شہزاد عرفان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد کُنڈی MPA (پیپلزپارٹی) نے KPK اسمبلی میں سرائیکی کو پارلیمانی زبان بنانے کی قرار داد پیش کی ہے ۔۔۔۔منظور ہوتی ہے یا نہیں الگ بحث ہےمگر کیاسرائیکی وسیب میں چند سینئر جونیئر فیس بکی سرائیکی جیالوں کو چھوڑ کر پنجاب میں بھی کوئی جیالہ اپنی جماعت میں اتنی جرات اور وقار رکھتا ہے کہ اپنی شناخت اپنے لوگوں اپنی زبان کے کئے اس طرح کی قرارداد پیش کروا سکے یا کم از کم اپنی جماعت میں ہی اس سوال کو اٹھانے کی جرات کرسکے ؟ ۔۔۔۔۔ کیا اس طرح کی جرات رکھنے والا سرائیکی جیالہ پیپلزپارٹی میں اسٹبلشمنٹ کا ایجنٹ کہلائےگا؟ میں نے بار ہا لکھا ہے ۔۔۔ دوستوں کو مطلع کیا ہے کہ ایک مخصوص فیسبکی سرائیکی جیالہ گروپ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پیپلزپارٹی اور سرائیکی وسیب کے عوام کو جزباتی کرکے دراڑ ڈال رہا ہے انہیں پیپلزپارٹی سے متنفر کر رہا ہے ۔۔۔۔ وہ سرائیکی قوم پرستوں کو گالیاں بطور جیالا دیتے ہیں سرائیکی اگوان اور سیاسی کارکنوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں غیر جمہوری زبان استعمال کرتے ہیں اور جب اسکے جواب پیپلزپارٹی کے خلاف ایک لہر اٹھتی نظر آتی ہے تو مظلوم بن کر فیس بک کے صفحات کالے کرتے ہیں ۔۔۔۔ یہی ان کا مقصد ہے یہ انکا ایجنڈا ہے اس میں پولورازیشن ہوتی ہے اور وہ سرائیکی بھی زد میں آتے ہیں جو بیک وقت سرائیکی قومی تحریک سے بھی جڑے ہیں اور پیپلزپارٹی سے سرائیکی صوبہ کے حصول کے لئے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس سیاسی کلب میں جمہوریت کا تھوڑا زیادہ جو بھی کلچر نظریہ باقی بچا ہے وہ صرف پیپلزپارٹی میں ہے حلانکہ انکے لئے ابھی تک پیپلزپارٹی کا دیا ہوا لفظ “جنوبی پنجاب “ دل میں کانٹے کی طرح چھبتا ہے وہ اسے آج تک کسی صورت بھی جنوبی پنجاب سے سرائیکی وسیب سرائیکستان یا سرائیکی صوبہ نہیں منوا سکے یہاں تک کے سید یوسف رضا گیلانی جیسا شخص جو پیپلزپارٹی میں بھاری بھرکم وزنی مقام رکھتا ہے وہ چاہتے ہوئے بھی ایسا اپنی جماعت سے یہ فیصلہ تبدیل نہیں کراسکے ۔۔۔۔ ایسی صورتحال میں سرائیکی وسیب کے اندر اس سوال کو لیکر دراڑ مزید بڑھتی جارہی ہے ۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آبادکاری لوٹ کھسوٹ اور مقامی شناخت کے خلاف اسے مٹانے کا عمل سب سے زیادہ پنجاب میں ہے پنجابی شاؤنسٹ اشرافیہ جہاں دیگر مذہبی پرواسٹبلشمنٹ جماعتوں میں بڑی تعداد میں اپنی طاقت رکھتے ہیں وہاں پیپلزپارٹی پنجاب میں بھی انکی تعداد اور طاقت مضبوط ہے سرائیکی وسیب میں پیپلزپارٹی کے سرائیکی لبرل جمہوریت پرست قومی سرائیکی باشعور سیاسی کارکنان کی ان کے مقابلے میں صفر حیثیت ہے ان کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے سنی نہیں جاتی ۔۔۔۔۔ پیپلزپارٹی کی سندھی قیادت وقت کی مصلحت کے تحت البتہ گاہے بگاہے انبسرائیکی دانشوروں کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہے مگر ایک مخصوص زاویہ اور فاصلے سے کہ کہیں وہ پیپلزپارٹی کی پنجابی اشرافیہ کو ناراض نہ کر بیٹھیں ۔
پیپلزپارٹی کے سرائیکی جیالوں دانشوروں لکھاریوں نے پچھلے تیس سالوں میں سرائیکی صوبے نام شناخت اور حدود کے مطالبے کی جدوجہد وسیب بھر میں جاری رکھی ہے جسے ہمیشہ سرائیکی عوام میں سراہا گیا اور اسکے بدلے پیپلزپارٹی نے ابتدائی الکشن میں سرائیکی وسیب سے فتح بھی حاصل کی مگر یہ سب بی بی شہید کی زندگی حیاتی تک تھا اور وہ سرائیکی سوال پنجابی بالا دستی قومی حقوق کی بازیابی کو وفاق میں توازن کو برقرا رکھتے ہوئے سمجھتی تھیں ۔۔۔۔ اس لئے انہیں کے سنہرے ادوار میں سرائیکی وسیب میں سرائیکی شعور بڑھا سرائیکی حقوق اور شناخت کا مطالبہ زور پکڑا اور وسیب کی اپنے صوبے کے لئے پیپلزپارٹی سے امیدیں وابستہ ہوتی چلی گئیں ۔۔۔۔ مگر انکی شہادت کے فورا بعد ہے بلخصوص پنجاب میں پیپلزپارٹی پر پنجابی اشرافیہ کا قبضہ مظبوط ہوتا چلا گیا بلاول بھٹو کو سندھ چھوڑ کر لاہور میں بلاول ہاؤس بنانا پڑا ۔ پنجابی اشرافیہ جس میں جرنیلوں کے قریبی رشتے دار اور وہ سرمایہ دار جاگیردار جنہیں اسٹبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل تھی وہ دیکھتے دیکھتے پنجاب کی پیپلزپارٹی پر قابض ہوگئے جنہیں ہم پی ٹی آئی کے زمانے میں جرنیلوں کے اشاروں پر پی پی پی سے پی ٹی آئی میں وزیر مشیر بنتا دیکھتے ہیں مگر ایسے ابھی کئی اور پیپلزپارٹی میں پنجابی بنیاد پرست موقع پرست شاؤنسٹ اعلی عہدوں پر موجود ہیں جنہیں پیپلزپارٹی چاہ کر بھی نہیں چھوڑ سکتی کیوں کہ اقتدار کا راستہ بزریعہ فوج ہے اور وہ طاقت ور پنجابی اشرافیہ کا طبقہ اسکا دروازہ ہے۔ ان کے مقابلے میں سرائیکی وسیب کے چند کمزور سے ورکنگ کلاس کے سیاسی کارکن دانشوروں کی کیا اوقات کہ وہ پیپلزپارٹی میں انکی سرائیکی شناخت کے سوال کو چلنے دیں۔۔۔۔ اور انکی کون سنے گا ان کا توں بڑے سے بڑا بیان بھی کسی لوکل اخبار کے اندر کے صفحے پر ایک کالمی سرخی سے زیادہ نہیں چھپتا اس لئے وہ اپنا تمام کتھارسس اپنا شور اپنا نقطہ نظر سوشل میڈیا پر آکر فیس بک پر اس کا اظہار کرتے ہیں اور سرائیکی عوام جب انہیں جنوبی پنجاب کہتا سنتے ہیں وہ رد عمل میں احتجاج کرتے ہیں کہ انہیں انکی سرائیکی شناخت کو رد کرنے کا حق کسی کو نہیں بلخصوص انھیں تو بلکل نہیں جو پیپلزپارٹی سے منسلک ہیں سرائیکی تحریک میں سرائیکی شناخت کے خالق ہیں اور سرائیکی جدوجہد کرنے والوں میں سے ہیں اگر وہ اپنی جماعت سے لفظ جنوبی پنجاب کو نہیں منوا سکے تو وسیب کی عوام کو اس پر قائل نہ کریں کہ انکی پارٹی کا کیا ایجنڈا ہے اور سرائیکی وسیب جنوبی پنجاب کو قبول کرلے۔۔۔۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کمزور سرائیکی جیالے اور دانشوروں کی پیپلزپارٹی میں کون بات سنتا ہے ۔۔۔۔ بلخصوص لوگ ابھی تک سینٹ میں قومی زبان کی منظوری کے بل کو نہیں بھولے کہ جب سینٹ میں پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے موجود تھی چئرمین سینٹ بھی ان کا تھا اور انھی سرائیکی کمزور کارکنان نے پیپلزپارٹی میں اپنے سندھی دوستوں کے ساتھ مل کر اس بل کو سینٹ میں پیش کیا تھا مگر بڑی بے دردی سے سرائیکی زبان کو بطور قومی زبان تسلیم کرنے انکار اور مسترد کردیا گیا۔ یہ سرائکیوں پر پنجابی شاؤنزم کا بھرپور حملہ تھا مگر کیا پیپلزپارٹی کی اعلی سندھی قیادت اور ادنی سرائیکی کارکن مل کر بھی پیپلزپارٹی کے پنجابی سینیٹر رضا ربانی اور چوہدری اعتزازاحسن کا بوجھ اٹھا سکنے کی جرات کرسکتے تھے ؟ ۔۔۔۔۔
نہیں اور آج بھی تقریبا یہی صورتحال ہے ۔۔۔۔ پیپلزپارٹی سندھ میں بلوچستان میں اور خیبر بختون خواہ اور دیگر علاقوں میں جتنی آزاد اور خود مختار ہے اسکی عشر عشیر بھی پنجاب میں نہیں ہے اور بلخصوص سرائیکی وسیب میں توں بلکل بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جب عوام کو یہ علم ہوجائے کہ ان کے سپوکس پرسنز ان کی نمائندگی کرنے والے کمزور ہیں اور وہ انکا مدعا لے کر آگے چلنے کے قابل نہیں ہیں تو وہ انہیں رد کر کے اپنا راستہ اور اپنی منزل کی جدوجہد خود تلاش کرتے ہیں بلکل اسی طرح جیسے دریا کا پانی بند باندھنے پر بھی ہر اس طرف بہہ نکلتا ہے جہاں اسے ہموار اور موافق ڈھلوان ملے گی ۔۔۔۔ جائیں اور پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کریں ورنہ سکول پیں ٹیچر سزا دے گا ۔ ش
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر