رپورٹ اعظم خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام )آج سے دس سال قبل سلیم شہزاد کا قتل ہو یا سنہ 2021 میں اسد طور پر ہونے والا تشدد، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں صحافیوں کو اغوا، تشدد یا موت کا سامنا کرنا پڑا۔
اگر یہ واقعات ملک کے دور دراز علاقوں میں پیش آئے ہوتے تو کہا جا سکتا تھا کہ وسائل کی کمی کی بنا پر ان مقدمات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا لیکن اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس سیف سٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں سے لے کر جدید فارنزک آلات تک، ہر قسم کے وسائل موجود ہیں۔
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے کسی ایک بھی واقعے کی تفتیش منطقی انجام تک نہیں پہنچی؟
جہاں ایک طرف صحافی برادری میں کئی لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ریاستی ادارے خود ہی ان واقعات میں ملوث ہیں تو وہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بےبس نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں جو ان واقعات کو محض ڈرامہ بازی قرار دے کر صحافیوں پر ہونے والے تشدد کی خبروں کو خودساختہ سمجھتے ہیں۔
سلیم شہزاد اغوا اور قتل کا مقدمہ کہاں تک پہنچا؟
سنہ 2011 میں صحافی سلیم شہزاد کو اسلام آباد کی گلیوں سے ہی اغوا کیا گیا اور پھر 31 مئی کو ان کی لاش برآمد ہوئی۔ اس مقدمے میں جوڈیشل کمیشن بنا، تحقیقات ہوئیں اور پھر کیس فائلوں میں دب گیا۔
سلیم شہزاد کی اہلیہ انیتہ سلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ دس سال کے عرصے میں ان سے کسی نے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کمیشن نے انھیں بلا کر ان کا بیان ریکارڈ کیا۔ ان کے مطابق سلیم شہزاد اپنے کام میں گھر والوں کو مداخلت نہیں کرنے دیتے تھے مگر ان سے قتل کے دو ماہ قبل ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے انھوں نے گھر والوں سے خفیہ رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔
یہ بھی پڑھیے
پیپلزپارٹی نے پاکستان میڈیا اتھارٹی آرڈیننس مسترد کردیا
انیتہ سلیم کے مطابق سلیم کو مارچ 2011 میں ریاستی اداروں سے منسلک اہلکاروں نے ملاقات کے لیے اپنے دفتر بلایا تھا۔
ان کے مطابق اس ملاقات کے بعد جب سلیم شہزاد واپس گھر آئے تو وہ پریشان بھی تھے اور غصے میں بھی تھے۔ ‘سلیم نے ہمیں بتایا کہ ان لوگوں نے مجھ سے بہت rude انداز میں بات کی ہے اور وہ مجھ سے ایسے بات کر رہے تھے جیسے میں ان کا ملازم ہوں۔‘ انھوں نے یہ کہا تھا کہ جس طرح ان اہلکاروں نے بات کی ہے وہ اچھا طریقہ نہیں تھا۔
سلیم شہزاد کا بچوں سے کیا وعدہ جو وفا نہ ہو سکا
انیتہ سلیم کے مطابق جس دن سلیم شہزاد اغوا ہوئے تھے اس دن وہ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ ’انھوں نے جانے سے قبل مجھے کہا کہ بچوں کو تیار کرو، میں واپس آتا ہو تو پھر انھیں ہارس رائیڈنگ کے لیے راول ڈیم لے کر چلتے ہیں۔‘
انیتہ کے مطابق اس سے قبل بھی 2006 میں سلیم شہزاد کو افغانستان کے صوبے ہلمند میں اغوا کیا گیا تھا مگر جو 2011 میں ہوا اس کے بارے میں وہ آج تک کچھ نہیں جان سکی ہیں کہ آخر ایسی کون سی بات تھی جو بات قتل تک جا پہنچی۔
ان کا کہنا ہے کہ سلیم شہزاد ’جس دہشت گردی کے متعلق خبریں دیتے تھے اور اس پر لکھتے تھے، وہ آخر میں خود ہی اس کا نشانہ بن گئے۔‘
سلیم شہزاد کی بیٹی آمنہ سلیم کے مطابق انھیں آج تک ان کے والد کے قاتلوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ ’اب تو ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف عالمی میڈیا کے چند اداروں کی حد تک ہی رہ گیا ہے، باقی تو کوئی اس قتل کا ذکر تک نہیں کرتا۔‘
اسلام آباد میں صحافیوں کے اغوا، تشدد اور قتل کی تفتیش آگے کیوں نہیں بڑھتی؟
سنہ 2020 میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ میں اسلام آباد کو صحافیوں کے لیے ملک کا سب سے خطرناک شہر قرار دیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اُس سال پورے ملک میں صحافیوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں سے ایک تہائی سے زیادہ وفاقی دارالحکومت میں پیش آئے۔
شوکت جاوید پولیس میں انسپکر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے اور وہ انٹیلی جنس بیورو کے بھی عہدیدار رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کو اس طرح کے مقدمات میں سنجیدگی سے تحقیقات آگے بڑھانی چائیں۔ ان کے مطابق پولیس اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ ایسے واقعات کی تحقیقات کے دوران دیگر اداروں کا ساتھ بھی حاصل رہے۔
شوکت جاوید کے مطابق اگر کوئی ادارہ ایسے واقعات میں ملوث ہے تو پھر یہ بہت غیر اخلاقی ہے۔
ان کے مطابق جب مجرمان کے چہرے تک سی سی ٹی وی کیمروں میں نظر آ جائیں تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ پولیس تحقیقات کو آگے نہ بڑھا سکے اور ایسے مجرمان کو گرفتار نہ کر سکے۔
مقدمات میں پیش رفت نہ ہونے کی وجوہات کے حوالے سے شوکت جاوید نے بتایا کہ بعض اوقات غیر ضروری الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
’یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سارے الزامات ہی درست ہوں مگر جب ایسے مجرمان نہیں پکڑے جاتے تو اس سے اداروں اور ملک دونوں کی بدنامی ضرور ہوتی ہے۔‘
اسلام آباد پولیس کے ترجمان اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل عثمان ٹیپو نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے اور تمام مقدمات کی تحقیقات میرٹ پر کی جاتی ہے۔
ان کے مطابق پولیس کسی بھی مقدمے میں تفریق نہیں کرتی کہ جرم صحافی کے خلاف ہوا یا کسی اور شہری کے خلاف۔
ان کے مطابق مجموعی طور پر پولیس کی کارکردگی قابل ستائش ہے۔ اسلام آباد میں صحافیوں پر جو حملے ہوئے ان کی تفتیش کسی منطقی انجام تک کیوں نہ پہنچ سکی، اس سوال پر انھوں نے کہا کہ وہ ہر مقدمے کی فائل دیکھ کر ہی بتا سکتے ہیں کہ اب تک صحافیوں کے مقدمات میں تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔
یہی سوال جب اسلام آباد پولیس کے سابق سربراہ طاہر عالم اور سابق آئی جی اسلام آباد کلیم امام سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے معذرت کر لی۔
عمر چیمہ کے اغوا میں کیا تحقیقات ہوئیں؟
حال ہی میں صحافی اور یوٹیوب ولاگر اسد علی طور پر ان کے فلیٹ میں گھس کر تشدد کے واقعے کے بعد جب حکومت اور متعلقہ اداروں نے تحقیقات کی یقین دہانی کروائی تو اس پر صحافی عمر چیمہ نے اسلام آباد میں ہی اپنے اوپر پیش آئے واقعے کی تفصیلات ٹوئٹر پر کچھ اس انداز سے شیئر کیں:
’ستمبر 2010 میں مجھے اغوا کیا گیا، ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا، آج تک اس کی رپورٹ مجھے نہیں دکھائی گئی، سینیٹ کی تب ہیومن رائٹس کمیٹی کے چئیرمین افرا سیاب خٹک نے بارہا رپورٹ پیش کرنے کا کہا، نہیں پیش کی گئی۔
عمر چیمہ نے ایک دوسری ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ ’جسٹس ثاقب نثار نے جب سلیم شہزاد کمیشن کے سربراہ کے طور پر پہلی میٹنگ کال کی اس میں صحافیوں کو بلایا، ہم بھی وہاں موجود تھے، بولے ’آج میں جب گھر سے نکلا تو میری بیگم نے یہ کہتے ہوئے میری جیب میں آیت الکرسی رکھ دی کہ آپ کو انتہائی خطرناک ذمہ داری سونپی گئی ہے اللہ آپکا محافظ ہو۔‘
عمر چیمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مقدمے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے اور آج تک ان کے ساتھ کوئی بھی کمیشن یا پولیس کی رپورٹ نہیں شیئر کی گئی ہے۔
ان کے مطابق ایک بار سینیٹ قائمہ کمیٹی کے چئیرمین افراسیاب خٹک نے غیر سرکاری طور پر ان کے مقدمے میں جسٹس نجم الحسن پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کو دی تھی، جس میں درج تھا کہ یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عمر چیمہ کے اغوا اور تشدد میں کسی ایجنسی کے اہلکاروں کا ہاتھ ہے۔
عمر چیمہ کے مطابق جب وہ حامد میر پر حملے کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان دے رہے تھے تو اس کمیشن کے سربراہ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ان سے کہا کہ ‘چیمہ صاحب، ہم بھی اس ملک میں رہتے ہیں، ہمیں پتا ہے کہ کون ایسا کرتا ہے۔‘
’آئی ایس آئی کا نمائندہ بار بار پوچھتا رہا تمھارا کس پر شک ہے‘
صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد میں دو بار نشانہ بنایا گیا: پہلی بار موٹر سائیکل پر دو نامعلوم افراد نے ان کا تعاقب کیا اور ان کے گھر کے قریب ان کی گاڑی کے فرنٹ شیشے پر زور سے اینٹ ماری، جس سے شیشے میں تو دراڑیں پڑیں مگر مطیع اللہ اپنی فیملی سمیت محفوظ رہے۔
پولیس تحقیقات کے مطابق حملہ آوروں نے مطیع اللہ کا تعاقب جناح کنونشن سنٹر کے قریب ڈپلومیٹک انکلیو کے داخلی راستے سے شروع کر دیا تھا۔ اگرچہ ان حملہ آوروں کی حرکات سی سی ٹی وی فوٹیج پر نظر آئیں مگر ابھی تک مطیع اللہ اور ان کے خاندان کے کسی فرد کو کچھ نہیں پتا کہ حملہ آور کون تھے اور ان کا کہاں سے تعلق تھا؟
پھر مطیع اللہ کو گذشتہ برس ایک سرکاری سکول کے باہر سے اغوا کیا گیا جہاں وہ اپنی اہلیہ کو چھوڑنے گئے تھے۔ واقعے کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند اغوا کار پولیس کے یونیفارم میں تھے اور ان کی گاڑیاں بھی پولیس کی گاڑیوں سے ملتی جلتی تھیں۔
واضح رہے کہ صحافی مطیع اللہ جان طویل عرصے سے یوٹیوب پر اپنے چینل کے ذریعے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
مطیع اللہ جان کے مطابق ان کے اغوا کار تشدد کرتے ہوئے ان سے یہ پوچھتے رہے کہ ‘کیوں ایسی باتیں کرتے ہو، ابھی دیکھ لیتے ہیں۔‘
رات گئے وہ راولپنڈی کے قریب فتح جھنگ کے پاس سے ملے۔
مطیع اللہ کو اغوا کرنے والوں کے چہرے بھی سکول کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں نے اپنی آنکھوں میں محفوظ کیے مگر پولیس ابھی تک ملزمان تک نہیں پہنچ سکی۔
انھوں نے اگلے دن سپریم کورٹ کو اغوا سے متعلق تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس وقت ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چل رہا تھا مگر اغوا کے بعد عدالت نے اس معاملے پر بھی از خود نوٹس لے کر انسپکٹر جنرل اسلام آباد سے جواب طلب کر لیا۔
تقریباً ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور مطیع اللہ جان کے مطابق اس دوران ان کے اغوا کے مقدمے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق پولیس نے جو رپورٹس عدالت میں جمع کروائی ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں اور عدالت نے بھی ابھی تک کوئی سخت کارروائی کا آغاز نہیں کیا۔
مطیع اللہ جان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اغوا کے معاملے کی چھان بین کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔ جس کا آخری اجلاس آٹھ ماہ قبل ہوا تھا۔
ان کے مطابق جب انھیں تحقیقات کے لیے طلب کیا گیا تو اس ٹیم کے زیادہ تر اراکین خاموشی سے ان کا بیان سنتے رہے جبکہ وہاں موجود آئی ایس آئی کے نمائندے ان سے بار بار یہی پوچھتے رہے کہ آپ یاد کریں آپ کی کسی سے ذاتی دشمنی تو نہیں ہے یا کوئی ذاتی جھگڑا ہوا ہو، آپ زرا سوچئے، اس پر غور کیجئے گا۔ جس میں نے انھیں کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ان کے مطابق ‘آئی ایس آئی کے نمائندے کی یہ کوشش تھی کہ میں اپنا بیان تبدیل کر دوں مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔‘
