نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا وباء ، تلخ حقائق اور غیر ذمہ دارانہ قومی رویے||جام ایم ڈی گانگا

پاکستان کی حقیقی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ہمارا قومی المیہ ہے.ہمیں دلی طور پر آئین و قانون کا احترام کرنا نہیں سیکھایا گیا.صحیح معنوں میں اخلاقیات کا عملی کردار کرکے دکھانے کی بجائے ڈرا دھمکا کر کام چلایا گیا ہے

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم قارئین کرام،،وطن عزیز پاکستان بلخصوص سرائیکی وسیب میں کرونا تقریبا ہر جگہ موجودہ ہے. ضلع رحیم یارخان صوبے میں دوئم کے بعد اول نمبر پر آ چکا ہے. بہت سارے لوگ کرونا کو بھگت چکے ہیں. باقی تقریبا سارے لوگ جاگیردار اور وڈیروں کی غیر مرئی غلامی کی طرح اس غیر مرئی عالمی وباء کرونا کو بھگت رہے ہیں اور احساس بھی نہیں ہے. یہ بڑا وسیبی اور قومی المیہ ہے.کوئی مانے یا نہ مانے احتیاط اور علاج کے معاملے میں ہم لوگوں نے اپنی انفرادی و اجتماعی قومی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے پورا ہی نہیں کیا.کورونا کے حوالے سے قریبی ہمسایہ ملک بھارت کے سنگین ترین حالات دیکھنے کے بعد بھی قوم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے سے قاصر ہے.مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں سوچ رہا ہوں کہ جہالت کیا ہوتی ہے اور جاہـل کیسے ہوتے ہیں.
ہم سب کورونا کے پھیلاؤ کے ذمہ دار ہیں.ہمارے معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی طور پر اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ خطرناک وائرس کورونا ملک و قوم کو خطرناک صورت حال کی جانب لے جا چکا ہے.تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ سول اداروں کی ناکامی کی وجہ سے فوج کو کرونا ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے کےلیے ملک بھر میں بلا لیا گیا ہے.کیا کرونا فوج سے ڈرتا یا ڈرتی ہے. کیا ہماری فوج کرونا پروف ہے. کیا فوج کرونا کا علاج ہے.ایمرجنسی پبلک آگاہی کے لیے لکھے گئے مجھے اپنے یہ ٹوٹے پھوٹے اور بے وزنے شعر یاد آ رہے ہیں.
گالھے لوکو گالھ کوں سمجھو
فوج کرونا دا علاج تاں کائینی
احساس کرو کجھ دھیان کرو
نہ مفت اچ یارو اپݨا زیان کرو

پاکستان کی حقیقی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ہمارا قومی المیہ ہے.ہمیں دلی طور پر آئین و قانون کا احترام کرنا نہیں سیکھایا گیا.صحیح معنوں میں اخلاقیات کا عملی کردار کرکے دکھانے کی بجائے ڈرا دھمکا کر کام چلایا گیا ہے اور ہنوز وہی سلسلہ جاری و ساری ہے.ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ غیر مرئی خوف کو پروان چڑھایا گیا ہے. کاش ہمیں باحیثیت قوم اس خوف کی بجائے قوم کو آئین کا احترام کرنا سیکھایا جاتا. آج ہمارے دلوں میں فوج کے خوف کی بجائے از خود اس عالمی وباء کا خوف ہوتا.بلاتفریق آئین و قانون پر عمل کرکے وائلیشن کرنے والوں کو سزائیں دینے کا رواج ہوتا تو آج ہم از خود احساس اور خیال کرکے قدرے محفوظ ہوتے.مگر افسوس کہ آج ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو موت، کرونا وباء سے تو نہیں ڈرتی بلکہ ڈنڈے سے ڈرتی ہے. کب بدلے گی ہماری سوچ، کب بدلے گا ہمارا کردار، کب بدلیں گے ہمارے حکمرانوں اور اداروں کے رویے? میں سمجھتا ہوں کہ اپنوں میں فوج کی محبت اور غیروں میں خوف ہونا چاہئیے. ہمارے حکمرانوں اور نظام کی بہت بڑی خرابی، ناکامی اور نالائقی ہے کہ فوج کو محض ڈراوے کے طور پر میدان میں لایا گیا ہے. ہمارے دلوں میں پہلا ڈر و خوف بیماری و وباء کا ہونا چاہئیے دوسرا ڈر آئین و قانون پر عمل نہ کرنے کا ہونے چاہئیے. ہم کہاں پہنچ چکے ہیں اور آگے کہاں جا رہے ہیں. ذرا سوچیں تو سہی. سیاسی مصلحتوں کا شکار حکمران اور کرپشن کی دلدل میں پھنسی ہوئی بیورو کریسی سے مجھے تو کسی تبدیلی اور خیر کی امید نہیں ہے. میں قدرت سے مایوس نہیں ہوں لیکن آنکھیں بند کرکے اندھیرے میں زندگی گزارنے کا قائل بھی نہیں ہوں. موقع بے موقع ہر کسی کو ہرجگہ اور ہر وقت ویلکم کہنے اور ہر بات پر واہ واہ کرنے کی عادت نہیں ہے. ہمیں اپنی بہادر فوج سے محبت بھی اور اس پر فخر بھی ہے.لیکن یہاں میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ ہمیں اپنے مسائل و معاملات کا غیر جانبدارانہ مشاہدہ اور بات کرنی ہوگی.اپنی کمی کوتاہیوں کا جائزہ لے کر اصلاح کرکے آگے بڑھنا ہوگا
کورنا کی آزمائش کے دنوں کے دوران بڑے بڑے اجتماعات شادی و غمی کی تقریبات کی اجازت دینا اور لوگوں کا ایس او پیز کا خیال کیے بغیر وہاں شریک ہونا، دونوں ہاتھوں سے مصحافے کرنا، بعض حضرات کا زبردستی مصحافہ کرنے کےلیے ہاتھ آگے کر دینا کہ اگلا مجبور یا شرمندہ ہوتا ہے، بھاکل اورجپھیاں ڈالنا، بازاروں میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کی طرح چلتے پھرتے لوگ. بے نظر انکم سپورٹ، احساس کارڈ سنٹر اور نادرا کے دفاتر کے باہر لگی لمبی لمبی لائینیں اورآجکل سستی چینی کے حصول والوں کو دیکھیں سونے ہے سہاگہ کورونا وائرس کی ویکسینیشن کروانے کےلیے جانے والے لوگوں کی صورت حال ملاحظہ فرمائیں. میں یہاں پر کس کس نالائقی، غیر ذمہ داری، تماشے اور مذاق کا ذکر کروں. افسوس ہوتا ہے بہت افسوس ہوتا ہے. ہر طرف افراتفری اور موت کے مناظر دیکھ کر بھی ہم اپنی اپنی اصلاح کرنے کی بجائے انتہائی ڈھیٹ اور پتھر کے انسان بن چکے ہیں.ہم ملاوٹ دو نمبری کو گناہ کی بجائے کاروبار سمجھ بیٹھے ہیں.ناجائز ترین منافع کی شکل میں لوگوں کی کھالیں ادھیڑنے اور خون چونسنے کو جائز سمجھتے ہیں. انسانی جانیں بچانے والی ادویات کی منصوعی قلت پیدا کرکے راتوں رات لاکھوں کروڑوں اور اربوں پتی بننے کے چکر میں انسانیت کے بلند ترین مقام سے گر کر عجیب قسم کی حیوانیت کا شکار ہو چکے ہیں. آجکل کے دنوں میں آکسیجن سلنڈرز کی بلیک مارکیٹنگ کیا ہے.یااللہ ہم سب پے رحم فرما،ہدایت کا راستہ دکھا اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما. آمین. میں یہاں پر کورونا ویکسینیشن سنٹر شیخ خلیفہ سکول اتحاد ٹاون رحیم یار خان کے عملے کا ذکر کرنا بھی ضروری سجھتا ہوں. ابھی تین چار دن پہلے کچھ ایسے لوگ وہاں ویکسینیشن کے لیے گئے جنھیں 1166سے یہ میسج آیا تھا. ُ ُ آپ 3130383471464کسی بھی قریبی ویکسینیشن سینٹر سے ویکسینیشن کروا سکتے ہیں. آپ کا تصدیقی کوڈ 8716 ہے. آپ شناختی کارڈ کے ساتھ ویکسینیشن سینٹر پر تشریف لے جائیں. ٗ ٗ. اب ایک ساٹھ سال سے زائد عمر والا محنت کش انسان دور دراز کے کسی دیہات سے کرایہ کی سواری پر ویکسینیشن سنٹر جاتا ہے وہاں ٹوکن لینے کے لیے لائن میں لگتا ہے. باری آنے پر جواب ملتا ہے کہ آپ ابھی واپس تشریف لے جائیں جب تاریخ والا میسج آئے تب آنا.کیا کوئی پوچھ سکتا اور کوئی جواب دے سکتا ہے کہ 1166سے بھیجے گئے مذکورہ بالا میسج کا کیا مطلب ہے.خدارا یا تو مسیج کی تحریر کو ٹھیک کریں یا ویکسینیشن کے سٹاف کے رویوں کی اصلاح فرمائیں تاکہ خلق خدا پریشانی اور خوامخواہ کے چکروں سے بچ سکے.
لوگوں کی اکثریت کے ذہنوں میں ایک بڑی غلطی فہمی ہے جس کا یہاں ذکر کرنا از حد ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا وائرس زیادہ تر شہروں میں ہے یہ دیہاتوں میں نہیں ہے.یہ بڑی گمراہ کن بات ہے. شہروں اور دیہاتوں میں زیادہ یا کم تو ہو سکتا ہے یہ نہ ہونے والے بات بالکل حقائق کے سراسر خلاف ہے. یاد رکھیں کرونا نہ نظر آنے والی چلتی، اڑتی پھرتی وباء ہے. کوئی جگہ اس کی دسترس سے بسہر اور خالی نہیں ہے. شیروں میں ٹیسٹ ہونے کی وجہ ریکارڈ ہو رہے ہیں جبکہ دیہاتوں میں ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی خاموشی سے یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے.میرے نزدیک دیہاتوں میں وباء کم ہونے کی وجہ قدرتی کھلی فضا اور لوگوں کے اندر پائی جانے والی قوت مدافعت ہے. عوام ہر وقت اللہ کا شکر اور احتیاط کریں.اللہ سب سے بڑا رحیم کریم، محافظ اور حکیم ہے. اللہ تعالی ہم سب کو گناہوں، وباؤں، بلاؤں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے. آمین

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author