نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جب ماہواری پچھل پیری بن جاتی ہے!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

سرجری میں کیمرے نما اوزاروں (Laparoscopy) سے چاکلیٹ سسٹ نکالی جاتی ہیں لیکن یہ سسٹ دوباره تو بنتی ہیں ہی، بیضہ دانی سے انڈہ بننے کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے جس سے بانجھ پن کی شکایت سامنے آتی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے میسنجر میں آیا برقی پیغام کہانی سناتا تھا!

“میری دوست کا لندن میں آپریشن ہو رہا تھا۔ وہ دو بچوں کی ماں اور عرصہ دراز سے پیٹ میں درد کی وجہ سے بے حال رہتی تھی۔ ماہواری کے ساتھ ہونے والا درد روز مرہ کے معمولات کو مشکل بنانے کے ساتھ زندگی کے رنگ بھی پھیکے بنا چکا تھا۔ کوئی انجیکشن اور کوئی گولی ایسی نہ تھی جو کچھ گھڑیاں سکون سے گزرنے دیتیں۔

ازدواجی تعلقات میں ہم بستری بھی کسی عذاب سے کم نہ تھی، محض تصور ہی رگوں میں انگارے بھر دیتا۔

کافی دواؤں کے استعمال کے بعد جب کچھ افاقہ نہ ہوا تو ڈاکٹرز نے آپریشن کرنے کی ٹھانی۔ لیکن لیپروسکوپ ( laparosccope) میں جو نظر آیا وہ بیماری کی انتہا یعنی آخری سٹیج تھی۔اندرونی اعضائے مخصوصہ انتڑیوں سے جڑے ہوئے تھے۔ ڈاکٹرز کے لئے آپریشن مکمل کرنا ممکن نہیں تھا۔ اب بتائیے کیا کیا جائے؟”

ہم کچھ مدت سے سوچ ہی رہے تھے کہ اس موذی مرض پہ لکھا جائے جس کی آگہی نہ ہونے کے برابر ہے اور مرض ایسا کہ زندگی کی سب مسکراہٹیں چھین کے بھی بہتر نہ ہو۔ بد قسمتی سے اس بیماری کا ابھی تک قاعدے کا علاج بھی دریافت نہیں ہوا۔

بیماری کے احوال سے پہلے کچھ بنیادی باتیں جان لیجیے۔ ماہواری میں آنے والے خون میں رحم کی اندرونی جھلی بھی شامل ہوتی ہے جسے endimetrium کہا جاتا ہے۔ ماہواری کے دوران رحم وقفے وقفے سے اپنے آپ کو سکیڑتے ہوئے اس خون مکسڈ اینڈومیٹریم کو جسم سے خارج کرتا ہے۔ رحم جہاں بیرونی فضا سے ویجائنا کے ذریعے تعلق رکھتا ہے وہیں اندرونی جسم سے فیلوپین ٹیوبز کے ذریعے سے منسلک رہتا ہے۔ یہ فیلوپین ٹیوبز وہی ہیں جو بیضہ دانی سے بیضہ رحم کو منتقل کرتی ہیں بلکہ بیضہ اور سپرم کا ملاپ بھی ٹیوب میں ہی ہوتا ہے۔ نارمل ٹیوبز کے بنا حمل نہیں ٹھہر سکتا۔

جب کبھی ماہواری کا خون رحم سے باہر آنے کے ساتھ ساتھ ٹیوبز کے ذریعے پیٹ کے اندر بیضہ دانی کے اردگرد والی جگہ پہ جانے لگے اور وہاں اس خون ملی اینڈومیٹریم سے اعضا کی نارمل ہیت بگڑنے لگے، وہی اس بیماری کا نقطہ آغاز ہے جسے endometriosis کہا جاتا ہے۔

اس بیماری کی پہچان ہی شدید قسم کا درد ہے جو پیٹ کے نچلے حصے اور کمر میں اٹھتا ہے۔ ماہواری کے دوران روح کھینچ لینے والا درد، ہم بستری سے ہونے والی جان لیوا تکلیف، بول و براز سے وابستہ درد اور پیٹ کے نچلے حصے میں ہمیشہ رہنے والی تکلیف دہ کیفیت اسی بیماری کا شاخسانہ ہے۔

اینڈومیٹریوسس صرف درد کو ہی جنم نہیں دیتا بلکہ مختلف پیچیدگیوں کو بھی جنم دیتا ہے۔ بانجھ پن، بیضہ دانی میں بننے والی چاکلیٹ سسٹ (chocolate cyst), انتڑیوں کے ساتھ رحم اور ٹیوبز کا جڑ جانا (adhesions), ٹیوبز کا پھیل کے پائپ (Hydrosalpinx) بن جانا بھی اسی کا تحفہ ہیں۔

اینڈومیٹریوسس کا المیہ یہ ہے کہ ابھی تو سائنسی تحقیقات یہ دریافت نہیں کر سکیں کہ اس بیماری کا آغاز کن اسباب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک تھیوری تو ہم نے شروع میں بتا دی، دوسری تھیوریز میں جینیٹک اور امیون سسٹم کا دفاعی نظام کمزور ہونا ہے۔ ان سب تھیوریز کے باوجود حتمی طور پہ کچھ معلوم نہیں کیا جا سکا کہ کون سی خواتین اس کا شکار بنیں گی اور کب؟

اینڈومیٹریوسس کا علاج بھی اسی دبدھا کا شکار ہے۔ کوئی بھی دوا اس بیماری کو مکمل طور پہ نہ تو روک سکتی ہے اور نہ ہی اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا سکتی ہے۔

اینڈومیٹریوسس کی مریضہ کا بنیادی مسلہ درد ہے۔ اگر درد ختم کرنے والی دواؤں سے آرام نہ آئے تو ہارمونز دیے جاتے ہیں۔ ہارمونز کے سائیڈ ایفیکٹس بعض مرتبہ ان کے طویل استعمال میں ایک رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ ایک اور طریقہ علاج دواؤں کی مدد سے ماہواری روک دینا ہے جس سے درد میں بہت افاقہ ہوتا ہے۔ لیکن جب بھی دوائیں روکی جائیں، ماہواری دوبارہ چالو ہوتے ہی درد لوٹ آتا ہے۔

سرجری میں کیمرے نما اوزاروں (Laparoscopy) سے چاکلیٹ سسٹ نکالی جاتی ہیں لیکن یہ سسٹ دوباره تو بنتی ہیں ہی، بیضہ دانی سے انڈہ بننے کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے جس سے بانجھ پن کی شکایت سامنے آتی ہے۔

اعضا کے آپس میں جڑ جانے سے پیدا ہونے والی شدید درد کا نہ تو دواؤں سے آرام آتا ہے اور نہ ہی کوئی حتمی علاج سوائے اس کے کہ رحم، ٹیوبز اور بیضہ دانی ہی آپریشن کر کے نکال دی جائے تاکہ مریضہ ایک تکلیف دہ زندگی سے نجات پائے۔ اکثر اوقات مریضہ کے خاندان کو یہ حل قبول نہیں ہوا کرتا کہ وہ اس درد کو محسوس ہی نہیں کر سکتے جس سے مریضہ گزر رہی ہوتی ہے۔

ہمیں اپنی ایک مریضہ یاد آ گئیں جو اپنے اعزا کی مرضی کے خلاف گھر سے بھاگ کر یہ کہتے ہوئے ہسپتال پہنچ گئیں تھیں کہ جس طرح کی زندگی وہ گزار رہی ہیں اس سے نجات کے لئے آدھا جسم بھی کٹوانا پڑا تو انہیں قبول ہو گا۔

اینڈومیٹریوسس اگر اپنی چوتھی اور آخری سٹیج پہ پہنچ جائے تو اس کا واحد حل یہی ہے کہ سرجن اور گائناکالوجسٹ مل کر آپریشن کریں اور رحم، ٹیوبز، بیضہ دانیوں کے ساتھ اگر ضرورت ہو تو انتڑیوں کا کچھ حصہ نکال دیا جائے جس سے جسم کے بقیہ معمولات متاثر نہیں ہوتے۔ اور اگر کہیں کچھ مسئلہ ہو بھی تو کوالٹی آف لائف اس بیماری کے علاج میں ایک بنیادی امر گردانا جاتا ہے۔

اینڈومیٹریوسس جیسی موذی اور ظالم بیماری زندگی کو ایک ایسے روگ میں بدل دیتی ہے جس کا مستقل بنیادوں پہ سرجری کے علاوہ کوئی علاج نہیں۔ مرے پہ سو درے کے مصداق ہمارے معاشرے میں ہر درجے پہ آگہی کی کمی اس بیماری کو ایک ڈراؤنا خواب بنا دیتی ہے جسے دیکھنے والا اور خواب سننے والا دونوں ہی کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں کہ کونسا راستہ اختیار کیا جائے۔

About The Author