وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ دورِ جاہلیہ کی بیسیوں خرابیاں گنوا سکتے ہیں۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت پر بارِ صد تف کاری کر سکتے ہیں۔ مگر ایک داد تو بنتی ہے۔ عرب اپنے حریفوں پر ہر طرح کی پھبتی کستے تھے، ہجو کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے مگر اپنے دشمن تک کی عورت کا نام لے کر برسِرِ عام دشنام طرازی یا ہجو گوئی کو نامردی گردانتے تھے۔
کبھی کسی میں یہ خو جاگتی بھی تھی تو سماج کی گھورتی آنکھیں اس کا حوصلہ پست کر دیتی تھیں۔
جب اسلام آیا تو بیٹے باپ کے احترام میں کھڑے ہوتے تھے مگر باپ بیٹی کے احترام میں کھڑا ہو جاتا تھا۔ یہ کوئی ذاتی لگاؤ یا خون کی محبت کا معاملہ نہیں تھا بلکہ چاردانگِ عالم کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ نیا اخلاقی نظام کن بنیادوں پر استوار ہونے جا رہا ہے۔
اس نئے نظام کے تحت درخت، بزرگ، عورت اور بچے انتقام کے دائرے سے یکسر خارج کرنے کا فرمان جاری ہوا۔ یہ نبی ہی کی تو تعلیم ہے کہ کوئی بات نامکمل یا سیاق و سباق سمجھے بغیر بنا تحقیق منہ سے مت نکالو۔ جتنی بات یا واقعہ ہے اتنا ہی بیان کرو۔ اس میں سے لذت و ازیت کشید کرنے کے لیے یا زیبِ داستاں کے لیے ہرگز بڑھاوا مت دو۔
دلیل کا مقابلہ ذاتی جذبات کی شمشیر سے مت کرو۔ بے دلیل ہو جاؤ تو سامنے والے کی تسلیم کرو ورنہ خاموشی اختیار کر لو۔ یہ نہ ہوا تو سارا عذاب مفت میں تمہاری گردن پر ہو گا۔
لیکن امت کوئی بھی ہو ان تعلیمات کو برحق تو سمجھتی ہے البتہ عمل کا بار اٹھانے پر ہرگز آمادہ نہیں ہوتی۔ کبھی آبا و اجداد کے رواجی برگد تلے پناہ لیتی ہے، کبھی اصل شریعت کے اندر سے اپنی سہولت کی شریعت نکال لیتی ہے۔ اپنی خواہشات فتاوی کے دھاگوں سے سی کر من مرضی کے پہناوے تیار کرتی رہتی ہے۔
کبھی اصل پیغام کے اندر پوشیدہ روح کو کج بحثی کے اوزار سے زخمی کر کے بھگانے کے بعد بے روح ڈھانچے کی پوجا شروع کر دیتی ہے۔ یہی جبلی ٹیڑھ تو ہے جسے سیدھا کرنے کے لیے پے درپے انبیا اتارے جاتے رہے۔ مگر پرنالہ آج بھی وہیں کا وہیں ہے۔ آج جو بھی منظر ہے اسی نظریاتی کج رویانہ آپا دھاپی کا نتیجہ ہے۔ گویا مناقفت سکہ رائج الوقت ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی بھی سماج کی ذہنی صحت جانچنی ہو تو بس یہ دیکھ لو کہ وہاں کمزور طبقات، عورت اور بچوں کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔ ہم جو مغرب کی عورت کے استحصال کے مقابلے میں مشرق کی عورت کی عظمت کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ تو ہم یہ گن کیوں گاتے ہیں؟
کیا ہمارے ہاں جو گالیاں مروج ہیں ان میں عورت کا کردار مغربی یا کسی اور سماج کی گالیوں سے کم ہے؟ کیا ہم عورت کے حجاب و پہناوے سے زیادہ اپنی نگاہ کے پردے پر کسی اور سماج سے زیادہ زور دیتے ہیں؟ کیا ہم انتقام کی آگ میں اندھے ہونے کے باوجود مرد، عورت اور بچے کی تمیز برقرار رکھتے ہیں؟
کیا ہمارے قوانین دیگر ریاستوں کے قوانین سے زیادہ عورت دوست ہیں؟ کیا ہمارے ہاں عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو سزائیں دینے کا تناسب کسی اور ملک کے مقابلے میں مثالی ہے؟ کیا ہم مرد سے زیادہ عورت کی لازمی تعلیم کے حق میں ہیں؟
کیا ہمارے ہاں روزمرہ خانگی مسائل، رشتے ناتے کے امور، جائیدادی بٹوارے جیسے بنیادی معاملات میں عورت سے پوچھنے کی شرح کسی بھی دیگر سماج کے مقابلے میں حوصلہ افزا ہے؟ کیا غیرت و بے غیرتی کے امتحان میں اپنے بیٹے یا بیٹی کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں یا پھر ایک کے لئے آنکھیں ضرورت سے زیادہ کھلی رکھتے ہیں اور دوسرے کے لیے مکمل بند کر لیتے ہیں؟ کیا ہماری عورت اور ہمارا بچہ دیگر کسی بھی معاشرے کے مقابلے میں گھر کے اندر یا باہر زیادہ محفوظ ہے؟
اگر ان سوالات میں سے پچاس فیصد کے جوابات بھی اثبات میں ہیں تو پھر اس سماج کو میرا پرخلوص سلام۔
ذرا تصور کریں اگر مہر النسا مخفی بادشاہ اورنگزیب کے بجائے کسی اور کی بیٹی ہوتی تو کیا اس کی شخصیت کی چیر پھاڑ کیے بغیر اس کے اشعار کی اتنی ہی پذیرائی ہوتی جتنی آج تک ہے۔
اگر فاطمہ جناح محمد علی جناح کی ہمشیرہ نہ ہوتیں تو کیا ان کے تاحیات شادی نہ کرنے کے فیصلے کو بنا چہ مگوئیوں کے یہ سماج اتنا ہی احترام دیتا؟
مگر میں شاید حسن ظن سے کام لے رہا ہوں۔ بے نظیر بھی ایک بڑے باپ کی بیٹی تھی مگر اس کے ایک ایک قدم کی جانچ کے لیے خوردبینیں فٹ تھیں۔
آج اگر ملالہ کے چاروں طرف ایکسرے پلانٹ نصب ہیں تو حیرت کیوں؟ سوچیے اگر تاریخ پر اثرانداز ہونے والی عورتیں نہیں بخشی گئیں تو ہمارے اردگرد کی ایک عام عورت کس کھیت کی مولی ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر