وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تیسری دنیا کے ممالک اپنی رعیت پر ظلم و ستم اور بنیادی حقوق کی سلبی اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کے لیے مسلسل بدنام ہیں۔ ترقی یافتہ بالخصوص مغربی ممالک انھی پامالیوں کو کوڑا بنا کر ہماری پیٹھ لال کرتے رہتے ہیں۔
ہمیں انسانی عظمت و وقار اور قانون کی حکمرانی کے لیے الٹی میٹم اور ڈیڈ لائنز دی جاتی ہیں۔ اقتصادی، سفارتی و سیاسی پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور جو جو بد تہذیب ممالک ”مہذب دنیا“ کے طے کردہ حقوق کے معیار پر پورے اترتے جاتے ہیں انھیں گڈ بوائے کی سند بھی عطا ہوتی ہے اور پھر سے رعایات بھی بحال ہونے لگتی ہیں۔
مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سند عطا کرنے والوں کا مضبوطی سے بندھا پاجامہ اچانک کھسک جاتا ہے اور ”تابناک ماضی“ جھانکنے لگتا ہے۔ یا اچانک ماضی کی مضبوطی سے بند کی گئی الماری کا پٹ کھل جاتا ہے اور اس میں سے چند کھوپڑیاں باہر نکل پڑتی ہیں۔
انھیں فوراً ہی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دوبارہ الماری کا پٹ مضبوطی سے بند کر دیا جاتا ہے اور اپنی جانب مرکوز مختصر دورانئے کی عالمی توجہ بھٹکانے کے لیے روس، چین، ایران، سعودی عرب، پاکستان، بھارت، برما، افریقہ اور جنوبی امریکا میں انسانی حقوق کی پامالی کا میوزک تیز کر دیا جاتا ہے اور پھر انھی ممالک سے نئے اقتصادی و اسلحی سودے کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ جب کینیڈا سے خبر آئی کہ انیسویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک وہاں کے اصل باشندوں کے بچوں کو جس طرح ان کے پیاروں سے چھین کر سرکاری اداروں اور چرچ کے زیرانتظام مخصوص تعلیم گاہوں میں مہذب بنانے کے لیے بھیجا گیا۔ انھی میں سے ایک تعلیم گاہ کے احاطے سے ایک اجتماعی قبر میں لگ بھگ ڈھائی سو بچوں کے ڈھانچے اور آثار برآمد ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ کینیڈا کے سفید نوآبادیاتی ماضی کی یادگار ایسی کئی قبریں کھولے جانے کی منتظر ہیں۔
وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس دریافت پر یوں صدمہ ظاہر کیا گویا پہلی بار پتہ چلا ہو۔ سنا ہے کہ اب ماضی کے دھندلکوں میں گم ایسے ہزاروں گمنام و لاپتہ بچوں کے ورثا کو بھی تلاش کیا جا رہا ہے جن سے نہ صرف اس بھیانک باب کی بابت تعزیت کی جا سکے بلکہ اشک شوئی کی خاطر کچھ معاوضہ بھی دیا جا سکے۔ یقین نہیں آتا کہ کھلے پن اور کھلے دل کا موجودہ کینیڈا سو برس پہلے تک اپنے ہی اصل باشندوں کے لیے کیسا جہنم تھا اور اس جہنم کو قانون کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔
پھر کینیڈا کے ہمسائے ریاست ہائے متحدہ امریکا سے خبر آئی کہ اوکلاہوما کے نواحی شہر گرین وڈ میں سیاہ فاموں کے علاقے تلسا میں قتل عام کی ایک سو ویں برسی کے موقع پر اسے باقاعدہ نسل کشی کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ اب تک مقامی تاریخ کی کتابوں میں اس قتل عام کو ایک مقامی نسلی بلوہ قرار دے کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر حقائق کی مسخ شدہ اس پھولی لاش کو باقاعدہ ایک اعترافی نام دے کر تاریخی حقائق کو درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
قصہ یوں ہے کہ تیس مئی دو ہزار اکیس تک تلسا کا قصبہ ایک نسبتاً خوشحال اور محنتی سیاہ فام آبادی کا مرکز تھا۔ مگر ایک سیاہ فام نوجوان کی جانب سے ایک سفید فام عورت پر مجرمانہ حملے کی افواہ کو مقامی اخبارات نے شہ سرخی کی شکل دی اور پہلے سے تیار سفید فام جتھوں نے پورے علاقے کو مٹا ڈالا۔
اگلے اڑتالیس گھنٹے میں تین سو سے زائد سیاہ فام شہری لاشوں میں تبدیل ہو گئے۔ ہر عمارت راکھ کا ڈھیر بن گئی۔ درجنوں لاشیں دریائے آرکنسا میں اٹکی ہوئی پائی گئیں۔ زندہ بچ جانے والے دوسری ریاستوں کی جانب فرار ہو گئے اور پھر مورخ نے اس پورے واقعہ پر سفید موٹی ترپال ڈال دی۔ جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔ کسی پر فرد جرم عائد نہیں ہوئی۔ پورا المیہ داخل دفتر ہو گیا۔ جو اس نسل کشی کا نوالہ بنے الٹا وہی ملزم بھی ٹھہرے۔ اب سو برس بعد کہیں جا کے اس بوسیدہ ترپال کو سچ کے ڈھانچے پر سے ہٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اور گزرے ہفتے یہ خبر بھی آئی کہ جرمنی نے ایک سو تیرہ برس بعد اور پانچ برس تک ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں بالآخر افریقہ ہائے جنوب کے ملک نمیبیا پر اٹھارہ سو چوراسی سے انیس سو پندرہ تک کے قابض عرصے میں نسل کشی پر دل سے معافی مانگنے کا اعلان کیا ہے۔
پس منظر یہ ہے کہ اٹھارہ سو چوراسی میں برلن میں تمام نوآبادیات پسند یورپی طاقتوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں آپس میں لپا ڈگی کے بجائے براعظم افریقہ کو کیک کی طرح کاٹ کر اس کی بندر بانٹ کا فیصلہ ہوا۔ سب سے بڑا ٹکڑا برطانیہ کے حصے میں آیا۔ کیک کا دوسرا بڑا حصہ فرانس اور تیسرا بڑا حصہ جرمنی کو ٹوگو، کیمرون، تنزانیہ اور نمیبیا کی شکل میں ملا۔
جب جرمن فوجی نمیبیا قبضہ لینے پہنچے تو ہکا بکا مقامی آبادی کو طاقت کے زور پر دبا لیا گیا۔ مگر انیس سو چار میں نمیبیا کے دو بڑے قبیلوں ہیریرو اور ناما نے اپنی چراگاہوں کو غصب کرنے والے مشین گنوں اور توپوں سے لیس بن بلائے مہمانوں کے خلاف برچھیاں اور بھالے اٹھا کر مزاحمت کی تو نمیبیا کے جرمن فوجی گورنر لوتھر وان ٹوتھا نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ دونوں قبائل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
چنانچہ اگلے چار برس میں ہیریرو اور ناما قبائل کی اسی فیصد آبادی مار دی گئی اور باقی بیس فیصد قبائلیوں کو کنسنٹریشن کیمپوں میں بند کر دیا گیا۔ حکم عدولی کی پاداش میں ہلاک کیے جانے والوں کی کھوپڑیاں صندوقوں میں بھر بھر کے جرمنی پہنچائی گئیں تاکہ سائنسدان اور جینیاتی ماہرین ان کے تجزیے سے اعلیٰ اور ادنی نسل کے اوصاف کی قسم بندی کر سکیں۔
نمیبیا میں ہونے والے تجربے کو بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی کا نام دیا گیا۔ انھی کنسنٹریشن کیمپوں کی طرز پر پچیس برس بعد ہٹلر نے نسل کشی کا ایک وسیع اور زیادہ جدید صنعتی نظام قائم کیا۔ ان کیمپوں میں یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کو تیز رفتاری سے مٹانے کے لیے گیس چیمبرز بنائے گئے اور جینیاتی مطالعے اور طبی تجربات کے لیے کھوپڑیوں اور ڈھانچوں کی فصل اکٹھی کی گئی۔
کہیں دو ہزار اٹھارہ میں جرمنی آمادہ ہوا کہ نمیبیا سے لائی گئی کھوپڑیاں واپس کی جائیں تاکہ انھیں باعزت طریقے سے ان کی آبائی مٹی میں دفن کیا جا سکے۔
جرمنی میں یہودیوں اور دیگر اقلیتوں اور مخالفین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی قومی ندامت کا جرمانہ آج تک بھرا جا رہا ہے۔ انیس سو باون میں اسرائیل اور جرمنی کے مابین ہونے والے ایک سمجھوتے کے تحت کنسنٹریشن کیمپوں میں زندہ بچ جانے والوں اور مرنے والوں کے ورثا کو آج کی تاریخ تک اسی ارب ڈالر کے مساوی معاوضہ پنشن، فلاحی وظائف اور یادگاری منصوبوں کی تعمیر کی مد میں ادا ہو چکا ہے۔ جرمنی گزشتہ ستر برس میں اس سیاہ باب کی ندامت میں متعدد بار معافی مانگ چکا ہے۔
مگر جب نمیبیا سے معافی مانگنے کا سوال اٹھا تو اس میں ایک سو تیرہ برس لگ گئے۔ نمیبیا کی نسل کشی کے شکار قبائل کے ورثا کی تعلیم، صحت اور سماجی بھلائی کی سہولتوں کی مد میں یورپ کے سب سے امیر ملک نے محض ایک ارب چونتیس کروڑ ڈالر کے برابر ازالاتی معاوضہ دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ معاوضہ بھی نقد نہیں بلکہ اگلے تیس برس میں ترقیاتی منصوبوں کی شکل میں ادا کیا جائے گا۔
نمیبیا کی چونکہ کوئی مضبوط بین الاقوامی سطح کی لابی نہیں۔ نا ہی اس میں اتنی طاقت ہے کہ اسرائیل کی طرز پر جرمنی کو مستقل احساس جرم میں مبتلا رکھ کے معاوضہ وصول کرتا رہے۔ لہٰذا نمیبیا نے ”جہاں ہے اور جیسا ہے“ کی بنیاد پر مٹھی بھر ازالہ قبول کر لیا۔ یوں جرمنی کا بھی ضمیر مطمئن ہو گیا کہ معافی بھی مانگ لی اور کچھ پیسے بھی ہاتھ پر دھر دیے۔ اب اس ”انسانیت نواز“ مظاہرے کے بعد نمیبیا اپنے اندوہناک ماضی کے عوض جرمنی کی جان لے گا کیا؟
اور جب یہی معزز طاقتیں آج کی دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی عظمت کے مساوی مادی ازالے کا ہر منڈپ پر مطالبہ کرتے ہوئے ماتمی لہجہ اختیار کرتی ہیں تو بس مزہ ہی تو آ جاتا ہے۔
نا میں سمجھا نا آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے
( انور دہلوی)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر