواکے ’’کسی اور‘‘ کی خدمت کررہے ہیں‘‘۔
کالم کے اس تیسرے حصہ میں گو کہ وضاحت کی ضرورت نہیں پھر بس عرض کئے دیتا ہوں کہ ایک اخبار نویس کی حیثیت سے ہمارا فرض یہی ہے کہ ذاتی جذبات و خیالات کچھ بھی ہوں ’’سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب‘‘ کے حوالے سے موصول ہونے والی آرا من و عن کالم کا حصہ بنائیں۔ ہمارے کچھ دوست کالم کے جواب میں سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں ان کا حق ہے مگر مناسب ہوگا کہ وہ اپنی رائے ہمیں بھجوادیں تاکہ اسے کالم کا حصہ بنایا جاسکے۔
باردیگر یہ عرض ہے کہ ایک حقیقی سیاسی جماعت وہی ہوتی ہے جس کے کارکنان عصری شعور کی دولت سے مالا مال ہوں۔
سیاسی جماعت جمہوری رویوں کو پروان چڑھاتی ہے یہ دھرم یا عقیدہ ہرگز نہیں ہوتی
اسی لئے تو وقت کے ساتھ وہ اپنے دستور اور منشور میں معروضی حالات کی روشنی میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے اساسی نظریات، ابتدائی منشور اور 2018ء کے انتخابی منشور کا مطالعہ کرلیجئے سہل انداز میں بات سمجھ میں آجائے گی کہ سیاسی جماعت کی اصل ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔
آخری بات ان دوستوں کے لئے جو ٹیلیفون پر طویل شکوہ کرتے ہیں لیکن چند سطریں لکھ کر بھیجنے میں تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ان احباب کی خدمت میں اب بھی یہی عرض ہے کہ حضور آیئے اس مکالمے میں شرکت کیجئے اپنی بات کہیں دوسروں کی سنیں تاکہ آگے بڑھا جاسکے۔ ثانیاً یہ کہ دونوں طرف کے جو لوگ سوشل میڈیا پر طنزیہ پوسٹیں لگاکر اپنے اپنے احباب سے داد پارہے ہیں کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے فاصلے بڑھ رہے ہیں۔
سرائیکی وسیب تو کُل کی خیر سب کا بھلا والی فہم کا وارث ہے۔ ہم سب کو ایک دوسرے سے اختلاف کا شعوری اور جمہوری حق ہے، طنز و تضحیک کا نہیں وہ کوئی بھی کرے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر