نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جذبات سے نہیں عقل سے رہنمائی لیجئے||حیدر جاوید سید

جذبات کے گھوڑے پر سوار ہو کر عقل پر لاٹھیاں برسانے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ مناسب ترین عمل ہوگا۔ افسوس یہ ہے کہ ہم جتنی توانائی ضد اور ہٹ دھرمی پر برباد کرتے ہیں، اس سے 90 فیصد کم بھی عقل ودانش کا مظاہرہ کریں تو مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جذبات کے گھوڑے پر سوار ہو کر عقل پر لاٹھیاں برسانے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ مناسب ترین عمل ہوگا۔ افسوس یہ ہے کہ ہم جتنی توانائی ضد اور ہٹ دھرمی پر برباد کرتے ہیں، اس سے 90 فیصد کم بھی عقل ودانش کا مظاہرہ کریں تو مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ 10 جنوری کو بھارت کے 70 طبی ماہرین اور سائنسدانوں نے نریندر مودی کو ایک خط کے ذریعے خبردار کیا
”فروری میں کورونا کی تیسری اور خطرناک لہر کا خطرہ ہے ان حالات میں سیاسی سرگرمیوں، بلدیاتی انتخابات اور مذہبی تقریبات کے انعقاد کو ملتوی کرانے کیلئے وفاقی حکومت اپنا کردار ادا کرے”۔
طبی ماہرین اور سائنسدانوں کے اس انتباہی خط کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے جوتشیوں سے مشورہ کیا تو ان جوتشیوں کا موقف تھا گنگا اشنان (کمبھ میلہ ) کے مذہبی تہوار کیلئے شبھ گھڑی پھر تین سال بعد آئے گی۔
نریندر مودی کی لاپرواہی اور توہم پرستی نے ملکر بھارت میں قیامت برپا کردی۔
اسی دوران مودی نے متعدد سیاسی ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کی۔ اترپردیش میں بلدیاتی انتخابات میں خدمات سرانجام دینے والے 700 اساتذہ کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے۔ گنگا اشنان کے تہوار میں کورونا سے متاثر 300 یوگیوں کی وجہ سے کورونا بم پھٹا اور اس کے اثرات پورے بھارت پر مرتب ہوئے۔
گزشتہ روز بھی بھارت میں 3688 اموات ہوئیں، تین لاکھ 92ہزار نئے کیسز سامنے آئے۔
ہفتہ کو صرف دہلی میں 412 افراد کورونا سے اور 26 آکسیجن نہ ملنے سے جان کی بازی ہار گئے۔
بھارت کے طبی ماہرین گنگا اشنان( کمبھ میلہ ) سیاسی ریلیوں، جلسوں اور بلدیاتی انتخابات کو کورونا کے پھیلاؤ کا سبب قرار دے رہے ہیں، اس کیساتھ ہی وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ انتباہ کے باوجود مودی سرکار نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔
پچھلے دس بارہ دنوں سے بھارت میں شرح اموات تین ہزار افراد یومیہ بھی لگائی جائے (اموات تین ہزار یومیہ سے زائد ہیں) تو 30 سے 36 ہزار افراد صرف پچھلے بارہ دنوں میں جاں بحق ہوئے ہیں ۔
بھارت میں کورونا کی بدترین لہر کے پیش نظر آسٹریلیا نے بھارت میں مقیم اپنے شہریوں اور کھلاڑیوں کی وطن واپسی پر پابندی لگاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس کی خلاف ورزی پر پانچ سال سزا ہوگی۔
آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ چند افراد کی خاطر پورے آسٹریلیا کے عوام کی زندگیوں کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا۔
اب آئیے وطن عزیز کی طرف، گزشتہ روز کورونا سے 146 افراد جاں بحق ہوئے۔ 4696 نئے کیسز سامنے آئے۔
حکومت نے بیرون ملک سے آنے والی پروازوں کو محدود کر دیا ہے۔ جو پروازیں پاکستان آپائیں گی ان کے مسافروں کیلئے شرائط جاری کر دی گئی ہیں۔
این سی او سی نے مذہبی تقریبات کو محدود کرنے کی سفارشات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھیجوائی ہیں۔
وزارت داخلہ نے یوم شہادت امام علیؑ کے جلوسوں پر پابندی کا حکم نامہ جاری کر دیا جبکہ محکمہ اوقاف نے اوقاف کی مساجد میں اعتکاف پر بیٹھنے پر پابندی لگا دی۔
بلاشبہ موجودہ حالات میں یہ پابندیاں بجا ہیں البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اعتکاف پر بیٹھنے والوں اور مساجد کی انتظامیہ کے درمیان یہ طے پارہا تھا کہ سماجی فاصلوں کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مسجد میں دو سے چار افراد کو اعتکاف میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے مگر اس کیلئے ضروری ہوگا کہ اعتکاف پر بیٹھنے والے کورونا ٹیسٹ کا تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ فراہم کریں گے۔
اسی طرح یوم شہادت امام علیؑ کے روایتی اور لائسنسی جلوسوں کے حوالے سے لوگوں کو آمادہ کیا جا رہا تھا کہ علامتی جلوس نکال لئے جائیں، چند افراد ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے جلوس نکال لیں۔ علامتی جلوسوں کی تجویز بھی چند قانونی مسائل اور دیگر معاملات کی وجہ سے تھی
اب ہونا یہ چاہئے تھا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں سے کہتی کہ علمائے کرام کے تعاون سے دونوں معاملات کا خوش اسلوبی سے حل تلاش کر لیاجائے اس کی بجائے پابندیوں کے احکامات جاری کر دئیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ جو معاملہ یا معاملات افہام وتفہیم سے طے پاسکتے تھے ان پر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا؟
ہمارے لوگوں کو بھی ٹھنڈے دل سے سمجھنا ہوگا کہ حالات کیا ہیں، دنیا بھر کے طبی طاہرین کورونا کی اس تیسری لہر کو خطرناک ترین قرار دے رہے ہیں، تیسری لہر کی قیامت خیزیاں سب پر عیاں ہیں۔
ان حالات میں جذبات کے گھوڑوں پر سواری اور عقل کو لاٹھیاں مارنے کی بجائے ہر شخص کو اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا چاہئے، ضد اور ہٹ دھرمی کس بات کی۔
یہ ہم سب کا ملک ہے سب کا مساوی حق بھی ہے اور سب پر مساوی فرائض بھی واجب ہیں، ایسے کسی عمل سے گریز کرنا چاہئے جس سے خاکم بدہن بھارت جیسی صورتحال پیدا ہوجائے۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہم تو اپنے قارئین اور ہم وطنوں کے سامنے معروضی حالات، مسائل اور تباہ کاریوں کی تفصیل عرض کرکے درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ احتیاط کیجئے، تاکہ زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلتا رہے، فیصلہ تو آپ لوگوں نے کرنا ہے، اپنے لئے اور اپنے پیاروں کیلئے۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author