نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان میں اینٹی بھٹو سیاست||عامر حسینی

ایک وقت تھا جب پی پی پی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہوکر پاکستان قومی اتحاد - پی این اے بنایا اور اُس کا صدر مذھبی جماعت جے یو آئی ایف کا مولوی مفتی محمود کو بنایا گیا اور جنرل سیکرٹری جے یو پی کا رفیق باجوہ بنایا گیا -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک وقت تھا جب پی پی پی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہوکر پاکستان قومی اتحاد – پی این اے بنایا اور اُس کا صدر مذھبی جماعت جے یو آئی ایف کا مولوی مفتی محمود کو بنایا گیا اور جنرل سیکرٹری جے یو پی کا رفیق باجوہ بنایا گیا – اس اتحاد میں کہنے کو ترقی پسند، قوم پرست جماعتیں بھی تھیں لیکن اصل کھلاڑی مذھبی جماعتیں ہی تھیں اور اس اتحاد نے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کو نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی تحریک بناکر رکھ دیا- مسجدیں اور مدرسے اس تحریک کو افرادی قوت فراہم کرنے میں لگ گئے اور مسجدوں کے منبروں پہ آئمہ مساجد نے مسجد آنے والوں کے زہن میں یہ بات نقش کی کہ پی این اے کی تحریک والے نظام مصطفی لانے کی کوشش کررہے ہیں جو پاکستان بنانے کا مقصد ہے اور بھٹو اور اُس کی پارٹی جو یہود و ہنود و نصاریٰ اور بے دینوں کی جماعت ہے اس کے آڑے آرہی ہے، عشقِ رسول اللہ کا تقاضا ہے کہ اپنا تَن مَن دھن اس تحریک کے لیے وار دیا جائے – پنجاب اور سندھ کے شہری مراکز اس تحریک کا مرکز بن گئے – تحریک کو لاشوں کی ضرورت بھی تھی اور تحریک کے پیچھے جہاں اُس وقت ملک کے بڑے بڑے صنعت کاروں، تاجروں، جاگیرداروں کا لگایا سرمایہ کام کررہا تھا، وہیں فوج، پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیوں میں اینٹی بھٹو کیمپ بھی اپنا ہاتھ دکھارہا تھا- پی این اے کی تحریک کا سادہ لوح، عام کارکن اور حامی تو اسے دین کی لڑائی سمجھ کر لڑ رہا تھا جبکہ اس دوران جماعت اسلامی، احراری منجھے ہوئے پرانے مذھبی کارکنوں نے اپنے ہی جلسوں میں بم بھی پھینکوائے جس کا الزام پی پی پی کے کارکنوں اور ایف ایس ایف پہ لگایا گیا اور یہ بھی کوئی بعید نہیں ہے کہ ایف ایس ایف میں بھی کالی بھیڑیں ہوں گی جنھوں نے پی این اے کے احتجاج میں شریک لوگوں پہ بم پھینکوائے ہوں، فائرنگ کروائی ہو – جماعت اسلامی، جے یوپی، جے یو آئی، احراری اور ولی خان کے حامی کارکنوں کا رویہ بھی بہت زیادہ متشدد تھا، انھوں نے پی این اے کے جلوسوں میں پی پی پی کے حامی دکانداروں، گھرانوں پہ حملے کیے، سرکاری املاک پہ حملے ہوئے، آتش زنی کی وارداتیں ہونے لگیں اور پی این اے میں شامل ملاں اُس تحریک کے ہر کارکن کو مرجانے کی صورت میں جنت میں اعلیٰ مقام پانے کی خوش خبری سُناتے پائے جاتے –
میرے شہر خانیوال میں بھی نظام مصطفیٰ کی تحریک کا پورا زور تھا اور یہاں بھی کہچری بازار میں پی پی پی کے حامیوں کی دکانیں جلاکر راکھ کردی گئی تھیں جبکہ پولیس و ایف ایس ایف سے لڑنے کے لیے دو بدو رائفل بردار، دستی بموں سے لیس کارکن موجود تھے، چوک سنگلہ والہ میدان جنگ بنا اور پی این اے کے جلوس میں شریک حضور بخش طالب علم جامعہ عنائتیہ اور ایک غریب گھرانے کا نوجوان ظفر جو چھے بلاک کا رہائشی تھا فائر لگنے سے جان سے گئے اور یوں دو شہید میسر آئے، چوک سنگلہ والہ ظفر شہید چوک کہلایا اور مدینہ مسجد چوک حضور بخش چوک…. ان دو شہیدوں کے عالم برزخ میں مقام بارے بہت سی جذباتی تقاریر ملاؤں نے کیں، اس دوران پولیس اور ایف ایس ایف کا تشدد، جیلیں، قید و بند الگ سے لوگوں نے برداشت کیں، کئی دیہاڑی دار، ریڑھی والے، ٹھیلے والے، چھوٹے دکاندار مذھبی جوش و جذبے میں روزی روٹی سے بھی گئے، کئی طالب علموں کا مستقبل تباہ ہوگیا، ان میں ہمارے سینیر دوست جو نشتر میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے طالب علم تھے اور بہت ذہین تھے تعلیم چھوڑ کر پرتشدد تحریک کا حصہ بنے، گرفتار ہوئے، سزا ہوئی جیل چلے گئے اور یوں ڈاکٹر بننے سے رہ گئے اور بعد ازاں محکمہ فارسٹ میں معمولی سی نوکری ملی وہ بھی کئی سالوں بعد، آج بھی ہمارے وہ سینئر دوست ڈاکٹر دلاور کے نام سے مشہور ہیں اور پورا خانیوال اُن کی زہانت و قابلیت کا معترف ہے اور اُن کے ڈاکٹر نہ بن پانے پہ اظہار تاسف کرتا ہے، ڈاکٹر دلاور تلخ ہوجاتے ہیں اور اکثر وہ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اُن کو صرف یہ افسوس نہیں کہ اَن کا مستقبل تاریک ہوا بلکہ افسوس اور ملال یہ ہے کہ وہ ایک ایسی تحریک کا حصہ بنے جس کے نتیجے میں قائد اعظم جناح کے بعد اس قوم کو ملنے والا حقیقی سٹیٹس مین، لیڈر پھانسی چڑھ گیا- ہمیں اُس وقت سمجھ آئی جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت –
میرے والد، اُن کے چچا زاد بھائی سب گھرانے پی این اے کی تحریک کے سرگرم کارکن تھے، جے یو پی کے خادم تھے اور مولانا نورانی، پیر حامد علی خان سمیت اُس وقت کی بریلوی مذھبی سیاسی قیادت پہ جان مال سب کچھ نچھاور کرنے پہ تیار تھے – میرے والد سمیت جے یوپی، پی ڈی پی ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی ایف، جمعیت اھل حدیث کے کئی جوشیلے کارکن رات کی تاریکی میں پرتشدد کاروائیوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ پی این اے میں شامل مذھبی تنظیموں کے کارکنوں کا ایک جتھا ایسا تھا جس کے پاس اگر وافر اسلحہ، گولا بارود ہوتا تو وہ پی پی پی، ایف ایس ایف کی تباہی کرڈالتے اور اُن کو یہ سب کام اسلام کی خدمت لگ رہے تھے – اُن کو نظامِ مصطفیٰ کے نفاذ کے خواب دکھائے گئے تھے، میرے والد سمیت اُس وقت پی این اے کی تحریک کے یہ پرجوش کارکن کھاتے پیتے کاروباری گھرانوں کے نوجوان تھے (ہمارے خاندان کی سبزی منڈی میں آڑھت کی دکانیں تھیں جو آج بھی ہیں) والد صاحب کا کہنا ہے کہ بعد ازاں اس تحریک کا جو حشر ہوا اور انھوں نے پی این اے کی جماعتوں کو لوٹ مار، کرہشن، بدعنوانی کی دلدل میں دھنستے اور پی این اے کی تحریک کے دوران جانیں گنوانے والے، تعلیمی مستقبل تباہ کربیٹھنے یا چھوٹے موٹے کاروبار کی تباہی کروا بیٹھنے والے خاندانوں کی کسمپرسی میں زندگی گزرتے دیکھی اور ملاؤں کے ہاں دولت اور آسائش کے مناظر دیکھے تو اس نے اُن کو سیاست سے یکسر دور کردیا- میرے والد مائل بہ تصوف ہوکر دنیا سے کٹ کر رہ گئے ان کام بس آڑھت کی دکان اور گھر تک محدود رہنا ہوگیا- وہ مذھبی سیاست سے شدید طور پہ متنفر ہوگئے – اور یہ ایک مثال نہیں ہے اُس زمانے کی بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں – اس کے برعکس پی این اے کی تحریک میں مذھبی سیاست کے استعمال کے فوائد کو جان لینے والی ایک کھیپ بھی پیدا ہوئی جو بعد ازاں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے زیرسایہ پنپنے والی مخصوص طرز کی سیاست کا بازو بنے، آج کی مسلم لیگ نواز سے لیکر جماعت اسلامی تک اور دیگر دائیں بازو کی کئی ایک مذھبی جماعتوں کے اندر اور اس سے ہٹ کر ضیاء الحق دور میں جنم لینے والی تکفیری اور جہادی جماعتوں کی ھیرارکی میں مذھبی سیاست سے پیسہ، طاقت، سماجی مرتبہ بنالینے والوں کی کمی نہیں ہے –
مذھب کے ان ٹھیکے داروں کے پاس مساجد و مدارس کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے اور ساتھ ساتھ ان کے مارکیٹ، بازار، صنعت کاروں، ٹھیکے داروں، سٹہ بازوں کی دنیا میں بھی اسٹیک ہیں، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے اندر ان کے بڑے اسٹیکس ہیں یہ باہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، بریلویوں سے ہٹ کر دیوبندی اور اھلحدیث کے ملاؤں کا ایک بڑا سیکشن افغان جہاد، کشمیر جہاد، سعودی – ایران کش مکش کے دوران بڑے پیمانے پہ سعودی فنڈنگ سے کاروبار کے مختلف شعبوں میں اپنے ڈائریکٹ روابط پیدا کرچکا ہے، اب یہ سیاسی ملاں محض صنعت کاروں، تاجروں اور عام آدمی کی ڈونیشن اور سرپرستی کے رشتے میں نہیں ہیں بلکہ کئی جگہوں پہ تو یہ خود اُن کے شراکت دار ہیں، پھر بڑی بڑی مارکیٹوں کے تحفظ کے لیے بھی ان کی خدمات درکار ہیں – ملاؤں کے اندر بھی سماجی طبقاتی درجہ بندی موجود ہے اور اُسی اعتبار سے ان کے رویوں اور کردار میں بھی فرق ہے – مسجد – مدرسہ اور کاروبار کے درمیان جو کنکشن ہے یہ کنکشن آج کے بلوائیت پسند سیاسی و مذھبی ملائیت کی جان ہے – اور پھر یہ کنکشن زیادہ بڑے لیول پہ ہماری غیر منتخب ھئیت مقتدرہ کے اندر دھڑوں سے مل جاتا ہے – پاور، پیسہ اور سماجی مرتبے کی یہ جنگ جو مذھبی رنگوں کے ساتھ ہوتی ہے اس میں بار بار جنگ کے ایندھن بننے والے پیدل سپاہیوں کی ایک پرت جو بالکل نیچے سے آتی ہے وہ حکمران طبقات کی صفوں میں سیٹل ہوجانے والوں کے درمیان پیدا تضاد، مسابقت اور اس سے جنم لینے والی لڑائی کاپھر ایندھن بنتی ان میں سے لچھ کو اپنے ساتھ حکمران طبقات سیٹل کرلیتے ہیں اور اکثر ریاست سے لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں…….
ترقی پسند جمہوری سیاست کا المیہ جو اس طرح کے دائیں بازو کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتی تھی یہ ہے کہ وہ ایسے اداروں میں وجود ہی نہیں رکھتی جو مسجد-مدرسے – بازار کے باہمی روابط سے بننے والی رجعت پرستی کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتے آئے، طلباء یونین پہ پابندی ہے، طلباء میں سیاسی کام ممنوع ہے، ٹریڈ یونین پاکٹس ہیں، سیکولر اور سنٹر لیفٹ سیاسی جماعتوں کے پرائمری یونٹس تو کیا ٹھیک سے تنظیمی ڈھانچہ بھی نہیں ہے – جب کبھی مذھبی فاشزم، مذھبی جذباتیت کا طوفان اٹھتا ہے، نوجوانوں کے مذھبی جذبات سے کھیلا جاتا ہے تو اُس کے مقابلے میں ہمارے پاس ترقی پسند تحریک کی تعمیر کے لیے جگہ نہیں ہوتی، ترقی پسند تحریک کی تعمیر کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں کے اندر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ہمارے پاس یہ دونوں ہی نہیں ہیں…..

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی زاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author