ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند روز قبل سخاوت کے موضوع پر میرا کالم شائع ہوا ۔ دوستوں نے حوصلہ افزائی کی میرا نظریہ یہ بھی ہے کہ سخاوت کے مقامی کرداروں کو تلاش کیا جائے اور اُن کی سخاوت ، اچھائی اور بھلائی کے کارناموں کو اُجاگر کیا جائے ۔ کوئی گوٹھ ، گائوں ،بستی ، قصبہ یا شہر ایسا نہیں جہاں اچھائی اور سخاوت کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں ۔
اگر ہم ان کرداروں کو فراموش کر دیں اور اُن کا تذکرہ نہ کریں اور محض اُن باتوںکو دہراتے رہیں جو کتابوںمیں موجود ہیں تو یہ بے انصافی ہو گی ۔آج میں اپنے گائوں دھریجہ نگر کی ایک عظیم شخصیت کا ذکر کروں گا جن کی سخاوت اپنی مثال آپ ہے اور اُن کی سخاوت کے تذکرے وسیب میں زبان زد عام ہیں ۔ اُس شخصیت کا نام مولانا یار محمد دھریجہ ہے ۔ اُن کی پیدائش 20ویں صدی عیسوی کے آغاز میں دھریجہ نگر میں ہوئی ۔قریبی دینی مدرسے بستی مومن سے تعلیم حاصل کی ۔
کہا جاتا ہے کہ جمعیت العلماء اسلام کے مرکزی سربراہ مولانا عبد اللہ درخواستی اسی مدرسے میں اُن کے ہم جماعت تھے ۔ اس طرح آپ دین پور شریف میں بھی پڑھتے رہے ،تحصیل علم کے بعد دھریجہ نگر جو کہ اس وقت بستی دھریجہ کے نام سے موسوم تھا میں دینی مدرسے کی بنیاد رکھی اور قریباً 1930ء میں بستی دھریجہ میں عالی شان مسجد کی تعمیر کا آغاز کرایا ۔ مولانا کو وراثت میں کافی رقبہ حاصل ہوا تھا ، اسی بناء پر اپنے وسائل سے مدرسے میں رہائش پذیر طلباء کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے مسافروں کو قیام و طعام کی سہولت پیش کرتے ۔
اُن دنوں سڑکیں اتنی زیادہ نہیں تھیں ،مسافر ٹرینوں پر سفر کرتے یا پھر پیدل چلنے کے لئے ریل کی پٹری کے ساتھ عازم سفر ہوتے ۔ دھریجہ نگرجو کہ خانپور جنکشن سے 7کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور ریلوے لائن گائوں کے ساتھ گذر رہی ہے ’’مولانا کا طریقہ کار یہ تھا کہ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد ریلوے لائن پر چلے جاتے اور وہاں بیٹھ کر مسافروں کو دعوت دیتے کہ وہ رات اُن کے ہاں قیام کریں ‘‘اسی طرح ہر رات بہت سے مسافر دھریجہ نگر میں شب بسر کرتے ۔رات کے علاوہ دن کو بھی ہر آنے والے شخص کے لئے لنگر کا سلسلہ جاری رہتا ۔
مولانا یار محمد دھریجہ چوری اور فریب کاری کے سخت خلاف تھے ، اس کے باوجود بہت سے اجنبی کپڑے اور بستر وغیرہ چوری کر کے لے جاتے مگر آپ صبر کرتے اور اپنی سخاوت میں فرق نہ آنے دیتے۔ ایک واقعہ اس طرح ہے کہ گندم کا موسم تھا ،گندم گہائی کے بعد صاف ہو چکی تھی ، صبح گندم اٹھائی جانی تھی مگر رات کو گندم کا کچھ حصہ چوری کرلیا گیا ، سراغ رساں چور کے گھر تک پہنچ گئے اور مسروقہ گندم بھی اُن کے گھر میں موجود تھی چور فرار ہو گیا تھا ، چور کو کسی سیانے نے سمجھایا کہ اب تمہارا چھٹکارا اس طرح ممکن ہے کہ تم فوراً پیش ہو جائو اور چوری کا اقرار کرو اور ساتھ ہی یہ بولو کہ گھر میں دانے نہیں تھے بچے بھوکے تھے ، اسی بناء پر میں نے اس جرم کا ارتکاب کیا۔
چنانچہ چور بھری مجلس میں پیش ہو گیا اور چوری کا اقرار کرنے کے ساتھ کہا کہ بچے بھوکے تھے مجھے معاف کر دیا جائے ۔مولانا نے یہ سن کر کہا کہ جو گندم لے گیا ہے وہ بھی اس کے پاس رہنے دواور ایک بوری گندم کی مزید اس کے گھر بھجوا دو ۔ مولانا یار محمد دھریجہ کی بیعت دین پور شریف کے بانی حضرت خلیفہ میاں غلام محمد دین پوری سے تھی ، دین پور شریف تحریک آزادی کا مرکز تھا مولانا عبید اللہ سندھی تحریک آزادی کے روح رواں تھے ۔ مولانا نے انگریزوں کے خلاف ریشمی رومال تحریک کا آغاز بھی خان پور سے کیا ، اسی بناء پر مولانا یار محمد دھریجہ کی قربت مولانا عبید اللہ سندھی و دیگر اکابرین سے بھی تھی ،
کہا جاتا ہے کہ 1939ء کو مولانا عبید اللہ سندھی جلاوطنی کے بعد واپس دین پور آئے تو مولانا یار محمد دھریجہ نے خطبہ جمعہ کے موقع پر حاضرین کو خوشخبری دی کہ امام انقلاب وطن واپس آ گئے ہیں اب انگریزوں کو واپس جانا ہو گا ، بستی دھریجہ کے دینی مدرسے میں پورے سال تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ، البتہ بڑا سالانہ جلسہ معراج النبی ؐ جسے مقامی زبان میں ’’رجبی‘‘ کہا جاتا تھا ، منعقد ہوتا ۔اس موقع پر صبح سے لے کر رات گئے تک خیرات چلتی اور رات کو علماء کا خطاب اور نعت خواں حضرات بارگاہِ رسالت ﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کرتے ۔
دھریجہ نگر کی خوبصورت مسجد تعمیر ہو گئی تو نقاشی کے لئے ملتان سے نقاش منگوائے گئے اور انہوں نے کئی سالوں کی محنت سے مسجد میں اتنی خوبصورت نقاشی کر دی کہ دور دراز سے لوگ دیکھنے کے لئے آتے ۔ مولانا کو سخاوت سے عشق تھا عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اچھے شاعر بھی تھے ، فارسی اور سرائیکی میں لکھتے مگر ایک حادثہ یہ ہوا کہ اگست 1974ء میں سیلاب آیا اور کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ سیلاب اتنا تباہ کن ہو گا، بہت سے لوگوں نے گھروں سے پورا مال اسباب نہ اٹھایا اور طوفان خیز سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا اور مولانا یار محمد دھریجہ کا غیر مطبوعہ کلام بھی سیلاب کی نذر ہو گیا ، اس کا آپ کو بہت افسوس تھا اور چند ماہ بعد آپ کی وفات ہو گئی ۔
انسان دوستی کے حوالے سے آپ کے حالات و واقعات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے اور آپ کے سینکڑوں شاگردوں کے ساتھ ساتھ وسیب کے لاکھوں لوگ آپ کو یاد کرتے ہیں اور دعائیں دیتے ہیں۔ سخاوت ، نیکی اور خیرخواہی کے بارے میں یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے آج ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سخاوت کے مقامی کرداروں کو تلاش کیا جائے اور اُن کی سخاوت ، اچھائی اور بھلائی کے کارناموں کو اُجاگر کیا جائے ۔
کوئی گوٹھ ، گائوں ،بستی ، قصبہ یا شہر ایسا نہیں جہاں اچھائی اور سخاوت کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں ۔اگر ہم ان کرداروں کو فراموش کر دیں اور اُن کا تذکرہ نہ کریں اور محض اُن باتوںکو دہراتے رہیں جو کتابوںمیں موجود ہیں تو یہ بے انصافی ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر