نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سابق سی سی پی او عمر شیخ کی جبری ریٹائرمنٹ کیوں؟||جام ایم ڈی گانگا

سنا جا رہا ہے کہ سابق سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ کو پولیس کی ملازمت سے جبری ریٹائرڈ کرکے گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے. حالانکہ قاعدہ و قانون کے مطابق ابھی تو ان کی مدت ملازمت ختم ہونے میں ایک سال کا عرصہ باقی ہے

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم قارئین کرام،، سنا جا رہا ہے کہ سابق سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ کو پولیس کی ملازمت سے جبری ریٹائرڈ کرکے گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے. حالانکہ قاعدہ و قانون کے مطابق ابھی تو ان کی مدت ملازمت ختم ہونے میں ایک سال کا عرصہ باقی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، کون کر رہا ہے اور کون کروا رہا ہے.اس کیوں کا جواب باہر سے تو شاید کوئی نہ دے یا پورا نہ دے سکے. مگر مجھے امید ہے کہ سرائیکی وسیب کی دھرتی خان پور سے تعلق رکھنے والا محمد عمر شیخ ضرور دے گا بلکہ بھرپور اور مکمل دے گا. اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے پرکشش اعلی عہدے، مراعات، ترغیبات، ملازمت کے دوران اندرونی و بیرونی، مرئی اور غیر مرئی دباؤ اور دیدہ و نادیدہ ہتھکنڈوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی ملازمت اور ذمہ داریوں کو اصلاحی اور فللاحی سوچ اور کردار کے اندر رہتے ہوئے سرانجام دے سکتا ہے. میرا خیال ہے کہ وہ ملازمت کے بندھنوں اور بندشوں سے آزاد ہو کر زیادہ بہتر طریقے سے کھل کر بول، لکھ اور کچھ کر سکتا ہے.مزید بات کرنے سے قبل میں آپ کے ساتھ ایک مختصر سی مگر بہت بڑی اور گہری تحریر شیئر کرنا چاہتا ہوں جو محمد عمر شیخ نے اپنے فیس بک کے فرینڈز کو مخاطب کرکے لکھی ہے ذرا اسے پڑھ لیں.
ُ ُ ُ اگر مجھے جبری ریٹائرڈ کر دیا گیا تو میں چیف منسٹر دہلی کیجری وال کی طرز پہ ایک پولیٹیکل پارٹی بنانا چا ہتا ہوں۔صرف لاہور کی حد تک-سول بیورو کریسی اور پولیس ریفارمز کیلئے۔ موجودہ گورننس سے مایوس نوجوانوں کیلئے اُمید کی ایک نئی کرن۔اس پارٹی کا نام Young Patriots Party ہو گا.ماؤ کیپ پہنے گی اور سوشل ریفارمز سے لوگوں کی خدمت کا آغاز کرے گی۔ انہوں نے مُجھے سسٹم کے اندر رہ کر اُسے ٹھیک نہیں کرنے دیا تو میں سسٹم کو باہر سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں. ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، محمد عمر شیخ کی سوچ، ملک و قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ، جرات واستقامت، مستقبل کے حوالے سے ان کی فکری، اصلاحی، فلاحی مجوزہ پلاننگ و منصوبہ بندی اپنی جگہ بہت خوب ہے. مگر میں سوچ رہا ہوں کہ اس مختصر سی تحریر کے اندر انہوں نے ایک بڑے قومی المیہ کا ذکر کیا ہے. سسٹم و نظام کی خرابی کا ایک نوحہ لکھا ہے.ایک آزاد ملک کی مجبور و محکوم قوم، غلام لوگوں کے سروں پر مسلط بیورو کریسی اور حکمرانوں کی حقیقت و کیفیت کی طرف اشارہ کیا ہے. قومی اداروں کی اندرونی کھوکھلاہٹ، بے حسی، بے بسی کے بارے میں دلی دُکھ و غم کی جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے. محمد عمر شیخ وہ پولیس آفیسر ہے جس کی وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی بڑے اچھے الفاظ کے ساتھ تعریف کی تھی. وزیر اعلی پنجاب سردار محمد عثمان خان بزدار اسے دیانت دار و فرض شناس پولیس آفیسر کہتے ہیں.سب سے بڑی بات خلق خدا کے مختلف طبقات اس شخص کو دعاؤں کے ساتھ یاد کرتے ہیں. میں سـجھتا ہوں کہ یہ کوئی عام بات نہیں ہے.ہمارے نمبر ون اگر کسی رنگ و روپ،کسی شکل و حلیے وغیرہ میں کسی بھی جگہ ہو سکتے ہیں تو اللہ والوں کی شکل اور حلیہ بھی کوئی ہو سکتا ہے.ایمان،ایمان کی قسمیں و شکلیں، ایمان کی کیفیت، ایمان کے درجے یہ ایک علیحدہ اور بہت لمبی بحث ہے.سچ بولنے، سچ لکھنے، حق و سچ کہنے اور کرنے کا تعلق یقینا ایمان کی اندرونی کیفیت سے تعلق رکھتاہے.
محمر عمر شیخ کو کورٹس کے چکر لگوانے پر کس نے اور کیوں مجبورکیا ہے.لاہور سے دور، بیورو کریسی دور، سیاستدانوں سے دور ضلع رحیم یارخان کے مضافات گانگا نگر میں بیٹھ کر لکھنے والے کالم رائٹر کے لیے یہ کِس اور کیوں خاصا کَس کا معاملہ ہے.مجھے امید ہے کہ بہت جلد ہمیں محمد عمر شیخ کا متوقع کتابچہ ُ ُمجھے ملازمت سے جبری ریٹائرڈ کیوں کیا گیا ٗ ٗ. یا ُ ُ میری ملازمت سے جبری ریٹائرمبٹ کے پیچھے کون تھے? ٗ ٗ پڑھنے کو ملے گا. اس کے ساتھ ساتھ ان کی دوسری کتاب ُ ُ میں نے ینگ پٹریاٹس پارٹی کیوں بنائی ٗ ٗپڑھنے کے لیے دستیاب ہوگی. محمد عمر شیخ اور ان کی کامیابی کے لیے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں. ویسے ایک بات میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی کہ عمر شیخ نے اپنی مستقبل کی مجوزہ پارٹی اور اصلاحی و فلاحی کام کرنے کےلیے صرف لاہور تک محدود رہنے کا اظہار کیوں کیا ہے. سرائیکی وسیب کے ہو کر سرائیکی وسیب میں کچھ کرنے کے لیے ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے یا وہ لاہور میں پذیرائی دیکھنے کے بعد آگے بڑھیں گے. کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ سرائیکی وسیب کے وڈیروں سے خوف زدہ ہوں اور محکوم و غلامانہ سوچ میں مبتلا عوام کی اکثریت سے مایوس اور ناامید ہوں. ویسے دستیاب میٹریل اور متوقع پوٹنشل کو دیکھ کر ہی کوئی اپنے کسی منصوبے اور پراجیکٹ کو وہاں پر لانچ کرتا ہے.اب سرائیکی وسیب کے بڑے بڑے ناموں والے جاگیردار، وڈیرے صنعت کار سیاستدانوں کو دیکھیں تقریبا سبھی لاہور یا سلام آباد میں رہتے ہیں وہاں پڑھتے ہیں. شادیاں بھی وہاں کرتے ہیں اور تقریبا مرتے بھی وہاں ہیں. اپنے علاقے میں وہ یا تو الیکشن لڑنے کے لیے آتے ہیں یا پھر دفن ہونے کے لیے کیونکہ وہ لاہور سے الیکشن جیتنا تو دور کی بات ہے صرف الیکشن لڑنے کا بھی نہیں سوچتے.(آپ اس فہرست میں جماعت اسلامی سے وابستہ سیاستدان حضرات کو شامل نہ کریں) .کیونکہ انہیں وہاں عوام کی سوچوں رویوں اور اپنی عادتوں و رویوں کا بخوبی علم ہے. اس لیے یہ سمجھ دارلوگ وہاں سے الیکشن لڑنے والی ایسی ویسی غلطی نہیں کرتے.ہاں البتہ مخصوص کلبوں کے الیکشن ضرور لڑتے ہیں. رہی بات دفن ہونے والی تو اس کی بھی بڑی وجہ ہے کہ اپنے وسیب اور اپنے علاقے میں یہ اس لیے دفن ہونا پسند کرتے ہیں کہ یہاں پر کسی بڑے دربار کے احاطے میں یا اس کے ساتھ ہی ان کا مزار یا قبر بنتی ہے پھر یہاں عقیدت مند حضرات باقاعدہ حاضریاں دیتے ہیں منتیں مانتے ہیں.لاہور میں مزار یا دربار اور پھر منتیں نہ بھائی نہ یہ بہت مشکل کام کام ہے. اللہ معاف فرمائے ہمارے ملک اور سماج میں اس وکھرے ٹائپ نظام و سسٹم کی کسی کو کوئی سمجھ نہیں آئی کہ اصل گڑ بڑ کہاں ہے کون کر رہا ہے اور ذمہ داران میں کون کون لوگ شامل ہیں. جن کو کچھ سمجھ آتی ہے. ان کے لیے یہ راستے ہوتے ہیں. مروجہ نظام سے سمجھوتہ کرکے چلیں، خاموشی سے کنارا کشی اختیار کرکے اپنا وقت گزاریں،سرکشوں کو خاموش کرانے یا پار بھیجنے کے سو طریقے ہیں.تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کو مختلف اور عجیب و غریب قسم کے بوہے باریوں سے گزار گزار کر ایسے تبدیل کر دیا جاتا ہے کہ بے چارے خود ڈوڈر کاں کی طرح اپنی بولی بھی بھول جاتے ہیں. خواب چکنا چور اور منزلیں کوہ ہمالیہ اور کوہ سلیمان کے سلسلوں کی طرح پھیل کر دور ہوجاتیں ہیں. بندہ تھک جاتا ہے یا تُھک جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ نئے پاکستان کی تعمیر کا کام بھی رک جاتا ہے.
محمد عمر شیخ جی سچ تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسے بڑے اور گہرے دلدل کے تالاب میں ہیں.جس کی نچلی سائیڈ میں قبرستان ہے اور آسمان کی طرف اوپر والی سائیڈ پر تھوڑے ہی فاصلے پر غیر مرئی باریک آہنی تاروں والے جال کے سلسلے ہیں جن کا علم اُڑان بھرنے اور ٹکرانے پر ہی ہوتا ہے.اکثریت تالاب میں اپنے ایام پورے کرنے کے بعد آرام سے وہاں سے نیچے چلی جاتی ہے. کچھ سر پھرے اور جوش و جذبے والے جب اوپر کی طرف اُڑانیں بھرتے ہیں انہیں تب پتہ چلتا ہے کہ ان کے اوپر باریک باریک مگر مضبوط آہنی تاروں والے بہت دور درو تک پھیلے ہوئےجال ہیں بس اس سے ٹکرا کر نیچے آ جاتے ہیں یا گر پڑتے ہیں. اکثریت حوصلہ ہار دیتی ہے.
ایک دوسرے سے پہلے اور آگے نکل جانے کے چکر میں چکرا کر ہم چکروں کی زد میں ہیں. جس دن عوام نے اپنے ذہنوں اور دلوں سے خوف اور غلامی کو نکال پھینکا یقین کریں صرف تبدیلی نہیں انقلاب برپا ہو جائے گا.میرٹ اور انصاف کے راستوں میں اُساری گئی دیواریں گر جائیں گی. بے خوف و خطر ظلم و زیادتی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کانپتے نظر آئیں گے. استحصالی اور قبضہ گیر گروہ راہ راست کے راستوں پر بھاگتے دکھائی دیں گے.بس اندر کےاحساس اور ضمیر کے بیدار ہونے کی دیر ہے. پھر جرات و دلیری سے استقامت کے ساتھ سامنا کرنے کی ضرورت ہے.جو لوگ اور قومیں صدقِ دل سے اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں یقین کریں یہ خدائی نظام ہے ان کے حالات بدل جایا کرتے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم لوگ اپنے، اپنے وسیب اور اپنے دیس کے حالات بدلنے چاہتے ہیں یا نہیں. اگر بدلنا چاہتے ہیں تو کیا ہم اس میں اپنا اپنا انفردای اور اجتماعی کردار بھی ادا کر رہے ہیں یا نہیں?
محترم قارئین کرام،، میں لکھتے لکھتے کہیں دور نکل گیا تھا.ہم عمر شیخ کی بات کر رہے تھے. محمد عمر شیخ ایک داستان ہے. اس داستان کی باقی باتیں پھر کسی وقت سہی.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author