عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی شہر ڈینور میں خبروں کے چینل 9 نیوز میں مختصر عرصہ کام کرنے کا موقع ملا، چینل کے نیوز ڈائریکٹر ٹم ریان نے پہلے دن میری دلچسپی پوچھی تو میں نے بلا تردد کہہ دیا کہ کورٹ رپورٹنگ۔
ہدایت ملی کہ کل سویرے چینل کے دفتر پہنچ جاو، نہایت اہم عدالتی ٹرائل کی کوریج کرنی ہے۔ میں یہ سوچ کر اگلی صبح دفتر پہنچی کہ نیوز ٹیم کے ساتھ عدالت جانا ہو گا مگر مجھے بتایا گیا کہ چینل نے ایک کمرہ عدالتی کوریج کے مختص کیا ہوا ہے، وہاں پہنچو۔
کمرے کے دروازے پہ لکھا تھا ‘تھیٹر شوٹنگ ٹرائل‘۔
چھوٹے سے کمرے میں ایک طرف چائے، کافی، پاپڑ اور چاکلیٹ وغیرہ کا انتظام تھا، دوسری جانب کئی اسکرینوں کا پینل لگا ہوا تھا۔ ٹی وی اسکرین پہ عدالت کا منظر تھا، جس میں جج، وکلاء اور گواہان نظر آرہے تھے، جن کی جرح چل رہی تھی۔ اسکرین پہ نظریں گاڑے ہوئے نوجوان کاپی ایڈیٹر بیٹھی تھی، جو چپس کھاتی جاتی کہ عدالتی کارروائی کو لفظ بہ لفظ اپنے کمپیوٹر پہ لکھتی جاتی۔
یہ 2012 میں امریکی ریاست کولوراڈو کے ایک تھیٹر میں فائرنگ کر کے بارہ افراد کو مارنے والے قاتل جیمز ہومز کا ٹرائل چل رہا تھا۔ یہ ٹرائل جسٹس نیٹ ورک نامی لائیو اسٹریمنگ چینل کے ذریعے براہ راست نشر کیا جا رہا تھا، جسے امریکی میڈیا سارے ملک کیا ساری دنیا کو دکھا رہا تھا۔
ایک قاتل کے ٹرائل کو براہ راست دکھانے کے لیے امریکی عدالت نے خاص ضابطے طے کیے تھے، جس کے مطابق ورثاء اور عدالت میں پیش ثبوت قریب سے نہیں دکھائے گئے، قاتل جیمز ہومز اور جیوری کو دکھانے پر پابندی تھی۔ عدالتی کارروائی صرف ایک رخ سے ایک ہی کیمرے نے ریکارڈ اور نشر کی۔
عدالت نے سماعت اگلے روز تک ملتوی کی تو میں نے نیوز ڈائریکٹر پر کسی وکیل کی طرح سوالات کی بوچھاڑ کر دی کہ ایک عدالتی کارروائی کو براہ راست نشرکرنےکی کیا ضرورت ہے؟
نیوز ڈائریکٹر ٹم ریان کہنے لگے کہ تھیٹر شوٹنگ سے کئی خاندان اجڑے، عوام میں خوف پھیلا، متاثرہ فریق عام عوام ہیں، انہیں اس مقدمے میں دلچسپی ہے، امریکی آئین بھی معلومات تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے یہ عوام کا حق ہے کہ وہ عوامی دلچسپی کی عدالتی کارروائی دیکھیں۔
ٹم ریان میرے سوال پہ حیران تھے، الٹا وہ پوچھنے لگ گئے کہ کیا پاکستان میں عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا کوئی رواج نہیں؟ میں اس اللہ کے بندے کو کیا بتاتی کہ ٹی وی پہ لائیو کوریج تو دور کی بات ہے، ہم تو اسی پہ شکر بھیج رہے ہیں کہ کم از کم عدالتی کارروائی کی کوریج پہ پابندی نہیں۔
امریکا میں عدالتی کارروائی ریکارڈ اور نشر کرنے کی بحث 1972ء سے چل رہی ہے۔ یہ وہی سال ہے، جب امریکا کی کورٹ آف اپیل نے شکاگو میں ویت نام جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے سات افراد کو باعزت بری کر دیا تھا اور ٹرائل کورٹ کے جج جولیس ہوف مین کا عدالتی رویہ نفرت پہ مبنی قرار دیا گیا تھا۔