‘طاقتور ملزم نہ کمیشن کے سامنے پیش ہوا اور نہ کمیشن اسے بلا سکا‘
صحافی حامد میر پر دو حملے ہوئے۔ اسلام آباد میں ان کی گاڑی کے نیچے سے بم برآمد ہوا لیکن ابھی تک پولیس ملزمان تک نہیں پہنچ سکی۔ پھر جب ان پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو انھوں نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کو قصوروار ٹھہرایا۔
تاہم ان کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے ’طاقتور ملزم کو سمن جاری کیے مگر نہ وہ کمشین کے سامنے پیش ہوئے اور نہ ہی کمشین انھیں بلا سکا۔‘
حامد میر کے خیال میں جب کسی صحافی پر حملہ ہوتا ہے تو اسے پہلے الیکٹرانک چالان بھیجے جاتے ہیں جو واضح پیغام ہوتا ہے اس صحافی کہ نگرانی کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
حامد میر کے مطابق شہر میں جو سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں وہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے نہیں بلکہ ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کے لیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ان کیمروں میں ملزمان کی شناخت کے باوجود پولیس انھیں پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔
حامد میر کے مطابق ان کے مقدمے میں کمشین رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکی ہے البتہ ایک جعلی رپورٹ ایک اخبار میں ضرور شائع کروائی گئی جو انھیں کسی نے نہیں فراہم کی۔
ان کے مطابق تفتیش کے دوران جوڈیشل کمیشن کے تینوں اراکین ان سے بار بار پوچھتے رہے کہ ’کیا آپ ابھی بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں؟‘ ان کے مطابق ان کے مقدمے میں تحقیقات کو آگے نے بڑھانے میں تمام ریاستی مشینری رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
ابصار عالم کے مقدمے میں کیا پیش رفت ہوئی؟
پاکستان مسلم لیگ ن کے دور میں ابصار عالم چیئرمین پیمرا رہ چکے ہیں اور بطور صحافی متعدد اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں گولی مارنے کے واقعے سے قبل ان کی نگرانی کی جاتی رہی جس کے حوالے سے انھوں نے ٹویٹ بھی کیے۔
ان کے مطابق جس دن پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے ان پر گولی چلائی گئی تو گھر میں ان کی معمر والدہ موجود تھیں، اس وجہ سے گھر میں داخل ہونے کے بجائے ان کی ترجیح ہسپتال پہنچنا تھی۔
ان کے مطابق حملہ آور سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھے جا سکتے ہیں اور پولیس نے انھیں یہی بتایا ہے کہ نادرا کو یہ فوٹیج بھیج دی گئی ہے اور جیو فینسنگ بھی کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق جب ان کے پاس شواہد آئیں گے تو پھر وہ کسی کو نامزد بھی کریں گے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں بھی واقعات ہوئے مگر اب وہ بھی ان صحافیوں کے لیے خود انصاف کے لیے آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
ابصار عالم کے مطابق یہ عدلیہ کی ناکامی ہے اور انھوں نے سوال اٹھایا کہ عدالت (بااثر افسران کو) بلا کر کیوں نہیں پوچھتی کہ جو کمیشن بنے تھے اور از خود نوٹس لیے گئے تھے ان کے نتائج کہاں ہیں؟
اعزاز سید پر حملوں کی تحقیقات کہاں تک پہنچیں؟
اعزاز سید گذشتہ دو دہائیوں سے اسلام آباد میں تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں اور گذشتہ دس برس میں انھیں چار بار ہدف بنایا گیا۔ دو بار ان کے گھر پر حملے ہوئے، جس میں ایک بار ان کی گاڑی کو نقصان پہنچایا گیا اور دوسری بار گیٹ پر چھ گولیاں چلائی گئیں۔
اعزاز سید کو ایک بار لہتراڑ روڈ پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ سنہ 2017 میں انھیں چند نامعلوم افراد نے اسلام آباد کی پارک روڈ سے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ اعزاز نے چاروں واقعات کی رپورٹ پولیس کو کی مگر دو واقعات میں پولیس نے ایف آئی آر تک درج نہیں کی۔
اُس وقت درج کروائی گئی شکایت میں اعزاز سید نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے دو اہلکاروں نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف ایک خبر کرنے سے باز رہنے کا کہا تھا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں تھیں۔
جب اعزاز سید سے پوچھا گیا کہ ان چاروں مقدمات میں کیا پیش رفت ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ پولیس کسی ایک بھی مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
انھوں نے بتایا کہ جب ان کے گھر پر فائر کیے گئے تو انھیں پولیس نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ آپ کو پتا ہے کہ ایسا کون کر سکتا ہے؟
اسد طور کے مقدمے میں ایک ملزم کی شناخت کے قریب پہنچ گئے ہیں: وزیر داخلہ
وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں نامعلوم افراد کی جانب سے صحافی اسد طور پر تشدد سے متعلق کہا کہ ہم بہت جلد کیس میں حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔ اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ کے دوران انھوں نے کہا کہ نادرا، ایف آئی اے اور پولیس مل کر تحقیقات کررہی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ فنگر پرنٹس کی کل تک شناخت ہوسکتی ہے اور اگر آئندہ چند روز میں ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکے تو اشتہار دیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک ملزم کی شناخت کے قریب ہیں۔
’کم تنخواہ کے باوجود مہنگی رہائش تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا‘
حال ہی میں تشدد کا نشانہ بننے والے صحافی اسد طور نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں بھی ایک تسلسل سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان کے مطابق سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل خفیہ ایجنسی کے ایک افسر ان کے آبائی گھر پہنچ گئے اور ان کے والدین سے کہا کہ وہ انھیں سمجھائیں۔
ان کے مطابق ان کے خلاف مختلف مقدمات بھی درج کروائے گئے اور سنگین نتائج کے لیے تیار رہنے کے پیغامات بھی بھیجے گئے۔ اسد کے مطابق انھیں یہ اطلاعات بھی وصول ہوئیں کہ ان کا نام اس فہرست میں شامل ہے کہ اگر انھوں نے زباں بندی نہ کی تو پھر کچھ بُرا ہو سکتا ہے۔
اسد کے مطابق ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ چونکہ ان کے خلاف مقدمات درج ہوگئے اور انھیں نجی ٹی وی چینل سے ملازمت سے بھی برطرف کر دیا گیا تو شاید جو کچھ برا ہونا تھا وہ ہو چکا۔
مگر ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
اسد طور کے مطابق انھوں نے ایک کام ٹھیک کیا تھا: اچھی تنخواہ والی ملازمت سے ہاتھ دھونے کے باوجود وہ اسلام آباد کے ایک مہنگے رہائشی سیکٹر میں ہی قیام پذیر رہے۔
اسد کے مطابق ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو پھر ایسے میں کم از کم سیکورٹی والا علاقہ اور کیمروں والی رہائش معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
جب اسد کو زخمی حالت میں اسلام آباد کی پمز ہسپتال میں منتقل کیا گیا تو پولیس حکام بھی اس مقدمے سے متعلق حقائق کی چھان بین کے لیے ہسپتال پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر میں پولیس نے اسد کی رہائش کے باہر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج اپنی تحویل میں لے لی جس میں ملزمان کے چہرے واضح نظر آتے ہیں۔
یہ فوٹیج ٹی وی چینلز پر بھی چلی، مگر ایسے واقعات کا سامنا کرنے والے صحافیوں کے مطابق اسلام آباد میں اس طرح کے مقدمات کبھی منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