ان سات سیاسی اور سماجی کارکنوں کو شکاگو کی مقامی ٹرائل کورٹ کے جج نے امریکا کے خلاف سازش رچانے والے قرار دیا تھا جبکہ دوران سماعت ملزمان پر 170 مرتبہ توہین عدالت کے چارجز لگائے گئے تھے۔ اگر کمرہ عدالت میں کیمرہ موجود ہوتا تو یقیناً جج صاحب کو ایک سیاسی مقدمے کے ملزمان پر 170 مرتبہ توہین عدالت لگانے سے پہلے 170 مرتبہ سوچنا پڑتا۔
برطانیہ میں بھی بڑے براڈ کاسٹنگ اداروں نے باقاعدہ مہم چلا کر، لابنگ کر کے یہ سہولت حاصل کی، 2013ء میں پہلی مرتبہ برطانیہ کی کورٹ آف اپیل نے کمرہ عدالت میں ٹی وی کیمروں کی اجازت دی۔
ججز کمرہ عدالت میں کھرے کو کھوٹا اور سیاہ کو سفید بھی کر دیں تو رپورٹ وہی ہوتا ہے، جو عدالتی کارروائی کے عینی شاہد یعنی رپورٹرز بتانا چاہتے ہیں۔ وہ بھی اپنے سیاسی رجحان، پسند نا پسند اور قانونی سمجھ بوجھ کے مطابق ہی رپورٹ کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کے باعث تو یہ مسئلہ اور بھی شدید ہو گیا ہے۔
ہارون بلوچ ہمارے دوست ہیں، بھلے آدمی خیر سے صحافی ہیں اور استاد بھی۔ انہوں نے اسلام آباد کی ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کر رکھی ہے، جس میں درخواست کی ہے کہ عوامی دلچسپی کے مقدمات کی عدالتی کارروائی کو ریکارڈ اور براڈ کاسٹ کی اجازت دی جائے، قواعد بنائے جائیں اور عدالتی کارروائی کو تحریری شکل میں آن لائن شائع کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے:اسی نوے والی سیاست دوبارہ نہیں دیکھنی||عفت حسن رضوی
ہارون سے اس پٹیشن کو دائر کرنے کا سبب پوچھا تو کہنے لگے عوامی نوعیت کے عدالتی معاملات میں شفافیت لانے کے لیے ویڈیو ریکارڈنگ کا براڈ کاسٹ ہونا ضروری ہے۔ آرٹیکل 19 اے معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے، پارلیمنٹ کی مثال موجود ہے، جس کی کارروائی براڈ کاسٹ کی جاتی ہے تو عدالتیں کیوں نہیں؟
ویسے تو عدالت کی لائیو اسٹریمنگ کا معاملہ، لاء اینڈ جسٹس کمیشن ، وزارت قانون اور سپریم کورٹ تینوں کو مل کر دیکھنا چاہیے مگر ان کے اور بڑے جھمبیلے نمٹانے کو پڑے ہیں، وہ کہاں یہ نئی گھنٹی اپنے گلے آپ باندھیں گے۔
مگر لائیو براڈ کاسٹنگ کے معاملے کو اور کوئی نہ سہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ تک لے آئے۔ جسٹس عیسیٰ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ ان کے مقدمے یعنی صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ فیصلے کی نظرثانی کیس اور دیگر عوامی نوعیت کے تمام مقدمات کی سماعت براہ راست دکھائی جائے تاکہ درست معلومات پہنچ سکے۔
سپریم کورٹ کے چھ ججز نے اس درخواست کو مسترد کیا جبکہ چار ججز نے اس درخواست کے حق میں رائے دی۔ اس سے ہم یہ بھی مثبت پہلو نکال سکتے ہیں کہ اگر درخواست گزار جسٹس عیسیٰ کو بھی ملا لیں تو یہ کل پانچ ججز ہیں، جو کہ اس حق میں ہیں۔
عدالت کا کمرہ اور کیمرا۔ میری دانست میں تو پاکستان میں یہ سوچ نئی ہے، اسی لیے اکثریت کو یہ آئیڈیا قبول کرنے میں ذرا وقت لگے گا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ کم از کم کہیں سے تو عوام کے اس حق کے لیے بحث کا آغاز ہوا۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر